Inquilab Logo Happiest Places to Work

اگرکوئی بچہ اکیلے مشین اِسٹارٹ کر لیتا تو گائوں میں گھوم گھوم کر بتاتا تھا

Updated: May 25, 2025, 2:28 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai

ایک وقت تھا جب کھیتوں کے آس پاس’ ٹھک ٹھک‘ کی آواز سنائی دیتی تھی۔ اُس وقت سینچائی کا کام پمپنگ سیٹ سے ہوا کرتا تھا۔ اسے ہمارے یہاں پانی والی مشین یا انجن کہا جاتا تھا۔

Now, in the age of electronic machines, there is neither that noise nor that commotion. Photo: INN.
اب تو الیکٹرانک مشینوں کے زمانے میں نہ وہ شور ہے نہ ہنگامہ۔ تصویر: آئی این این۔

ایک وقت تھا جب کھیتوں کے آس پاس’ ٹھک ٹھک‘ کی آواز سنائی دیتی تھی۔ اُس وقت سینچائی کا کام پمپنگ سیٹ سے ہوا کرتا تھا۔ اسے ہمارے یہاں پانی والی مشین یا انجن کہا جاتا تھا۔ عام طور پر یہ مشین دس ’ہارس پاور‘ کی ہوتی تھی اور ایک جگہ فکس کرکے اسےلگایا جاتا تھا۔ اس کیلئے باقاعدہ ایک کمرہ تعمیر کیا جاتا جسے ’مشین کا گھر’ کہتے تھے۔ چھوٹا انجن جو پانچ یا سات ’ ہارس پاور‘ کا ہوتا تھا، اس میں ایک ٹرالی لگی ہوتی تھی اسے کھینچ کر تالاب، ندی یا بڑے نالے میں اس کا پائپ لگا کر کھیتوں کی سینچائی ہوتی تھی۔ سینچائی کیلئے بڑی فکس مشین تو اب بالکل ختم ہو چکی ہے لیکن یہ ٹرالی والی چلتی پھرتی مشین تالابوں اور ندی نالوں کے پاس اب بھی نظر آجاتی ہے۔ فکس مشین لگانے کیلئے باقاعدہ فائونڈیشن بنتا تھا، اس کو کہیں کہیں لسٹر مشین بھی کہتے ہیں۔ سینچائی کے ساتھ ساتھ یہ مشین چارہ بالنے (چارے کوکاٹ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرنے)کے کام بھی آتی تھی۔ اس میں پٹّا لگا کر چارہ بالنے والی مشین سےمویشیوں کے کھانے کیلئے چارہ تیار کیا جاتا تھا۔ اس کا استعمال سہولت بھرا ہونے کے ساتھ ہی خطرناک بھی تھاکیونکہ اس کی زد میں آنے والے افرادکی انگلیاں کٹیں تو بہتوں کو اپنے ہاتھ سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا تھا۔ 
دس’ہارس پاور‘ کی مشین کو اسٹارٹ کرنا بڑا مشکل بھرا کام تھا۔ ہینڈل اس کے چکے میں لگا کر بڑی طاقت سے گھمانےکے بعد وہ اسٹارٹ ہوتی تھی۔ بچے کبھی ہاتھ آزماتے تو دو چار چکر میں ہی ہانپ جاتے تھے لیکن بڑوں کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹاتے ان کو بھی مشین اسٹارٹ کرنا آ ہی جاتا تھا۔ جس دن وہ تنہا مشین کو اسٹارٹ کر لیتے تو پورے گائوں میں گھوم گھوم کر فخر سے بتاتے آج اکیلئے ہی مشین اسٹارٹ کر لیا۔ مشین اسٹارٹ کرکے اُس سے ہینڈل نکالنا بڑی چستی اور پھرتی کا کام تھا۔ ہینڈل لگا کر اسٹارٹ کرنے کے دوران اُس میں گاڑی کے گیئر لگانے کی طرح ایک سسٹم ہوتا تھا جو صحیح وقت پر اس کو ایک طرف گھمانا پڑتا تھا۔ کئی بار ایسا ہوتا جب گھر کے بڑے مشین اسٹارٹ کرنے جاتے تو کسی بچے کو ساتھ لے جاتے اور ہینڈل مارنے کے دوران جب مشین پوری رفتار پکڑ لیتی تو بڑی زور سے کہتے ’کاٹ‘ بس وہ بچہ اس گیئر کو ایک طرف گھما دیتا اور ٹھک ٹھک کرتا انجن اسٹارٹ ہو جاتا اور باہر بنے ٹینک میں لگی پانی کی موٹی پائپ سے تیز دھار کے ساتھ پانی نکلنے لگتا تھا۔ گائوں کے بچے اُس روز کئی کئی بار اُس ٹینک میں نہاتے تھے۔ 
کھیت دور ہونے پر’ مشین گھر ‘ کی رکھوالی کیلئے گھر کے کسی فرد کی ڈیوٹی لگتی تھی کیونکہ اکثر ایساہوتا کہ چور مشین کا کوئی قیمتی پارٹ کھول کر چوری کر لے جاتے تھے یا بعض اوقات رات کے اندھیرے میں پوری مشین ہی کھول لے جاتے۔ لسٹر مشین بڑے کام کی ہوتی تھی۔ اس سے سینچائی کے ساتھ دھان کوٹنے کی مشین لگا کر دھان کوٹا جاتا، اسے دھن کُٹّی کہتے تھے اورگیہوں پیسنے کیلئے چکی لگائی جاتی تھی۔ ہمارے علاقے میں جان محمد اور یوسف کی چکّی مشہور تھی۔ یہ جب چلتی تو اس کی پُک پُک کی آواز دور تک سنائی دیتی۔ آواز دور تک جائے اس کیلئے انجن کے سائلنسر پر ایک مٹی کا آب خورہ لگایا جاتا تھا جس سے سائلنسر کی آواز اونچی ہو جاتی تھی۔ چکی کی آواز بڑھانے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ چکی چل گئی اور وہ اب اپنا گیہوں پسوا سکتے ہیں۔ 
جب کبھی یہ مشین خراب ہوتی تو مستری ڈھونڈے جاتے تھے۔ تلاش بسیار جب وہ ہاتھ لگتے تو ان کے نخرے بھی خوب ہوتے۔ بھئی ابھی مجھے فلاں کی مشین ٹھیک کرنے جانا ہے، ابھی میرے پاس وقت نہیں ہے۔ خیر بہر حال جب وہ رِنچ پانا لے کر حاضر ہوتے، مشین کھولتے، معلوم ہوتا کوئی پارٹ خراب ہے۔ پھر کسی بندے کو شہر دوڑایا جاتا اور وہ جب پارٹ لے کر حاضر ہوتا تو اکثر مستری اُسے مسترد کردیتے... ارے میاں فلاں کمپنی کا منگایا تھا، یہ جس کمپنی کا لائے ہو یہ ہفتے بھر بھی نہیں چلے گا اور پھرسارا ٹھیکرا میرے سر پھوڑو گے۔ خیر مرتا کیا نہ کرتا وہ پھر اُلٹے پائوں شہر کی طرف روانہ ہوتا اور کہیں شام کا وقت ہو گیا ہے تو پھر یہ کام دوسرے روز کیلئے ٹال دیا جاتا اور اس روز مستری کے قیام طعام کا ذمہ سب مشین مالک کے سر ہوتا۔ اپنے گھر پر بیڑی پینے والا مستری، اُس روز سگریٹ سے کم پر بات نہیں کرتا۔ دوسرے روز مستری کی تجویز کردہ کمپنی کا پارٹ مل جاتا تو شہر دوڑنے والا بندہ راحت کاسانس لیتا۔ مستری پارٹ کو مشین میں فِٹ کرتا اور اس طرح مشین ٹھک ٹھک کی آواز کے ساتھ چلنے لگتی تو ...بگڑی مشین بن گئی کا شور اُٹھتا۔ 
سینچائی کے دوران اکثر ایسا ہوتا کہ انجن کا پٹّا ٹوٹ جاتا یا پنکھے سے اُتر جاتا تو مشین پر لوڈ ختم ہو جاتا۔ چنانچہ مشین بڑی رفتار سے چلنے لگتی تو آس پاس کے لوگ شور مچاتے ’ انجن بھاگا، انجن بھاگا ‘ پھر اُس کو جلدی سے بند کیاجاتا تھا۔ چھوٹے بچے اکثر اپنے اہل خانہ سے پوچھتے کہ’انجن بھاگا ‘ تو کہاں گیا، وہ تو اپنے کمرے میں ہی بند ہے۔ اب تو الیکٹرانک مشینوں کے زمانے میں نا وہ شور ہے نہ ہنگامہ۔ پرانے انجن کباڑ میں بیچے جا چکے ہیں یا دھول مٹی میں اَٹے پڑے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK