ایک وقت تھا جب گائوں سے قصبوں اور چھوٹے شہروں تک ’گنیش ٹیمپو‘ کا جلوہ تھا۔ ریلوے اسٹیشنوں کے باہر کھڑا یہ ٹیمپو مسافروں کا منتظر ہوا کرتا تھا۔ شہروں سے آنے والے مسافر اپنے گائوں اِسی ٹیمپو سے پہنچا کرتے تھے۔
EPAPER
Updated: October 26, 2025, 4:32 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
ایک وقت تھا جب گائوں سے قصبوں اور چھوٹے شہروں تک ’گنیش ٹیمپو‘ کا جلوہ تھا۔ ریلوے اسٹیشنوں کے باہر کھڑا یہ ٹیمپو مسافروں کا منتظر ہوا کرتا تھا۔ شہروں سے آنے والے مسافر اپنے گائوں اِسی ٹیمپو سے پہنچا کرتے تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ہر نئی چیز پرانی ہو جاتی ہے۔ پھررفتہ رفتہ اس کی اہمیت اور افادیت بھی کم ہونے لگتی ہے۔ ایک وقت تھا جب گائوں سے قصبوں اور چھوٹے شہروں تک ’گنیش ٹیمپو‘ کا جلوہ تھا۔ ریلوے اسٹیشنوں کے باہر کھڑا یہ ٹیمپو مسافروں کا منتظر ہوا کرتا تھا۔ شہروں سے آنے والے مسافر اپنے گائوں اِسی ٹیمپو سے پہنچا کرتے تھے۔ اس سواری کا الگ الگ علاقوں میں مختلف نام تھا۔ کسی نے اسے سونڈ والا ٹیمپو کہا تو کسی نے کوّا گاڑی، ہمارےعلاقے کے لوگ اسے ’گنیش ٹیمپو‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ یہ ایک آٹو رکشہ تھا جس کا اصل نام ’ہینسٹ ٹیمپو ‘ تھا۔ ۸۰ء اور ۹۰ء کی دہائی میں یہ گائوں کی کچی سڑکوں اور شہر کے گلی کوچوں میں دھڑ دھڑاتے پھرتا تھا۔
گائوں دیہات سے وابستہ افراد اور شہر کے پرانے لوگ یقیناً اس ٹیمپو میں سفر ضرور کئے ہوں گے۔ اُس زمانے میں گائوں سے شہر آنے اور شہر سے گائوں جانے کیلئے یہی ٹیمپو اہم ذریعہ تھا۔ اُس وقت یہ ٹیمپو آپ کے ہر سفر میں ساتھ ہوا کرتا تھا۔ گائوں سے شہر کو جوڑنے والے ٹیمپو کو کئی سال پہلے کمپنی نے بنانا بند کر دیا ہے، کیونکہ بدلتے وقت کے ساتھ اب اس کی ضرورت نہیں رہی۔ جیسے موبائل فون کےآجانے سے پیجر ختم ہو گیا۔ اب یہ ٹیمپو شاید ہی کسی گائوں یا شہر میں نظر آتا ہو۔ اُس وقت صبح صبح گائوں سے شہر جانے والے اس ٹیمپو میں زیادہ تر تعداد دودھ فروشوں کی ہوا کرتی تھی۔ وہ دودھ کا بڑا سا کین اس میں ٹانگ دیتے اور ساتھ ہی اپنی سائیکل بھی اس ٹیمپو میں ایک طرف پھنسا دیتے تھے۔ سردیوں میں کہرے کے درمیان ٹیمپو تو نظر نہیں آتا تھا، لیکن اس کی آواز دور تک سنائی دیتی تھی۔
اس ٹیمپو (ہینسٹ ٹیمپو)کو پہلی بار جرمنی کی ’ٹیمپو ورکے‘ کمپنی نے تیار کیا تھا۔ اس کمپنی کو ٹیمپو بھی کہا جاتا تھا۔ یہی کمپنی اُس وقت کی مشہور گاڑی ’میٹا ڈور‘ بھی بناتی تھی۔ انڈیا میں ۶۰ء کی دہائی میں جرمنی کی ٹیمپو اور بجاج نے ملک کر ’ہینسٹ ٹیپو‘ تیار کیا۔ اس طرح آزاد ہندوستان میں پہلی بار کوئی تین پہیا مسافر گاڑی لانچ ہوئی تھی۔ یہ ملک میں تانگے اور بیل گاڑی کے بعد لوگوں کی آمدو رفت کا اہم ذریعہ تھا۔ پہلی بار اس کا پروڈکشن گوریگائوں (ممبئی) واقع فورس موٹرس کے مینو فیکچرنگ پلانٹ میں شروع ہوا تھا۔ ٹیمپو کی ہائی اسپیڈ ۵۰؍ تا ۵۵؍ کلو میٹر فی گھنٹہ تھی اور۵۰۰؍ کلو تک وزن لے کر چلنے کی استطاعت تھی۔
کالم نگار بھی اس ٹیمپو میں کئی بار سفر کر چکا ہے۔ ہمارے علاقے میں یہ رانی گنج (پرتاپ گڑھ) سے مئو آئمہ(الٰہ آباد) کیلئے رانی گنج کے پاور ہائوس کے پاس سے اپنے مقررہ وقت پرچلتا تھا۔ صبح صبح چلنے والے اس ٹیمپو میں ایک ایک کرکے سواریاں بیٹھتیں ، جب ٹیمپو بھر جاتا تھا تو ڈرائیور ایک بڑی سی رسی نکالتا تھا اور اس کے آگے کے حصے میں لگی ایک گراری میں لپیٹ کر زور سےکھینچتا، ٹیمپو ٹھک ٹھک کرکے اسٹارٹ ہو جاتااور آس پاس سیاہ دھواں پھیل جاتا تھا۔ راستے میں ڈرائیور اپنے دائیں بائیں لوکل سواریاں بٹھاتا جاتا۔ کالج جانے والے بچے ٹیمپو نہ رُکنے کی صورت میں دوڑ لگا کر اُس پر لٹک جاتے۔ کالج کے بچے اگر پیسے دے دیئے تو ڈرائیور لے لیتا تھا ورنہ اُن سے پیسہ مانگ کر مصیبت مول نہیں لیتا تھا۔ اُس وقت سڑکوں کی حالت بھی انتہائی خستہ حال تھی۔ کہیں کہیں نام کی پکی سڑک ہوتی اور زیادہ تر تو موٹی موٹی گٹیوں والی سڑک پر ہی چلنا پڑتا تھا۔ آج اُس دوری کا سفر جہاں پچیس سے تیس منٹ میں طے ہو جاتا تھا۔ اُس وقت گھنٹوں لگا کرتے تھے۔
گائوں دیہات میں چلنے والا یہ ٹیمپو ہمیشہ اوور لوڈ ہی چلتا تھا۔ اُس وقت پولیس اور انتظامیہ کے افسران کی اتنی سختی نہیں تھی۔ ڈرائیور اور سواری، دونوں کی مجبوری تھی۔ مسافر اگر اُس میں بھیڑ کے سبب سوار نہ ہو تو دوسری سواری کے جلد ملنے کاامکان نہیں تھا اور ڈرائیور اوور لوڈ سواری نہ بٹھائے تو اُس کو پیسے نہیں بچتے تھے کیونکہ سڑکیں خراب ہونے کے سبب گائوں سے شہر کا بمشکل ایک یا دو چکر ہی لگتا تھا۔
رامش مجتبیٰ صدیقی اُس ٹیمپو سے اپنے سفر کو یاد کرکے بتانے لگے۔ اُس وقت وہ رُدولی (فیض آباد ) کے گرامین بینک میں تعینات تھے۔ بینک شہر سے دور دیہی علاقے میں قائم تھا۔ ردولی قصبہ سے وہ ’گنیش ٹیمپو‘پر سوار ہو کر نکلتے، راستے میں ایک بڑا سانالا (نار)تھا اور وہی ٹیمپو کا وہی آخری اسٹاپ تھا۔ بارش کے دنوں میں وہ نالا پانی سے بھرجاتا تھا۔ ٹیمپو سے اُترکر کپڑے تبدیل کرکےبیگ میں رکھتے اور ہاتھ اوپر اُٹھائے نالا پار کرتے پھر کپڑے پہن کر بینک پہنچتے تھے۔ اُس وقت دور افتادہ علاقوں کیلئےیہ ’گنیش ٹیمپو‘ کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں تھا۔
گائوں ہو یا شہر اب صورتحال مختلف ہے۔ اب سواری گاڑیاں پہلے سے زیادہ تیز رفتار اور آرام دہ ہیں۔ حالانکہ ابھی بھی گائوں میں ٹیمپو اور آٹو ہی سواریوں کے کام آتے ہیں لیکن ای- رِکشہ کے آجانے سے سفر مزید آسان اور سستا ہوگیا ہے۔