Inquilab Logo Happiest Places to Work

چپکے سے چِلبِل کی پتیوں کا لیپ تیار کیا جاتا اور بہانے سے بچوں کو لگا دیا جاتا

Updated: May 04, 2025, 2:11 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai

آج بات کرتے ہیں چِلبِل کے پیڑ کی۔ ہمارے یہاں تو اِسے چِلبِل ہی کہتے ہیں لیکن مختلف مقامات پر یہ الگ الگ ناموں سے بھی جانا جاتا ہے ۔

As soon as a strong wind blows, people run around the tree and collect all the butterflies. Photo: INN.
جیسے ہی تیز ہوا کا جھونکا آتا ہے، لوگ پیڑ کے چاروں طرف دوڑ لگا دیتے ہیں اورخوب ساری تتلیاں جمع کر لیتے ہیں ۔ تصویر: آئی این این۔

آج بات کرتے ہیں چِلبِل کے پیڑ کی۔ ہمارے یہاں تو اِسے چِلبِل ہی کہتے ہیں لیکن مختلف مقامات پر یہ الگ الگ ناموں سے بھی جانا جاتا ہے ۔ جیسے چِرول، بَندر کی روٹی، بَندر پاپڑی، چِرمل، کرنجی وغیرہ۔ اسی طرح اس کا ایک نام ’ بے گانہ‘ بھی ہے۔ واقعی اب یہ نئی نسل کیلئے ’بےگانہ‘ ہی ہو کر رہ گیا ہے، ورنہ ایک دور تھا جب یہ پیڑ بڑے کام کا تھا۔ اُس وقت یہ درخت غریبوں کیلئےمسیحا اور اس کی پتیاں ان کیلئے مرہم ہوا کرتھی تھیں۔ پھوڑے پھنسی اور خارش میں اس کی پتیاں پیس کر پیسٹ بنا کر لگا دی جاتیں تو درد سے تڑپنے والے بچے بھلے چنگے ہو جاتے تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ نئی نسل کو اس کے فائدے کے بارے میں معلوم نہیں ہے لیکن اب ہم کچھ کرنا نہیں چاہتے، سب بنا بنایا چاہتے ہیں۔ اب ایسے بچے بھی نہیں کہ گھر کی بنائی ہوئی دوا کی جلن کو برداشت کر سکیں۔ اُس وقت بھی بچے یہ دوا دیکھ کر دور بھاگتے تھے، اسلئے چپکے سے چِلبِل کی پتیوں کا لیپ تیار کیا جاتااور بہانے سے انہیں لگا دیا جاتا تھا۔ دراصل والدین کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ 
چِلبِل کا درخت کافی اونچا ہوتا ہے۔ اس درخت کی چھال سفید اور بھورے رنگ کی ہوتی ہےاور کافی چکنی ہوتی ہے۔ ویسے چلِبِل کا پیڑ سال بھر گمنام کسی باغ میں یا ندی نالے کے کنارے خاموش کھڑا معلوم ہوتا ہے لیکن مارچ کا مہینہ آتے آتے اس پر نکھار آنے لگتا ہے۔ ہری ہری پتیوں کے درمیان جب پھول کھلتے ہیں تو اس کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے۔ اپریل تک اس میں سنہرے رنگ کے تتلی جیسے پنکھ نکلنےلگتے ہیں اور اسی میں اس کا بیج چھپا ہوتا ہے۔ اس درمیان جپ پُروا ہوا چلتی ہےتو یہ تتلیاں پیڑ سے ٹوٹ کر گرتی ہیں اور دور دور تک زمین پر پھیل جاتی ہیں۔ بچے اس کا پیچھا کر کے پکڑتے ہیں، اس کے کھانےکے شوقین پیڑ کے نیچے چادر تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور بڑی تعداد میں ان تتلیوں کو جمع کر لیتے ہیں جن کے سنہرے اور بھورے پنکھ کے درمیان میں وہ خوش ذائقہ بیج چھپا ہوتا ہے جو کھانے میں مونگ پھلی جیسا معلوم ہوتا ہے۔ کئی بار تیز ہوا کے جھونکے میں یہ چِلبِل کی تتلیاں خود بخود آپ تک پہنچ جاتی ہیں۔ باغوں سے اُڑ کر دور تک جاتے جاتے ان کے پنکھ سوکھ جاتے ہیں اور ہاتھ میں آتے ہی ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں ۔ درمیان میں اس کا بیج رہتا ہےجس کو چھیل کر نکالنا بڑا مشکل کام ہوتا ہے، ذرا سی لاپروائی میں یہ ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے اورہاتھ خالی رہ جاتا ہے۔ 
ابھی حال ہی ہم شہر کے ایک بڑے سے مال کے پاس سے گزر رہے تھے۔ اچانک تیز ہوا کا جھونکا آیا، اُس کے ساتھ ہی گلی میں چِلبِل کی پنکھ لگی تتلیاں بچھ گئیں، جو گائوں  میں اس موسم میں  جا بجا نظر آتی ہیں۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ شہر میں چِلبِل کا درخت ؟ میرے قریب ہی ایک بڑے میاں تھے۔ میری طرح وہ بھی حیران ہوتے ہوئے بولے کہ ایسا لگ رہا ہے جیسے آج میں اپنے گائوں میں پہنچ گیا ہوں۔ وہ ایک جھٹکے میں زمین پر بکھری تتلیاں جمع کرنے میں  لگ گئے۔ وہ دونوں ہاتھوں میں ڈھیرساری تتلیاں اُٹھاتے ہوئےبولے کہ مدتوں بعد ایسالگ رہا ہے کہ یہ تتلیاں مجھ کو ڈھونڈتی ہوئی آج شہر پہنچ گئی ہیں۔ 
یہ سن کروہیں قریب میں کھڑے ایک دوسرے صاحب کہنے لگے کہ آپ کو ڈھونڈتی ہوئی نہیں پہنچی ہیں .... وہ دیکھئے چھت کے اوپر لگے ٹاور کے برابر میں چِلبِل کے درخت کی ایک شاخ نظر آرہی ہے نا...بس وہیں سے ہوا کے جھونکے، اسے اُڑا کر اس گلی میں لے آئے ہیں۔ شہر والوں کو اس کے بارے میں کیا معلوم کہ چھوٹا سا بیج کتنا خوش ذائقہ ہوتا ہے۔ اس سے نا واقف لوگ اسے اپنے پیروں سے روندتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں ۔ اب تک وہ بزرگ بڑی تعداد میں بیج چھیل کر نکال چکے تھے اور ہر آنے جانے والوں کو کھلا رہے تھے۔ اپنے بچپن کو یاد کرکے بتانے لگےکہ وہ بھی کیا وقت تھا جب ہم سارے دوست دوپہر میں اس کےپیڑ کے نیچے جمع ہو جاتے اور ہوا چلنے کا انتظار کرتے تھے۔ جیسے ہی تیز ہوا کا جھونکا آتا ہم لوگ پیڑ کے چاروں طرف دوڑ لگا دیتے اور دیکھتے ہی دیکھتے خوب ساری تتلیاں اکٹھا کر لیتے تھے۔ پھر یہ مقابلہ ہوتا کہ کون صفائی کے ساتھ بغیر ٹوٹے ہوئے تیزی سے بیج نکالتا ہے۔ آج مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے میں کچھ دیر کیلئے اپنے اُس چِلبِل کے درخت کے قریب آ گیا ہوں ، بس دوستوں کے آنے کا انتظار ہے۔ 
پرتاپ گڑھ میں  ایک جگہ کا نام چِلبِلا ہے۔ اب اس کی وجہ تسمیہ تو نہیں معلوم لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کبھی یہاں پر چِلبِل کے گھنے باغ ہوا کرتے تھے۔ یہ چِلبِلا گائوں اُس وقت سرخیوں میں آ یا تھا جب ۲۰۱۸ء میں سنجے دت نے اس گائوں کو گود لینے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ دراصل یہ گائوں سنجے دت کا ننہال ہے۔ اداکارہ نرگس کی والدہ جدّن بائی کا آبائی گائوں یہی تھا۔ بات چِلبِل سےچونکہ چِلِبِلا گائوں تک پہنچ گئی ہے، اسلئے اب اس علاقے سے متعلق تفصیلی گفتگو پھر کبھی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK