آج کی طرح طوفان اور آندھی کو انگریزی نام نہیں دیئے جاتے تھے، کوئی اس کو لنگڑی تو کوئی کالی آندھی کہتا تھا۔
EPAPER
Updated: May 11, 2025, 4:08 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
آج کی طرح طوفان اور آندھی کو انگریزی نام نہیں دیئے جاتے تھے، کوئی اس کو لنگڑی تو کوئی کالی آندھی کہتا تھا۔
گزرے ہوئے اپریل اور رواں ماہ مئی میں ریاست کے مختلف اضلاع میں تیز آندھی اور بارش کے ساتھ ژالہ باری ہوئی۔ اس کی وجہ سے جو فصلیں کٹ کر گھر نہیں پہنچ سکی تھیں ان کو کافی نقصان پہنچا۔ یہ تو محض معمولی آندھی تھی۔ کچھ سال پہلے کی بات ہےیہی جیٹھ (مئی) کا مہینہ تھا۔ اُس وقت جو آندھی آئی اس کا ذکر آتے ہی آج بھی لوگوں کے چہروں پر خوف نظر آنے لگتا ہے۔ آج کی طرح طوفان اور آندھی کو انگریزی نام نہیں دیئے جاتے تھے، کوئی اس کو لنگڑی تو کوئی کالی آندھی کہتا تھا۔ وہ مشینی دور تو تھا نہیں، چنانچہ کھیتی کسانی کے کام میں آج کے مقابلے وقت لگتا تھا، گیہوں اپریل سے کٹنا شروع ہوتا تو اسے ختم ہوتے پورا مئی کا مہینہ لگ جاتا تھا۔ اُس روز بھی حسب معمول کسان کھیتوں میں کام پر نکلے تھے۔ بچے اسکول جارہے تھے، ان کاامتحان بھی چل رہا تھا۔ صبح ٹھنڈی ہوا کے ساتھ اچانک گائوں کے جنوب سمت سے اُٹھنے والی ہوا، تیز آندھی کی شکل اختیار کر گئی اور پورے علاقے کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ اس خوفناک منظر کو بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ آندھیاں تو بہت دیکھی تھیں لیکن وہ ایسی آندھی تھی کہ اُس میں کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا، آسمان میں سیاہ بادل اور زمین پر ہر طرف دھول ہی دھول تھی، اُس آندھی کو گائوں کے لوگ کالی آندھی کے نام سےیاد کرتے ہیں۔ صورتحال یہ تھی کہ سڑکوں پر بیل گاڑیاں بِن بیل کے ہی دوڑنے لگی تھیں، کھیتوں میں باندھ کر رکھے گیہوں کے بوجھ ہوا میں ایسے اُڑ رہے تھے جیسےمعمولی کاغذ کا ٹکڑا ہو، چھپر اور ٹین شیڈ کے آسمان میں اُڑے جا رہے تھے۔ کھیتوں میں کام کرنے والے زمین پر لیٹ گئے تھے۔ باغوں میں موجود لوگ پیڑ کے تنے سے چپکے ہوئے تھے۔ کھونٹے میں بندھے جانور رَسی توڑ کر بھاگ رہے تھے۔ ہر طرف افر تفری کا ماحول تھا۔ اُس روز دن ہی میں رات ہو گئی تھی۔ آندھی کا زور کم ہوا تو لوگوں نے لالٹین جلاکر اپنے مویشیوں کی تلاش شروع کی، بعض جانور کنویں میں پڑے ملے۔ اس خطرناک آندھی کے ایک چشم دید رجّن چچا بھی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اُس دن میں اپنے دوستوں کےساتھ ہاتھ میں جھولا لئے آم کے باغ کی طرف دوڑا جارہا تھا، راستے میں ایک بُوا جی نے ہم سبھی کو پکڑ کر گھر کے اندر بند کر دیا تھا، تو ہم سب بچ گئے۔ ہمارے کچھ ساتھی جو آندھی شروع ہوتے ہی باغ میں پہنچ گئے تھے وہ آندھی کے ایک ہی جھٹکے میں باغ کے پاس گڑھے میں گرگئے تھے، اس گڑھے میں چار پانچ بچے تھے لیکن وہ سب صحیح سلامت بچ گئے تھے۔
اُس آندھی سے متعلق طرح طرح کی کہانیاں آج بھی سننے کو ملتی ہیں۔ جیسے ندی کے کنارے ایک عورت کپڑا دھو رہی تھی، آندھی اُسے اُڑا کر اُس پار لے گئی۔ سائیکل سمیت ایک شخص اُڑ کر نالے میں گر گیا۔ سڑک پر کھڑی بس آندھی کے زور سے دوسری طرف گھوم گئی۔ نئی نسل اس طرح کے قصے سُن کر جب حیرت سےکہتی ہے کیا واقعی ایسا ہوا تھا؟ بہرحال کوئی اس کی تصدیق نہیں کرپا تا ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ آج کل جب گائوں میں آندھی آتی ہے تو پرانے لوگ اُس وقت کو یاد کرتے ہوئے فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ’’ بیٹا یہ کوئی آندھی ہے، یہ توتیز ہَوا ہے۔ آندھی تو ہمارے زمانے میں آتی تھی، بڑے بڑے تناور پیڑبھی سجدہ ریز ہو جاتے تھے۔ پھر بھی آندھی آنے پر ہم بچے آموں کے باغ کی طرف بھاگتے تھے۔ ہوائیں دھول اڑاتیں، درخت جھومتے، آسمان سنسناتا، بجلی چمکتی اورہم بے فکر بچے ہوا کے ساتھ باغ کی طرف کھنچے چلےجاتے۔ ہاتھ میں کوئی پرانی ٹوکری لئے، کبھی ننگے سر، کبھی ننگے پاؤں دوڑتے تھے۔ دل میں ایک ہی امید ہوتی کہ زمین پر گرے آم سمیٹنے ہیں، جتنا زیادہ ہو سکے۔ ایسی خطرناک آندھی میں بھی ہم بچے باغوں میں آم چننے پہنچ جاتے تھے، جہاں پیڑوں کے نیچے آموں کے ڈھیر لگے ہوتے تھے۔ ‘‘
گاؤں میں آنے والی اُس کالی آندھی کی تباہی نے ہر چیز کو اجاڑ کر رکھ دیا تھا۔ نیا نیاتعمیر کیا گیا وہ اسکول بھی، جس میں گاؤں کے بچے تعلیم حاصل کرتے تھے، اب ملبے کا ڈھیربن چکا تھا۔ نہ صرف یہ کہ گائوں کے سیکڑوں بچوں کے خواب چکنا چور ہو گئے تھے بلکہ گاؤں کی تقدیر بھی ایک نئے موڑ پر پہنچ چکی تھی۔ گاؤں کے لوگ سر پکڑ کر بیٹھے تھے، ان کی آنکھوں میں خوف اور مایوسی کی جھلک تھی۔ آندھی نے درختوں کو جڑ سے اُکھاڑ دیا تھا۔ گاؤں کی سڑکوں پر جگہ جگہ ٹوٹے ہوئے درختوں کے ڈھیر، ملبہ اور مٹی پھیلی ہوئی تھی۔ گاؤں کے کسان، جن کی زمینیں اور فصلیں تباہ ہو گئی تھیں۔ ان کا روزگار اور زندگیاں بری طرح متاثر ہو چکی تھیں۔ اس تباہی کے نشانات تو مٹ گئے لیکن پرانے لوگوں کے ذہنوں پر قائم نقش ابھی تک باقی ہیں۔