کسانوں کا ایک طبقہ وہ بھی تھا جو بازار پیسے لے کر نہیں جاتا تھا۔ اُس کے ہاتھ میں بڑا سا جھولا ہوتا تھا، اس کے اندر اناج بھرا ہوتا تھا۔ وہ یہاں بازار میں پہنچ کر اناج فروخت کرتا، اس کے بدلے میں اُسے نقد رقم مل جاتی تھی اور پھر وہ بازار سے اپنی ضرورت کا سامان خرید کر گھر لے جاتا تھا۔
گاؤں کے ہفتہ وار بازار میں سبزیوں اور پھلوں کے ساتھ چاٹ اور سموسے کی دکانیں بھی سجا کرتی تھیں۔ تصویر: آئی این این
ایک وقت تھا جب گائوں میں ہفتہ واری بازاروں کی بڑی اہمیت تھی۔ گائوں کے لوگ اپنی خریداری کی فہرست ہفتہ واری بازار کو ذہن میں رکھ کر بنایا کرتے تھے۔ اُس وقت گھر میں استعمال ہونے والی بہت سی ایسی اشیاء تھیں جو اِنہیں بازاروں میں ہی ملا کرتی تھیں۔ دکاندار اور خریدار سب ایک دوسرے کو بہت اچھی پہچانتے تھے۔ شہر اور مستقل بازاروں کے مقابلے اِس بازار میں ضروریات کی چیزیں کافی رعایتی قیمتوں میں مل جایا کرتی تھیں۔ گائوں کے اس بازار میں چھوٹے چھوٹے کاروباری اپنی اشیاء فروخت کرتے تھے، فصلوں کی افراط ہونے پر کسان بھی یہاں اپنی سبزیاں ، پھل اور اناج بیچنے آیا کرتے تھے۔ حلوائی یہاں جلیبی، چوٹہیا جلیبی(گُڑ سے تیار ہونے والی جلیبی )خاص طور سے بیچنے آتے تھے۔ یہاں چاٹ اور سموسے کی دکانیں بھی سجا کرتی تھیں۔
کسانوں کا ایک طبقہ وہ بھی تھا جو بازار پیسے لے کر نہیں جاتا تھا۔ اُس کے ہاتھ میں بڑا سا جھولا ہوتا تھا، اس کے اندر اناج بھرا ہوتا تھا۔ وہ یہاں بازار میں پہنچ کر اناج فروخت کرتا، اس کے بدلے میں اُسے نقد رقم مل جاتی تھی اور پھر وہ بازار سے اپنی ضرورت کا سامان خرید کر گھر لے جاتا تھا۔ کچھ کسان اپنی بیل گاڑیوں سے کچھ سائیکل پر رکھ کر کھیتوں سے توڑی ہوئی تازی سبزیاں جیسے گوبھی، ٹماٹر، بیگن اور مرچ وغیرہ لاتے تھے۔ یہاں گاہک چھوٹی چھوٹی چیز خریدنے کیلئے خوب مول بھائو کیا کرتے تھے۔ کئی کئی دکانوں پر گھوم پھر کر ہی ان کا سودا طے ہوتا تھا۔ یہاں کے دکاندار بھی بہت ہوشیار ہوتے تھے وہ بہت ناپ تول کر قیمتیں بتایا کرتے تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ ساتھی دکاندار اپنی دکان کا سامان بیچنے کیلئے وہ خریدار کو کم قیمت بتائے۔ سبھی دکاندار اپنی اشیاء کی قیمت آپس میں طے کرکے ہی دکان پر بیٹھتے تھے۔ یہاں بساط خانہ (خواتین کی ضرورت کی اشیاءکی دکان)پرشیشہ، کنگھی، کاجل، پائوڈر، کریم اور رِبن کی رنگی برنگی دکان دور سے ہی نظر آجاتی تھی۔ اس دکان پر خواتین اور لڑکیوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی۔ اگر دیکھا جائے تو پورے بازار میں سب سے زیادہ بھیڑ اسی دکان پر ہوا کرتی تھی۔ بازار کے ایک کونے میں لوہار کی دکان بھی سجتی تھی۔ یہاں کھیتی کسانی میں کام آنے والے ہنسیا، کُھرپی، کدال اور پھاوڑا بیچے جاتے تھے اور انہیں پیٹ پیٹ کر ان کی دھاربھی تیز کرنے کا کام ہوتا تھا۔ لوگ نئے خریدتے تھے اور پرانے اوزار کو دھار لگانے کیلئے بھی لاتے تھے۔ اسی طرح کمہار کی دکان پرمٹی کے برتن بڑے ہی سلیقے سے رکھے ہوتے تھے۔ ان کو کمہار احتیاط کے ساتھ گاہکوں کو دکھاتا کیونکہ جلدی جلدی اٹھانے اور رکھنے میں اس کے ٹوٹ جانے کا خطرہ تھا، لیکن گاہک اسے ہاتھ میں لے کر ٹھونک بجا کر اس کی مضبوطی کا اندازہ لگاتے اور اس کے بعد ہی قیمت طے کرتے تھے۔ ہمارے یہاں مٹی کے برتن کیلئے لَچھی پور بازار مشہور ہے۔ یہاں بشیر پور کےکمہار مٹی کے برتن لایا کرتے تھے۔ وہ ندی پار کرکے بڑی مشکل سے بازار تک پہنچتے تھے۔ یہاں دور دور سے لوگ مٹی کے برتن خریدنے آیا کرتے تھے۔ گرمی کے دنوں میں مٹی کے گھڑے اور گگری کی مانگ بڑھ جایا کرتی تھی۔ ان مٹی کے برتنوں کی خوبی یہ تھی کہ اس سے پانی تو ٹھنڈا ہوتا ہی تھا ساتھ ہی پانی سے سوندھی خوشبو بھی آتی تھی۔ پرانی گگری میں جب پانی ٹھنڈا ہونا کم ہو جاتا تو اس میں آم کے اچار رکھے جاتے اور بارش کے دنوں میں ان میں گُڑ رکھ کر اوپر سے مٹی کے ذریعہ انہیں پیک کر دیا جاتا تھا تاکہ گُڑ خراب نہ ہو۔ حالانکہ لچھی پور میں یہ بازار اب بھی لگتی ہےلیکن مٹی کے برتن بیچنے والے اب وہ کمہار بہت کم نظر آتے ہیں۔ نئی نسل کو اس کام میں دلچسپی نہیں ہے اور پرانے لوگوں کے دنیا سے رخصت ہونے کے ساتھ ہی یہ کام بھی ختم ہو تا جارہا ہے۔
اکثر بچے اپنے بڑوں کےساتھ اس بازار میں جانے کی ضد کرتے تھے جبکہ ان کے مطلب کا سامان یہاں نہیں ملا کرتا تھا۔ یعنی کھلونے اور غبارے یہاں نہیں بِکتےتھے۔ ان کی نگاہیں حلوائی کی دکان پر یا پھر اُس ٹھیلے پر ہوا کرتی تھی جہاں بڑے سے توے پر ٹھیلے والے کا چمچہ زور زور سے کھٹ کھٹ کرتا تواُس پر رکھی گرما گرم آلو کی ٹکی سے فضا مہک اُٹھتی تھی۔ چنانچہ ساتھ آئے بچوں کیلئے آلو کی ٹکی خریدی جاتی جس پر لال مرچ، نمک، بھونی ہوئی دھنیا کا پائوڈر، پیاز کے ٹکڑے، دھنیا پتی، کٹی ہوئی ہری مرچ ڈال دی جاتی تھی۔ مہوے کے پتے میں رکھی آلو کی ٹکی جب بچے کھاتے تولال مرچ سے ان کا منھ جل جاتا تھا۔ پھر گھر کیلئے خریدی گئی گُڑ کی جلیبی کا ایک ٹکڑا چپکے سے منھ میں ڈالتے تب جاکر کہیں اُن کی اچھل کود کم ہوتی تھی۔ اس طرح آلو ٹِکی کا دوسرا چمچ وہ منھ میں ڈالنے کی وہ ہمت نہیں کر پاتے تھے۔ اُس ہفتہ واری بازار میں ضرورت کی ہر اشیاء بہ آسانی مل جایا کرتی تھی اور چھوٹے تاجروں کے سامان بِک جایا کرتے تھے۔ لیکن اب زیادہ تر علاقوں میں مستقل دکانیں ہو گئی ہیں جہاں روزانہ سامان ملنے لگا ہے تو اس ہفتہ وار بازار کی اہمیت کم ہوگئی ہے۔