باغ کے ایک کونے میں ایک چچا میاں بیٹھے تھے۔ میرے ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کو وہ شاید بھانپ گئے، اسلئے کہنے لگے...درخت واقعی زمین کا حسن ہیں۔ کتنی خاموشی سے یہ انسانیت کا بھلا کرتے ہیں۔
EPAPER
Updated: April 27, 2025, 1:47 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
باغ کے ایک کونے میں ایک چچا میاں بیٹھے تھے۔ میرے ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کو وہ شاید بھانپ گئے، اسلئے کہنے لگے...درخت واقعی زمین کا حسن ہیں۔ کتنی خاموشی سے یہ انسانیت کا بھلا کرتے ہیں۔
ہمارے بزرگوں نے طرح طرح کے پھلدار، سایہ اور خوشبودار درخت لگا کر گائوں کو خوبصورت اور ہرا بھرا بنایا تھا۔ وہی اس کی پہچان ہوا کرتی تھی، لیکن اب گائوں میں بڑے بڑے پکّے مکان بن رہے ہیں، اسلئے اس کی زد میں آنے والے ہرے بھرے درخت کاٹے جا رہے ہیں۔ کھلیہان کب کے ختم ہوچکے، اب آفت باغوں پر آن پڑی ہے جسے ہمارے بزرگوں نے اپنے خون جگر سے سینچا تھا۔ وہ جب کھیتوں کے کام سے فرصت پاتے تو ان کا باقی وقت اِنہیں باغات میں گزرتاتھا۔ یہاں یہ مختلف رنگوں میں آنکھیں کھولتی کلیوں، خوشبو دار پھولوں اور نئے نئے لگائے گئے پودوں کو دیکھتے تو ان کی تھکن مِٹ جاتی تھی۔ گائوں کے وہ باغات جو اُجڑ رہے ہیں، وہاں کھیلتے ہوئے بچوں سے جب آپ بچے کھچے درختوں کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ یہ کون سا درخت ہے، اِسے کب اور کس نے لگایا تھاتو ایک ہی جواب ملتا ہے، دادا جی نے لگائے تھے، پتہ نہیں کون سی قسم ہے لیکن اس کے پھل بہت میٹھے اور خوش ذائقہ ہوتے ہیں۔ کاش ایسے بزرگ زندہ رہتے اور ان کی نگہبانی میں یہ باغات محفوظ رہ سکتے۔
باغ کے ایک کونے میں ایک چچا میاں بیٹھے تھے۔ میرے ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کو وہ شاید بھانپ گئے، اسلئے کہنے لگے...درخت واقعی زمین کا حسن ہیں۔ کتنی خاموشی سے یہ انسانیت کا بھلا کرتے ہیں۔ مجھے آج تک بچپن کا ایک واقعہ اچھی طرح یاد ہے۔ اپنی آبائی اراضی پر میں پودے لگا رہا تھا کہ ایک بزرگ وہاں سے گزرے۔ وہ مجھے اور میرے دوستوں کو دیکھ کر کہنے لگے کہ شاباش پیارے بچو!..تم بہت بڑی نیکی کما رہے ہو، لیکن یاد رکھنا اِ نہیں لگا کر ایسے مت چھوڑ دینا، ان کی تب تک سینچائی کرنا کہ جب تک کہ یہ بڑے نہ ہو جائیں، تاکہ ان کا پھل تم بھی کھائو اور تمہاری آنے والی نسلیں بھی ان سے فائدہ اٹھائیں۔ مجھے یاد ہے کہ ان درختوں میں پیپل، شیشم، شہتوت، لسوڑھا اور بیری شامل بھی تھے۔ یہ خوب پھلے پھولے مگر سب سے زیادہ شیشم اور پیپل نے ترقی کی۔ بعد میں ان کی لکڑی تعمیرات میں کام آئی۔ ہمارے پرانے گھر کی چھت پر لگی اس کی لکڑیاں ، مجھے وہ دور یاد کرا دیتی ہیں۔ مجھے درختوں سے فطری پیار ہے۔ اُس وقت ایسا تھا ہم اپنے بزرگوں کو شجرکاری کرتے ہوئے دیکھتے تو ہمارے اندر بھی شوق پیدا ہوتا تھا۔ موسم باراں کی آمد سے قبل باغ میں خالی پڑی جگہوں پر گڑھے کھود دیئے جاتے تھے۔ اس میں کھاد وغیرہ ڈالی جاتی تھی اور پھر بارش کے موسم کا آغاز ہوتے ہی گاؤں میں شجرکاری کی مہم شروع ہوجاتی تھی۔ اب زیادہ تر آم کے پودے لگائے جارہے ہیں ۔ پہلے اگر دس پودے آم کے لگتے تو اس کے کناروں پر پیپل، گولر، شہتوت، برگد، نیم اور جامن کے علاوہ دوسرے پودے بھی لگتے تھے۔ بزرگوں کا خیال تھا کہ باغ میں ایسے درخت ہوں جو ہر موسم میں پھل دیں بھلے ہی وہ ہمارے کام کے نہ ہوں لیکن اس سے پرندے تو فائدہ اٹھا سکیں۔ پیپل، برگد، ببول اور ایسے بہت سارے درخت اسی مقصد سے لگائے جاتے تھے۔
میرے ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کا جواب دینے کے بعد چچا میاں کواپنے دن یاد آنے لگے تو انہوں نےاُن یادوں میں مجھے بھی شامل کرلیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان میں سے شاید ہی کوئی ایسا درخت ہو جس کے نیچے گرمیوں کی دوپہرمیں چار پائی بچھا کر میں نے مطالعہ نہ کیا ہو، دوستوں کے ساتھ مل کر کھیلا نہ ہو یا کچھ دیر آرام نہ کیا ہو۔ یقین جانئے جس طرح کبھی کبھار خواب میں پرانے دوستوں اور مرحوم بزرگوں سے ملاقات ہوتی ہے تو دن بھرایک خوشگوار تاثر قائم رہتا ہے، بالکل اسی طرح خواب میں پرانے درختوں سے بھی ملاقات ہوتی ہے۔ آنکھ کھلتی ہے تو کافی دیر تک حسین ماضی کے دریچے اور جھروکے کھلے رہتے ہیں۔ آج بھی جب گائوں میں کوئی تناور درخت کٹتا ہے تو دل پہ آری چل سی جاتی ہیں اور طبیعت کئی دن اداس رہتی ہے۔
پرتاپ گڑھ کے رامپور بنتری گائوں کے رہنے والے اچھن حاجی صاحب کو درختوں سے بڑی محبت تھی۔ ان کے تعلق سے قصہ دلچسپ ہے کہ وہ ایک بار گھوڑے سے جارہے تھے، ابھی وہ گائوں سے باغ میں داخل ہوئے ہی تھے کہ تیز آندھی آ گئی اور ایسا لگنے لگا کہ باغ کے پیڑ اب گرے کہ تب گرے، ان کا گھوڑا ایک آم کے درخت کے پاس پہنچا جو تیز آندھی کے سبب اُکھڑنے کے قریب تھا، حاجی صاحب نے گھوڑے کا رُخ درخت کی طرف موڑ دیا اور اسے اس وقت تک سہارا دیئے رہے کہ جب تک کہ آندھی کا زور کم نہیں ہو گیا۔ چنانچہ ان کی اِس کوشش سے وہ پیڑ گرنے سے بچ گیا۔ اس درمیان باغ کے مالک پنڈت جی بھی وہاں پہنچ گئے اور ہاتھ جوڑ کر حاجی صاحب کو گلے لگا لیا اور کہا کہ جائیے حاجی صاحب پیڑ تو بڑی بات ہے اگر آپ معمولی شاخ بھی کہیں لگا دیں گے تو وہ بھی تناور درخت بن جائے گا، یہ میرا’آشیرواد ‘ ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب لوگ تیز آندھی میں اپنی جان کی پروا کئے بغیر درختوں کی حفاظت کرتے تھے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ باغوں سے بڑے بڑے پرانے درخت گر تے جاہے ہیں اور ان کی جگہ خالی ہوتی جارہی ہے۔ اب کسی کے پاس شجرکاری کی فرصت ہی نہیں ہے۔