• Sun, 02 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بیل گاڑی کاپہیہ ہمیں پیغام دیتا تھا کہ آگے بڑھنا ہے تو مسلسل چلتے رہو

Updated: November 02, 2025, 2:31 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai

بیل گاڑی کی اِ س سواری میں نہ تو پیٹرول، ڈیزل کی ضرورت پڑتی تھی، نہ ہی الیکٹرک بیٹری کی۔ یہ گاڑی بیلوں سے کھینچی جاتی تھی۔ اسی لئے اس کا نام بیل گاڑی پڑ گیا۔

The bullock cart used to be the train of the poor in the villages, which ran without fuel or an engine. Photo: INN.
بیل گاڑی گائوں کے غریبوں کی ریل گاڑی ہوا کرتی تھی، جو بغیر ایندھن اور انجن کے چلتی تھی۔ تصویر: آئی این این۔

گاؤں میں بیل گاڑی کی سواری سادگی اور قدرتی ماحول کا احساس دلانے کے ساتھ ماضی کی یادوں کو بھی تازہ کرتی ہے۔ آج بھی بیل گاڑی کا خیال آتے ہی لکڑی کا بڑاسا پہیہ ذہن میں گھومنے لگتا ہے۔ بیل گاڑی پر بیٹھ کر کھیتوں، درختوں، اور گاؤں کی گلیوں سے گزرنا ایک منفرد تجربہ ہے۔ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی بیل گاڑی اور بیلوں کے گلے میں بندھی وہ گھنٹی کی آواز دور تک سنائی دیتی تھی۔ بچے، بڑے، سبھی اس سواری سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ بیل گاڑی نقل و حمل کے ذرائع کے ساتھ گاؤں کی ثقافت اور روایات کا حصہ تھی۔ یہ سواری ہمیں فطرت کے قریب لاتی تھی اور سادہ زندگی کی خوبصورتی کا احساس دلاتی تھی۔ آج کے مشینی دور میں اس کی اہمیت و افادیت کم کیا ...یوں کہئے کہ ختم ہوگئی ہے۔ پہلے کسانوں کے ساتھ دور دراز گائوں کا معائنہ کرنے کیلئے سرکاری افسران بھی بیل گاڑی ہی سے دورہ کرتے تھے۔ اُس وقت آج کی طرح پکی سڑکیں نہیں تھیں، کچے راستوں پر چلنے کیلئے بیل گاڑی ہی آمدو رفت کا اہم ذریعہ تھی۔ 
وہ وقت بھی خوب تھا جب صبح ہوتے ہی بیلوں کو سجا کر بیل گاڑی تیار کی جاتی اور جب وہ سج دھج کر تیار ہوجاتی تو ... دادا یا چچا کی آواز آتی ... بچو! جلدی آئو کھیت چلنا ہے۔ بچے دوڑتے بھاگتے جلدی جلدی بیل گاڑی پر چڑھ جاتے۔ گاڑی کے پیچھے لٹکنا، بیلوں کی دُم سے چھیڑ چھاڑ کرنا شریر بچوں کی عادت تھی۔ وہ اس سفر میں بیلوں کو ہٹ ہٹ کی آواز لگا کر گاڑی بان کی نقل بھی کرتے تھے۔ راستے میں جگہ جگہ کچھ نہ کچھ نیا دیکھنے کو ملتا تھا۔ کہیں آم کے باغوں میں زمین پر پڑے کچے آم تو کہیں دور تالاب میں نہاتی بھینسوں کا جھُنڈ، بچے باغ سے گزرتے ہوئے زمین پر گرے آم گننے لگتے تھے۔ گاڑی ہانکنے والے چچا کبھی کبھی گنے کے کھیت کے پاس روک کر گنا توڑ لاتے۔ گنے کی مٹھاس بچوں کے اس سفر کے لطف کو دو بالا کر دیتی تھی۔ کھیتوں کے ٹوٹے پھوٹے راستے سے جب بیل گاڑی گزرتی تو جھٹکے سے بچے ایک دوسرے پر گرپڑتے تھے۔ کبھی کسی گڑھے میں پہیہ پھنس جاتا تھاتو سب مل کر گاڑی کو دھکا لگاتے اور پہیہ نکل جاتا تو بچے جلدی جلدی دوڑ کر اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جاتے۔ 
بیل گاڑی کی اِ س سواری میں نہ تو پیٹرول، ڈیزل کی ضرورت پڑتی تھی، نہ ہی الیکٹرک بیٹری کی۔ یہ گاڑی بیلوں سے کھینچی جاتی تھی۔ اسی لئے اس کا نام بیل گاڑی پڑ گیا۔ یہ دنیا کی سب سے پرانی مال بردار اور آمدورفت کی سواری تھی۔ لکڑی کے اِن پہیوں سے ایک زمانے میں زندگی کو نئی رفتار ملی تھی۔ یہی پہیہ ہمیں پیغام دیتا تھا کہ آگے بڑھنا ہے تو مسلسل چلتے رہو۔ یہ گائوں کے غریبوں کی ریل گاڑی ہوا کرتی تھی، جو بغیر ایندھن اور انجن کے چلتی تھی۔ بیل گاڑی کا پہیہ مقامی بڑھئی لکڑی سے بناتے تھے۔ یہ کاریگر ببول کی لکڑی سے بیل گاڑی کے پہئے تیار کرتے تھے۔ جب ٹیمپو اور دیگر سواریاں نہیں تھیں تو لمبی دوری کیلئے بیل گاڑی سے سفر ہوتا تھا۔ ایمرجنسی کیلئے ایک پہیہ الگ سے گاڑی میں رکھا جاتا تھا۔ ان بیل گاڑیوں کی تہواروں کے موقع پر نظر بھی اُتاری جاتی تھی، خاص طور سے برادران وطن کے یہاں۔ اُ س وقت اکثر گھروں میں بیل گاڑی ہوا کرتی تھی۔ گائوں میں چار پانچ کاریگر ایسے ہوتے تھے جو ہر وقت بیل گاڑی کا پہیہ تیار کرتے تھے اور ضرورت پڑنے پر اس کی مرمت بھی کرتے تھے۔ ٹریکٹر کے آجانے کے بعد رفتہ رفتہ بیل گاڑیا ں کم ہونے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ کاریگر بھی بے روزگار ہوگئے۔ اب تو نہ کسی گائوں میں بیل گاڑی نظر آتی ہے، نہ ہی وہ محنت کش پہیہ بنانے والے کاریگر دکھائی دیتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب بارات سج کر بیل گاڑی سے جایا کرتی تھی۔ بچے میلہ دیکھنے کیلئے بیل گاڑی میں بیٹھنے کیلئے جلدی جلدی تیار ہوتے تھے۔ 
بیل گاڑی پر گنّا ڈھویا جاتا تھا۔ گنّا پیرنے والی چرخی کو بیل ہی کھینچا کرتے تھے۔ دھیرے دھیرے گنے کا رس پکتا تو ڈھلتی شام کے ساتھ گُڑ کی مہک دور تک پھیل جاتی تھی۔ گائوں والے گنے کا رس اور گرما گرم گُڑ کھانے کیلئے وہاں پہنچ جاتے تھے۔ وقت کے ساتھ ہی کسان بھی اب اپنی پرانی بیل گاڑی کو چھوڑ کر ٹریکٹر اور مشینوں کے بھروسے ہوگئے ہیں۔ 
بیل گاڑی کے تعلق سے ایک واقعہ یوں ہے کہ ... امریکہ سے آئے کچھ لوگ ایک گائوں میں گھومنے گئے، جہاں کاریگر لکڑی کا پہیہ تیار کررہے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ کاریگر اُس پہئے میں لوہے کا استعمال نہیں کر رہے ہیں، اس میں جو کیل لگائی جارہی تھی وہ بھی لکڑی کی تھی۔ یہ دیکھ کر انہیں بڑی حیرت ہوئی، انہوں نے ایسی کاریگری اپنے ملک میں نہیں دیکھی تھی۔ سیاح بیل گاڑی کی مضبوطی جانچنے کیلئے اس پر ایک ٹن سے زائد کا وزن رکھ کر خود گاڑی پر بیٹھے اور۱۰؍ کلو میٹر کا سفر طے کیا۔ اس نئے تجربے سے وہ اتنا خوش ہوئے کہ وہ بیل گاڑی کے۲؍ پہئے امریکہ لے جانےکی تدبیر کرنے لگے۔ دس دن اُسی گائوں میں رہے۔ بالآخر انہیں ایئر پورٹ اتھاریٹی سے منظوری مل گئی اوروہ اپنے ساتھ وہ پہیہ لے کر گئے تاکہ اس تکنیک سے وہاں کے کاریگروں کو متعارف کراسکیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK