Inquilab Logo

ایشیا میں سی آئی اے کی آخری ہچکیاں

Updated: February 06, 2024, 1:39 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai

یہ سچ ہے کہ غزہ کے مسائل میں بظاہر سی آئی اے کا کوئی رول نہیں معلوم ہوتا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ حکومت اسرائیل گزشتہ ۷۵ برسوں سے اسی ایجنسی سے مدد لیتی رہی ہے،امریکہ جانتا تھا کہ ایشیا میں اپنا وجود رکھنے کیلئے اسے ایسا ماحول بنانا تھا کہ یہاں لوگ آپس ہی میں الجھتے رہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

غزہ میں  اسرائیلی سرکار نے فلسطینی لیڈروں  کو یہ خبرد ی تھی کہ وہ غزہ میں  کم از کم تین ہفتوں  کے لئے جنگ بندی کرنا چاہتی ہے،ظاہر ہے کہ یہ خبر غزہ کےلیڈروں  کو براہ راست نہیں  دی گئی تھی۔انہیں  یہ خبر بیچ میں  رہنے والے دوسرے فریقوں  کے ذریعے دی گئی تھی، غزہ کے لیڈروں  نے یہ مان بھی لیا تھا ، لیکن وہ تین ہفتوں  کے لئے نہیں ،وہ چاہتے تھے کہ یہ جنگ بندی دائمی ہو جائے، بیچ کے فریقوں  نے معاملہ کو سلجھانا چاہا لیکن فلسطینی یہی کہتے رہے کہ تین ہفتوں  کی نا مکمل جنگ بندی سے صورت حال سنبھالنے میں  کوئی مدد نہیں  ملے گی۔بالآخر بات چیت ختم ہو گئی۔اہم بات یہ ہے کہ یہ کوشش سب سے پہلے امریکہ خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ذریعہ کی گئی تھی۔ لیکن فلسطین کی لیڈر شپ سی آئی اے کے کردار سے بھی واقف رہی اور یہ بھی جانتی تھی کہ یہ بات چیت ہمیشہ کی طرح نامکمل رہے گی۔
 سی آئی اے آ خر بے معنی نہیں  ہے، امریکی ایڈمنسٹریشن اپنی ساری گندی حرکتوں  کے لئے اسی گندی ایجنسی کا سہا را لیتی ہے اور اسی ایجنسی نے ایشیا میں  جنگ بندی کرائی ہے، یہ اسی کی حرکتوں  کا نتیجہ ہے کہ ایشیا میں  ایک عرصہ تک امن قائم نہیں  ہو پایا ہے۔ یہ سچ ہے کہ غزہ کے مسائل میں  بظاہر سی آئی اے کا کوئی رول نہیں  معلوم ہوتا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ حکومت اسرائیل گزشتہ ۷۵ برسوں  سے اسی ایجنسی سے مدد لیتی رہی ہے،امریکہ جانتا تھا کہ ایشیا میں  اپنا وجود رکھنے کے لئے اسے ایسا ماحول بنانا تھا کہ یہاں  لوگ آپس ہی میں  الجھتے رہیں ، یہ کھیل ۱۹۵۲ سے شروع ہوا تھا جب نیٹو معاہدہ عمل میں  آیا تھا۔ نیٹو یوں  تو روس کی مخالفت میں  تھا ،کیونکہ اس وقت کئی ایشیائی ممالک روس کی طرف راغب ہو رہے تھے۔ امریکہ دنیا کو بتانا چاہتا تھا کہ وہ دنیا میں  ممالک کا بھی محافظ ہے اور اسی کے ساتھ وہ روس کا بھی مخالف ہے وہ روس تو لوگوں  کی ذہنی آزادی کے خلاف تھا، یہ بات کئی ایشیائی ملکوں  میں  مان بھی لی گئی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ایشیا میں  کوئی ایسا ملک نہیں  تھا جو فوجی اور عسکری اعتبارسے روس کی طاقت جھٹلاسکے، چین بھی اس وقت تک کوئی بڑی طاقت نہیں  تھا، باقی ایشیائی ممالک غلامی سے نئے نئے آزاد ہوئے تھے اور فوجی اور عسکری طرز سے نابلد تھے۔ ایشیا کے کئی ممالک نے امریکہ کی اس برتری کو مان بھی لیا تھا۔ صرف ہندوستان ایسا ملک تھا جس کے نہرو جیسے لیڈروں  نے امریکہ کی برتری کو ماننے کے بجائے ناوابستہ تحریک شروع کی تھی۔ جس کا دنیا میں  اثر بھی تھا۔ امریکہ اور سی آئی اے کی حرکتیں  سب سے پہلے ایران میں  شروع ہوئیں ، بیسویں  صدی کے آخر میں  امام خمینی نے سب سے پہلے امریکہ کو شیطان بزرگ کہا تھا، یہ فقرہ امریکہ کے لئے کتنا درست تھا یہ بات آج دنیا مان رہی ہے۔
 ہم ان کالموں میں  یہ بتا چکے ہیں  کہ ایران میں  سی آئی اے کی مذموم حرکتوں  اور ریشہ دوانیوں  کی ابتدا اس وقت ہوئی تھی جب شاہ ایرن رضا شاہ پہلوی ملک کے شہنشاہ تھے۔ ان ہی کے زمانے میں  محمد مصدق نامی ایک معتبر سیاسی رہنما ملک کے وزیر اعظم بنے تھے، محمد مصدق ایک قومی ہیرواور محب وطن سیاسی لیڈر تھے۔ انہوں  نے وزیراعظم بنتے ہی ایران کے تیل کے خزانوں  کو قومی ملکیت قرار دیا تھا، امریکہ نے اس اقدام کو اپنی ہدایات کے خلاف سمجھا ۔ سی آئی اے نے اسی وقت حرکت شرو ع کردی تھی ، اس نے ایسی چالیں  چلیں  کہ شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی نے مختلف چالیں  چل کر محمد مصدق کو ایک دن معزول کردیا ،بس یہیں  سے امام خمینی کی بغاوت کا آغازہوا، پھر یہ معاملہ کہاں  تک پہنچا یہ بتانے کی کوئی ضـرورت نہیں  ہے، لیکن یہ سچ ہے کہ محمد مصدق جیسے رہنما کو منظر عام سے ہٹادیا گیاتھا لیکن اسی دن سے ایران میں  امریکہ مخالفت منڈھے چڑھی۔
 ایران کے بعد سی آئی اے کی نظر ترکی پر پڑی۔ ترکی میں  مصطفیٰ کمال اتاترک کی لائی ہوئی تبدیلیاں  کافی رنگ لا چکی تھیں ، مصطفیٰ کمال اتاترک کی لائی ہوئی بعض تبدیلیاں  اب قوم ترک کے لئے ایک وبال بن چکی ہیں  ، ان میں  سے ایک تبدیلی یہ تھی کہ ترکی میں  رسم الخط کی تبدیلی ہوئی تھی اور ترکی زبان انگریزی میں  پڑھائی جانے لگی تھی۔ یہاں  تک توٹھیک تھا لیکن اس کے بعد حکومت نے یہ فرمان بھی جاری کیا کہ مسجدوں  میں  نمازیں  عربی کے بجائے ترک زبانوں  میں  پڑھی جائیں ، لوگوں  سے کہا گیا کہ مسجدوں  میں  اذانیں  بھی ترکی زبان میں  دی جائیں ، اس وقت تک فوج پوری طرح سے امریکہ کی غلامی کر رہی تھی اور فوج کا ایک طبقہ بھی امریکی ہدایات پر ہی عمل کرتا تھا، مسجدوں  میں  ترکی زبان میں  اذانین دینےکا معاملہ ترکیوں  کی سمجھ میں  نہیں  آیا۔ انہوں  نے اندرونی طور پر اس کی مخالفت کرنا شروع کر دی۔ اسی زمانے میں  اور ہمارا خیال ہے یہ ۱۹۶۰ کا وسطی دور تھا، ترکی میں  عدنان مندریس نام کا ا یک انقلابی لیڈر کھڑا ہوا۔ ایک اور لیڈر جلال الدین بھی سامنے آیا، اس وقت تک نیٹو قائم کی گئی تھی۔ ترکی اس کا اہم ممبر تھا، عدنان مندریس نیٹو سے نکلنا چاہتے تھے، سی آئی اے نے وہاں  بھی سازشیں  شروع کیں ، چونکہ فوج کا ایک طبقہ بھی امریکہ کی غلامی کر رہا تھا اس لئے اس نے بھی امریکی مفادات کا دھیان رکھا۔عدنان مندریس روس سے مفاہمت چاہتے تھے، سی آئی اے کی سازشوں  کی وجہ سے ایک دن عدنان مندریس کو بھی سزائے موت دے دی گئی ، لیکن اب تک ترکی میں  امریکہ مخالفت اپنے عروج پر آچکی تھی، حال یہ تھا کہ ایک بارترکی پارلیمنٹ کے سات آٹھ ممبروں  نے عربی زبان میں  اذانیں  دیں ، انہیں  بھی پھانسی پر لٹکا دیا گیا، لیکن ترک بہر حال امریکہ کی غلامی ہی کرتا رہا۔ آج یہ عالم ہے کہ طیب اردگان کے بر سر اقتدار آتے ہی عدنا ن مندریس کی نعش ان کی قبر سے نکالی گئی، ترک پارلیمنٹ نے بیک رائے ایک تجویز پاس کی اور عدنان مندریس کو ترک کا ایک محب وطن قرار دیا گیا، اب عدنان مندریس کا ایک شاندار مقبرہ بن چکا ہے،یہ سب آپ کو یہ بتانے کے لئے ہے کہ یہ معلوم ہو کہ غزہ میں  اسرائیلی شکستوں  کا معاملہ اور آج نہیں  تو کل ایک فلسطینی ریاست بننے کے بعد یہ جان لیجئے کہ یہ اس تمام خطے میں  سی آئی اے کی آخری ہچکی ثابت ہوگی، اب صرف پاکستان ہی ایشیا میں  امریکہ کی حمایت والا رہ گیا ہے اور یہ بھی کب تک رہے گا، یہ بھی بس ایک ہی دو دن کی بات ہے۔امریکہ کو یہ معلوم ہو چکا ہے کہ اسرائیل کی شکست اسے اور اس کی سی آئی اے کے خلاف ہو چکی ہے، ہمیں  امید ہے کہ ایشیا میں  سی آئی اے کی حرکتوں  کے بارے میں  آپ کی معلومات میں  اضافہ ہوا ہوگا۔ امریکہ کو اب بھی یقین ہے کہ عرب شاہ اور شیوخ کی مدد اسے اس خطہ میں  زندہ رکھے گی لیکن یہ شاہ اور شیوخ بھی اپنے اقتدار کی آخری ہچکیاں  سن لیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK