غزہ کی خاتون صحافی ایمان حلیز کی آپ بیتی ، اسرائیلی حمایت یافتہ امدادی گروپ جی ایچ ایف کے مراکز کی بھیانک سچائی کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا
EPAPER
Updated: June 28, 2025, 12:35 PM IST | Gaza
غزہ کی خاتون صحافی ایمان حلیز کی آپ بیتی ، اسرائیلی حمایت یافتہ امدادی گروپ جی ایچ ایف کے مراکز کی بھیانک سچائی کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا
’میں نے آخری بار روٹی دو ماہ قبل کھائی تھی۔ اسرائیل نے۲؍ مارچ سے غزہ میں تقریباً تمام امداد بند کر رکھی ہے، تب سے بازاروں سے خوراک غائب ہوتی جا رہی ہے۔ اسی سبب خوراک کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ چینی اور آٹا ناپید ہو گئے، پھل اور سبزیاں نایاب ہو گئیں اور بازاروں میں صرف سرخ دال باقی رہ گئی ہے۔جنہوں نے جنوری کی جنگ بندی کے دوران خوراک کا ذخیرہ کیا تھا، شاید انہیں فاقوں کے ایک اور سخت دور کا اندیشہ محسوس ہوگیا تھا۔ لیکن میرے خاندان اور میں نے ایک خطرناک فیصلہ کیا تھا۔ —وہ یہ تھا کہ کچھ بھی ذخیرہ نہ کیا جائے۔ ہم پہلے یہ کر چکے تھے لیکن جب اسرائیلی فوجی اپنے ٹینکوں کے ساتھ ہمارے علاقے میں گھسے تو ہم سب کچھ کھو بیٹھے۔ ان لمحوں میں آپ کو کھانے کا خیال نہیں آتا۔ آپ اپنے خالی پیٹ اور کمزور جسم کو بھول جاتے ہیں۔ آپ صرف اپنے پیاروں کو گنتے ہیں اورتسلی ہونے پر محفوظ مقام کی طرف بھاگتے ہیں۔اگرچہ یہ فیصلہ ہم نے اپنی مرضی سے کیا تھا لیکن بہت سے لوگ ایسے تھے جن کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا، — جیسے الشجاعیہ محلے کے چار خاندان جو اب ہمارے گھر میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ ان سب کے کفیل جنگ کی وجہ سے اپنی روزی سے محروم ہو چکے ہیں۔
ان میں ایک ٹیکسی ڈرائیور ہیں جن کی گاڑی تباہ کر دی گئی، پلاسٹک کے کارخانے کا ایک شریک مالک جس کا کاروبار ملبے میں بدل گیا، ایک الیکٹریشن جس کے پاس کام نہیں کیونکہ بجلی کاٹ دی گئی ہے اور ایک خوانچہ فروش جس کے پاس فروخت کرنے کو کچھ نہیں بچا ہے۔اب ہمارے گھر میں رہنے والے تمام خاندان جن میں ہماری فیملی بھی شامل ہے، تقریباً مکمل طور پر سرخ دال پر زندہ ہیں۔ — صرف پانی، دال اور نمک اور کچھ نہیں۔ ہم اکثر اسے چمچ سے پیتے ہیں۔ کبھی کبھار ہم اس میں روٹی ڈبونے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ پیٹ بھر ا ہوا محسوس ہو لیکن آٹے کی قیمت پچھلے دو ماہ میں۶۰؍ سے۱۰۰؍ شیکل فی کلو (تقریباً۷ء۷۲؍امریکی ڈالر ) تک جا پہنچی ہے جس نے اس سادہ سےکھانے کو بھی ناقابلِ حصول بنا دیا ہے۔
ہم نے ایک نیا فعل بھی عربی زبان میں متعارف کروایا ہے: تَعَدَّسْتُ یعنی ’میں دال کھا چکا ہوں‘ یہ دن کے دو مشن میں سے ایک مکمل ہونے کا مطلب ہوتا ہے۔ مئی کے آخر میں اسرائیل اور امریکہ کی حمایت یافتہ ’غزہ ہیومینیٹرین فوڈ (جی ایچ ایف) پہل‘‘ کی خبریں زوروں پر آئیں۔ دعویٰ کیا گیا کہ ہر خاندان کو آٹا، چینی، بسکٹ اور ڈبہ بند کھانا دیا جائے گا۔
یہ کھانا اور پیکٹ ایک ہفتے کے لیے کافی ہوں گے۔ جی ایچ ایف کے تقسیم کےمراکز صرف رفح کے ۳؍ مقامات پر کھولے گئے تھے، جو موراگ (اسرائیلی فوجی راہداری) کے ساتھ واقع ہیں۔ بعد میں ایک اور مرکز نیٹزاریم کارویڈور پر کھولا گیا، جو غزہ کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ یہ پہلی خطرے کی گھنٹی تھی کہ’’ بھوکے تباہ حال لوگوں سے یہ توقع کیوں کی جا رہی ہے کہ وہ جنگ زدہ علاقوں میں جا کر خوراک لیں ؟ ‘‘اور یہ تمام مقامات صرف جنوبی غزہ میں ہی کیوں ہیں ؟جب جی ایچ ایف کے بارے میں تحقیقات سامنے آئیں تو میرے شکوک وشبہات مزید گہرے ہو گئے۔ اسرائیل نےجی ایچ ایف کی مالی معاونت سے انکار کیا لیکن امریکی حکومتی ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ پہل اسرائیل کی جانب سے شروع کی گئی ہے جس نے بارہا خوراک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ افسوس کہ خوراک کی قلت نے مجھے جی ایچ ایف جانے پر غور کرنے کیلئے مجبور کر دیا۔ شمالی غزہ کے باشندوں کے لیے نیٹزاریم کاریڈور کا پوائنٹ ہی ایک ممکنہ آپشن بچا تھا لیکن یہ وہی علاقہ تھا جہاں اسرائیلی فوج پہلے بھی لوگوں کو قتل کر چکی تھی۔ وہاں جانا ایک خوفناک خیال تھا۔
ابھی ہم انتظار میں ہی تھے کہ رفح کے ’ڈسٹری بیوشن پوائنٹس‘ فعال ہو گئے۔ ۲۷؍ مئی کو پہلے دن کے مناظر خوفناک تھے۔ اسرائیلی فوجیوں نے ہجوم پر فائرنگ کردی۔ اس دوران کئی فلسطینی لاپتہ ہو گئے، ۳؍مارے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔ کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا کہ نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لئے محدود فائرنگ ضروری تھی لیکن بعد میں ہونے والے قتلِ عام، جن میں ۳۰۰؍ سے زائد افراد مارے گئے، کسی صورت جائز نہیں ٹھہرائے جا سکتے۔ اسرائیلی فوج نے ان ہلاکتوں کی مسلسل تردید کی، انہیں ’مبالغہ آمیز دعوے‘ کہا اور گمراہ کن ویڈیوز کے ذریعے الزام حماس کے سرمنڈنے کی کوشش کی۔ لیکن غزہ کے لوگ سچ جانتے، پہچانتے ہیں۔ رفح میں جی ایچ ایف کے’ڈسٹری بیوشن پوائنٹ‘ پر منگل کے قتل عام سے بچنے والے ایک شخص نے مجھے بتایا کہ’’ امداد کی تقسیم کے وقت کے فوراً بعد، اسرائیلی فوجی سڑک کے قریب موجود تھے اور لوگوں کو ایسے شکار کر رہے تھے جیسے بطخوں کا شکار کررہے ہوں۔ ‘‘جنوبی غزہ سے آنے والے ایک امداد لینے والے شخص نے بتایا کہ اس نے اندر فلسطینی چوروں کے گروہ دیکھے، جو’جی ایچ ایف‘ کے کارکنوں کے ساتھ مل کر ہجوم اور امریکی عملے کے درمیان ایک بفر زون بنائے ہوئے تھے۔
جب نیٹزاریم پوائنٹ کھلا، تو ہمارے سامنے ۲؍ سنگین راستے تھے: پہلا :اپنی جان خطرے میں ڈال کر وہاں جانا، یا دوسرا: بھوک کا مزید سامنا کرنا۔ ہمیں پہلا راستہ ٹھیک لگا۔ کیونکہ براہِ راست گولی سے مارا جانا، بھکمری سے آہستہ آہستہ مرنے سے کہیں زیادہ رحم دل محسوس ہوتا ہے۔ شروع میں، میرے خاندان کے مرد وہاں جانے کو آمادہ تھے۔ لیکن ان لوگوں کا آنکھوں دیکھا حال جو پہلے ہی وہاں جا کرآچکے تھے، نے ہمارے فیصلے کو بدل دیا۔
محمد ناصر، جو۱۴؍ جون کوجی ایچ ایف نیٹزاریم پوائنٹ پر گئے تھے، اس دن وہاں ۵۹؍ افراد مارے گئے تھے، انہوں نے بتایا کہ ڈسٹری بیوشن سینٹر کے پاس زیادہ تر چوروں کے گروہ موجود تھے، جو پستول اور چاقوؤں سے مسلح تھے، اور عام شہریوں سے امداد چھین رہے تھے۔ ’’اگر وہ کسی کے پاس ایک کھجوربھی دیکھ لیتے ہیں ، تو وہ بھی چھین لیتے ہیں۔ ‘‘ناصر نے مزید بتایا کہ ’’اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے اندھا دھند فائرنگ دیکھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے اسرائیلی فوجی شرطیں لگا رہے ہوں کہ کون زیادہ لوگوں کو مار یا زخمی کر سکتا ہے۔ ‘‘ جی ایچ ایف کے عملے نے امداد کی تقسیم شروع ہونے کے صرف آدھے گھنٹے بعد ہی ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور آواز والے بم استعمال کیے۔ جی ایچ ایف کے عملے اور اسرائیلی فوج نے ’امداد کی تقسیم کے مرکز‘ کے اندر بدنظمی پیدا کی۔ ہر شخص کے لیے کوئی واضح یا مستقل حصہ مقرر نہیں۔ طاقتور اور مسلح لوگ جو چاہیں لے جاتے ہیں، دوسروں سے سرعام چھین لیتے ہیں، اور یہ سب عملے کی نظروں کے سامنے ہوتا ہے۔
جی ایچ ایف کے عملےکو ’’ بحرانی حالات پیدا کرنے میں ماہر ‘‘سمجھا جاتا ہے، ان کا بیک گراؤنڈ پریشان کن ہے۔ سب سے پہلے فِل ریلی کی بات کرتے ہیں جو ’سیف رِیچ سولیوشنز‘ کا سی ای او ہے، یہ اداہ جی ایچ ایف کی معاونت کررہا ہے، فِل ریلی ایک امریکی کمپنی کا سینئر نائب صدر تھا، جس نے۲۰۰۷ء میں عراق میں قتل عام کیا۔ جی ایچ ایف کی مدد ایک اور کمپنی بھی کر رہی ہے، جسے عام طور پر’یوجی سولیوشنز‘ کہا جاتا ہے۔ جنوری کی جنگ بندی کے دوران، یوجی سولیوشنزنے امریکی کرایہ کے فوجیوں کو یومیہ گیارہ سو ڈالر پر کام پر رکھا اور انہیں نیٹزاریم چیک پوائنٹ پر گاڑیوں کی تلاشی کا کام دیا۔
کہنا یہ ہے کہ جی ایچ ایف کے کسی بھی مرکز پر امداد حاصل کرنے کےلئے جانا ایک خطرناک آپریشن میں داخل ہونے کے مترادف ہے۔ وہ امداد سینٹر — فوجی زون میں ہے، جہاں ہمہ وقت مسلح فوجی موجودہوتے ہیں۔ اگر آپ وہاں پہنچ بھی گئے تو یہ یقینی نہیں کہ آپ کو کوئی امداد مل بھی جائے۔ اگر مل بھی گئی تو ممکن ہے کہ وہاں موجود جرائم پیشہ افراد کے گروہ آپ سےطاقت کے زور پروہ سب کچھ چھین لیں۔ اس لئے روزانہ کی وہی سرخ دال اور خوراک کی عدم موجودگی کے باوجود ہم ایسی امداد لینے پر مجبور نہیں جو خون اور ذلت میں لپٹی ہوئی ہو۔ (بشکریہ : الجزیرہ)