Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسرائیلی اپوزیشن لیڈر لاپید کا غزہ میں جاری نسل کشی کےخاتمےکا مطالبہ، نیتن یاہو حکومت پرسخت تنقید کی

Updated: July 07, 2025, 5:07 PM IST | Tel Aviv

لاپید کا یہ بیان، خان یونس میں حماس کے حملے میں ۷ اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سامنے آیا ہے۔ انہوں نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس نے فوجیوں کو ’’مزید حملوں کا نشانہ‘‘ بننے کیلئے چھوڑ دیا ہے۔

Yair Lapid. Photo: INN
یائر لاپید۔ تصویر: آئی این این

اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائر لاپید نے غزہ میں جاری جنگ کو ’’ناکام‘‘ قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے اور غزہ میں قیدیوں کی رہائی کو ترجیح دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ کام نہیں کر رہا ہے اور جنگ تعطل کا شکار ہو چکی ہے۔ لاپید نے جمعرات کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ جنگ کو ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ (اسرائیلی) قیادت کو سمجھنا چاہئے کہ جب حکمت عملی کامیاب نہ ہو تو اسے کیسے بدلنا ہے۔ لاپید کا یہ بیان خان یونس میں، حماس کے گھات لگا کر کئے گئے ایک حملے میں ۷ اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سامنے آیا ہے۔ اپوزیشں لیڈر نے صہیونی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ اس نے فوجیوں کو ’’مزید حملوں کا نشانہ‘‘ بننے کیلئے چھوڑ دیا ہے اور جاری قتل عام پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا: ’’اب کوئی نہیں سمجھتا کہ ہم اس سب سے کیا حاصل کر رہے ہیں۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: یورپی یونین کاؤنسل کے صدر انٹونیو کوسٹا نے غزہ میں انسانی حالات کو ’’تباہ کن‘‘ قرار دیا

قیدیوں کی رہائی اور جنگ کے بعد کی صورتحال

لاپید نے حماس کے قبضے میں اسرائیلی یرغمالوں، جن کی تعداد تقریباً ۵۰ ہے لیکن صرف ۲۰ کے زندہ ہونے کے امکانات ہیں، کی واپسی کیلئے ایک معاہدے کے مطالبہ کو دہرایا۔ انہوں نے جنگ کے بعد غزہ کے نظم و نسق میں پڑوسی ملک مصر کو شامل کرنے کی تجویز بھی پیش کی۔ لاپید نے کہا، ’’ہمیں غزہ پٹی کا انتظام مصر کے حوالے کر دینا چاہئے اور اسرائیلی فوج کو دھمکیوں کو روکنے، اسمگلنگ کو روکنے اور حماس کا اقتصادی طور پر گلا گھونٹنے کیلئے غزہ کے ارد گرد دوبارہ تعینات کیا جانا چاہئے۔‘‘ انہوں نے زور دیا کہ حماس کو شکست ’’ہمارے فوجیوں کو غزہ میں ختم کرکے نہیں دی جا سکتی، بلکہ حکمت عملی، تنظیم اور ذہین وقت کے ذریعے دی جاسکتی ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: غزہ نسل کشی: شیر خوار بچوں کیلئے دودھ کی قلت، سیکڑوں کی جانیں خطرے میں

اسرائیلی کنیسیٹ کے ممبر اور سابق اسپیکر، مکی لیوی نے لاپید کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اب ہمیں رک جانا چاہیے۔ لیوی نے ایکس پر لکھا کہ یہ جنگ، بغیر کسی سمت کے، ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں تبدیل ہوگئی ہے۔ اب معاہدے کا وقت آگیا ہے۔

لاپید کے تبصرے اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو پر بڑھتی ہوئی تنقید کا حصہ ہیں جن کی حکومت پر اپنی سیاسی بقاء کیلئے غزہ میں قتل عام کو طول دینے کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ یرغمالیوں کے اہل خانہ اور ہلاک ہونے والے فوجیوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی اپوزیشن کے کچھ لیڈران نے بھی نیتن یاہو پر اپنی کابینہ میں دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کو خوش کرنے کا الزام لگایا ہے۔ لاپید کے حالیہ تبصرے تب سامنے آئے ہیں جب اسرائیل اور ایران کے درمیان ۱۲ روزہ تنازع کے بعد بین الاقوامی توجہ دوبارہ غزہ پر منتقل ہو گئی ہے اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ بھی امید ظاہر کررہے ہیں کہ غزہ میں جنگ بندی اب ’’بہت قریب‘‘ ہے۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ میں ۴؍ لاکھ افراد لاپتہ, جن میں نصف سے زائد بچے ہیں: ہارورڈ ڈیٹاورس کی رپورٹ

غزہ میں انسانی بحران اور عالمی تنقید

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق، غزہ پٹی میں جاری اسرائیل کی نسل کشی پر مبنی جنگی کارروائیوں میں ۵۶ ہزار ۳۰۰ سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں۔ فلسطین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی وفا کے مطابق، غزہ میں تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے ۱۱ ہزار سے زائد فلسطینیوں کے دبے ہونے کا اندیشہ ہے۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل ہلاکتوں کی تعداد غزہ کے حکام کی رپورٹ کردہ تعداد سے کہیں زیادہ، تقریباً ۲ لاکھ کے قریب ہو سکتی ہے۔ اس قتل عام کے دوران، اسرائیل نے غزہ پٹی کے بیشتر علاقے کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے اور محصور علاقے کی تقریباً ۲۲ لاکھ کی فلسطینی آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ صہیونی ریاست نے انتہائی ضروری انسانی امداد کی ترسیل کو بھی روک دیا ہے جس کی وجہ سے علاقہ میں انسانی بحران شدید تر ہوتا جارہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK