راجستھان میں سچن پائلٹ اور اشوک گہلوت کے درمیان کشیدگی کے محض ایک دو اسباب ہی سب کے سامنے ہیں۔
EPAPER
Updated: June 10, 2023, 10:41 AM IST | Mumbai
راجستھان میں سچن پائلٹ اور اشوک گہلوت کے درمیان کشیدگی کے محض ایک دو اسباب ہی سب کے سامنے ہیں۔
راجستھان میں سچن پائلٹ اور اشوک گہلوت کے درمیان کشیدگی کے محض ایک دو اسباب ہی سب کے سامنے ہیں۔ سنا جاتا ہے کہ گہلوت اپنا تسلط برقرار رکھنے کیلئے پائلٹ کو فاصلے پر رکھتے ہیں۔ یہ بھی سنا جاتا ہے کہ پائلٹ وزیر اعلیٰ بننا چاہتے ہیں جس کا مبینہ طور پر اُن سے وعدہ کیا گیا تھا۔ کیا یہی اسباب ہیں یا اس کے علاوہ بھی کچھ ہے، یہ ہم نہیں جانتے مگر دُنیا دیکھ رہی ہے کہ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، گہلوت اور پائلٹ کے درمیان تناتنی بڑھتی جارہی ہے۔ چند روز قبل دونوں لیڈران نئی دہلی بلائے گئے تھے جہاں اعلیٰ سطحی میٹنگ ہوئی۔ یہ میٹنگ کامیاب ہوئی ہوتی تو اب تک سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہوتا مگر ایسا لگتا ہے کہ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوا۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کانگریس چھوڑ دینگے؟ اس کا امکان کم ہے لیکن میڈیا یہی سمجھانا چاہتا ہے چنانچہ ۱۱؍ جون کو دوسہ میں راجیش پائلٹ کیلئے منعقدہ دُعائیہ جلسے کے بارے میں یہ اطلاع دی جارہی ہے کہ اس دن پائلٹ نئی پارٹی کا اعلان کرینگے۔ ہمیں جو اطلاعات ملی ہیں اُن سے میڈیا کی اس خبر کی نفی ہوتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ راجستھان اور کانگریس دونوں کیلئے گہلوت بھی اُتنے ہی ضروری ہیں جتنے کہ پائلٹ۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ پائلٹ جتنے ضروری ہیں اُتنے ہی گہلوت بھی ہیں۔ دونوں میں سے کوئی ایک بھی علاحدہ ہوجائے تو راجستھان میں کانگریس کی ناؤ کنارے نہیں لگ سکتی۔ مگر، جتنی یہ بات درست ہے اُتنی ہی یہ بھی درست ہے کہ گہلوت پائلٹ کے مقابلے میں کافی سینئر اور مضبوط تو ہیں ہی، اراکین اسمبلی کی اکثریت بھی اُن کے ساتھ ہے۔ پائلٹ کے حامی اراکین کم بلکہ بہت کم ہیں۔ اس کے باوجود سچن کو جلد یا بہ دیر وزارت اعلیٰ مل سکتی ہے بشرطیکہ وہ کانگریس سے اپنی وفاداری قائم رکھیں۔ اُن کا بی جے پی کے پالے میں جانا مشکل ہے۔ اگر گئے تو وہ ہیمنت بسوا شرما بن سکتے ہیں، پائلٹ نہیں رہ پائینگے۔ ویسے اس کی کون ضمانت دے گا کہ پائلٹ کو شامل کرکے بی جے پی راجستھان فتح کرنے کے قابل ہوجائیگی؟ پھر وسندھرا راجے سندھیا میڈم کا کیا ہوگا؟ اُن کا ساتھ ملے گا یا نہیں؟ یہ سوالات بی جے پی کیلئے بھی پریشان کن ہوں گے جس کے پاس وزارت ِ اعلیٰ کے اُمیدواروں کی لسٹ پہلے سے رکھی ہوئی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ پائلٹ ایک بار کچھ جوڑ توڑ کی کوشش کرچکے ہیں۔ اسی واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے گہلوت گروپ اُنہیں اب تک باغی یا لااعتبار کہتا ہے۔
گہلوت سمجھداری کا ثبوت دیں تو کوئی مسئلہ ہی نہ ہو مگر وہ وزارت ِ اعلیٰ سے ہٹنا نہیں چاہتے، اسی لئے پائلٹ کو اپنی اہمیت منوانے کیلئے بار بار روٹھنا پڑتا ہے۔ پارٹی اُن کی اہمیت اور خدمات سے پوری طرح واقف ہے مگر گہلوت کے خلاف کسی فیصلے کی جرأت نہیں کرپاتی۔ پارٹی کے اچھے دن ہوتے تو ایسا کوئی فیصلہ ممکن بھی ہوسکتا تھا۔ اِس وقت تو یہ حال ہے کہ پارٹی اپنے بچے کھچے اقتدار کو سلامت اور اپنی معنویت کو ازسرنو منوانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے اور نہیں چاہتی کہ گہلوت پائلٹ تنازع کی وجہ سے راجستھان ہاتھ سے نکل جائے۔ اس کیلئے گہلوت کو فراخدلی سکھانا بھی مشکل ہے اور سچن کو صبر کی تلقین کرنا بھی دشوار۔ لیکن، ایسا لگتا ہے کہ آٹھ نو سال بعد کانگریس میں نئی روح پھونکنے کی کوششوں کے ابتدائی ثمرات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ لیڈران کسی کے سمجھانے سے زیادہ خود سمجھنے کی کوشش کرینگے کہ پارٹی ہے تو ہر عہدہ مل سکتا ہے، پارٹی حاشئے پر رہی تو کچھ نہیں مل سکتا۔ پارٹی کو ستانے سے بہتر ہے کہ یہ لوگ مل بیٹھیں اور ازخود حل نکالیں۔