Inquilab Logo Happiest Places to Work

غالب کی زندگی کا سب سے بڑا واقعہ عمر بھر کا افلاس تھا

Updated: December 29, 2019, 10:00 AM IST | Ali Sardar Jafri

زندگی نے غالب کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا اور ہمیشہ اس کی روح میں ریگزار ہی انڈیلتی رہی لیکن غالب کی روح نے زندگی کو لالہ زار بخشے۔ اس کی طبیعت کی یہ فیاضی اردو زبان اور ادب کو مالامال کرگئی۔

مرزا اسداللہ خاں غالب۔
مرزا اسداللہ خاں غالب۔

انسانی ذہن کی وسعتیں لامحدود ہونے کے باوجود ایک فرد کا ذہن کتنا ہی وسیع کیوں نہ ہو پھر بھی محدود رہتا ہے۔ بڑے سے بڑا شاعر اور مفکر بھی اس کلیہ سے آزاد نہیں۔ لیکن اس کی تخلیق، شعر یا خواب جسے وہ اپنی ذات سے الگ کرکے آئینے کی طرح دنیا کے سامنے رکھ دیتا ہے، انسانی ذہن کی لامحدود وسعتیں اختیار کرلیتا ہے۔ آنے والی نسلوں کا ہر پڑھنے والا اپنی استعداد اور جذباتی شدت کے اعتبار سے اس تخلیق میں نئے معنوں اور کیفیتوں کا اضافہ کر دیتا ہے۔ چنانچہ غالب یا شیکسپئر کا ایک مصرع ہزار مواقع پر ہزار معنی پیدا کرسکتا ہے۔ اس کے دامن میں اتنی وسعت ہوتی ہے کہ وہ آنے والی زندگی کے ہنگاموں کو سمیٹ سکے۔ اس کو تنقید کی زبان میں تعمیم، ہمہ گیری اور تہہ داری کے نام دیئے جاتے ہیں جو جذبات سے عاری اور خیالات سے خالی، لفظی بازی گری سے مختلف چیز ہے اور صرف اس وقت پیدا ہوتی ہے جب شاعر اپنے عہد پر حاوی ہونے کے ساتھ ساتھ لفظوں کے صوتی آہنگ اور معنوی کیفیات سے بھی پوری طرح واقف ہو اور ان کو اس طرح چھیڑ سکے جیسے مطرب ساز کے تاروں کو چھیڑتا ہے۔ ادب کی تاریخ میں چند گنی چنی شخصیتیں اس معیار پر پوری اترتی ہیں۔ غالبؔ ان میں سے ایک ہے۔
 غالبؔ اردو کا محبوب ترین شاعر ہے جسے اقبال نے گوئٹے کا ہمنوا قرار دیا ہے۔ گزشتہ سو سال میں دیوانِ غالبؔ کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے ہیں اور بے شمار مضامین لکھے گئے ہیں۔ ہر نقاد اور پڑھنے والے نے اپنے مذاق اور مزاج کے لئے غالبؔ کے اشعار میں گنجائش دیکھی۔ کبھی خراجِ تحسین نے عقیدت کی شکل اختیار کی، کبھی سنجیدہ تجزیئے کی اور کبھی اس مبالغے کی جو آرٹ کا حسین زیور ہے۔
 غالب کی شخصیت انتہائی دل آویز اور ہمہ گیر تھی۔ نسلی اعتبار سے وہ ایبک ترک تھا جس کا دادا اس کی پیدائش (۲۷؍دسمبر ۱۷۹۷ء) سے تقریباً نصف صدی پہلے سمرقند سے ہندوستان آیا تھا۔ اس خاندان نے غالب کو چوڑاچکلا ہاڑ، لانبا قد، سڈول جسم، بھرے ہاتھ پاؤں، کتابی چہرہ، کھڑا نقشہ، چوڑی پیشانی، گھنی لانبی پلکیں اور بڑی بڑی بادامی آنکھیں اور سرخ و سفید رنگ دیا تھا۔ غالب کا مزاج ایرانی تھا۔ مذہبی عقائد عربی، تہذیب و تربیت ہندوستانی اور زبان اردو جس کو غالب نے بارہا ہندی اور ریختے کے نام سے یاد کیا ہے۔ ذہانت، طباعی اور سخن وری کا ملکہ پیدائشی تھا اور زندہ دلی، آزادہ روی اور خوش اخلاقی نے سونے پر سہاگے کا کام کیا جس کی وجہ سے لوگ اس کی انانیت اور خودپرستی کو برداشت کرلیتے تھے۔ شعر کہنا بچپن سے شروع کردیا تھا اور پچیس برس کی عمر سے پہلے اُردو کے بعض بہترین قصائد اور غزلیں کہہ لی تھیں اور تیس بتیس برس کی عمر میں کلکتے سے دہلی تک ایک ہنگامہ برپا کردیا تھا۔ تعلیم کے متعلق کافی معلومات اب تک فراہم نہیں ہوسکی ہیں۔ لیکن غالب اپنے عہد کے مروجہ علوم پر حاوی تھا اور فارسی زبان، شعر اور ادب پر گہری نگاہ رکھتا تھا اور پھر زندگی کا مطالعہ اتنا وسیع تھا کہ خود لکھا ہے کہ ستر برس کی عمر میں عوام سے نہیں خواص سے ستر ہزار آدمی نظر سےگزر چکے ہیں: ’’میں انسان نہیں ہوں انسان شناس ہوں۔‘‘  (ایک خط سے اقتباس) بادشاہوں اور امیروں سے لے کر مئے فروشوں تک اور دہلی کے علماء اور فضلاء سے لے کر انگریز حاکموں تک بے شمار لوگ غالب کے ذاتی دوستوں میں تھے۔ جوانی کی رنگ رلیوں کا ذکر بارہا کیا ہے۔ رقص، سرور، شراب، شاہدبازی، جوا کسی چیز سے پرہیز نہیںکیا۔ (اس سلسلے میں اوباشوں کی صحبت بھی ملی ہوگی) اور جب بیس پچیس برس کی عمر میں رنگ رلیوں سے دل ہٹ گیا تو صوفیانہ آزادہ روی اختیار کی اور ہندو، مسلمان، عیسائی، ہندوستانی اور انگریز سب سے یکساں سلوک کیا، نماز پڑھی نہیں، روزہ رکھا نہیں، شراب کبھی ترک نہیں کی، ہمیشہ اپنے آپ کو گنہگار کہا لیکن خدا، رسول اور اسلام پر پورا پورا ایمان تھا۔ چند چیزوں کا شوق ہوس کی حد تک تھا۔ علم اور عزت کی طلب ایک شدید پیاس بن کر عمر بھر ساتھ رہی۔ کڑوے کریلے، املی کے کھٹے پھول، چنے کی دال، انگور، آم، کباب، شراب، خوبصورت راگ اور حسین مکھڑے ہمیشہ دل کو کھینچتے رہے۔ یوں تو غالب عمر بھر ان چیزوں کے لئے ترستا رہا لیکن اگر کبھی چند چیزیں ایک ساتھ جمع ہوگئیں تو اس وقت غالب کا دماغ آسمان پر پہنچ گیا اور اس نے اپنے آپ کو ہفت اقلیم کا بادشاہ سمجھ لیا۔
 اس کی نشاط پرور اور عیش پرست طبیعت کا پورا اندازہ ایک فارسی اور ایک اردو غزل سے ہوسکتا ہے۔ اتنی حسین غزلیں حافظؔ کے بعد صرف غالب نے کہی ہیں اور آج تک کوئی اور شاعر اس کیفیت و نشاط، لطف و سرور کو الفاظ میں اتنی شدت اور حسن کے ساتھ اسیر نہیں ہوسکا ہے۔ (دونوں غزلیںبائیں جانب باکس میں دیکھی جاسکتی ہیں: مرتب)
  چند واقعات غالب کی زندگی میں بہت اہم ہیں۔ بچپن کی یتیمی، دہلی کا قیام اور کلکتے کا سفر، اور ان کا اثراس کی شخصیت اور شاعری پر بڑا گہرا ہے۔ اس کی ابتدائی زندگی اور شاعری کی بے راہ روی مشہور ہے۔ جو بچہ پانچ برس کی عمر میں باپ کی سرپرستی سے محروم ہوگیا ہو اور جسے کوئی معقول تربیت نہ ملی ہو، وہ اپنی ذہانت اور طبیعت ہی کے زور پر آگے بڑھ سکتا تھا اور اس راہ میں بے راہ روی بڑی اہم منزل ہے جہاں ٹھوکریں استاد کا کام کرتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ میرؔ نے غالب کا ابتدائی کلام سن کر کہا تھا کہ اگر کوئی استادِ کامل مل گیا تو اچھا شاعر ہوجائے گا، نہیں تو مہمل بکنے لگے گا۔ ایک ایرائی ملا عبدالصمد کے سوا (جس کا وجود مشکوک ہے) زندگی کے تجربات ہی غالب کے استاد رہے۔ غالب کی ابتدائی مشکل شاعری پر جس کے بعض نمونے مروجہ منتخب دیوانوں میں بھی باقی رہ گئے ہیں، جب آگرہ والے ہنسے تو غالب کی انانیت انہیں خاطر میں نہ لائی لیکن شادی کے بعد قیامِ دہلی کے دوران میں بڑے بڑے عالموں اور مستند استادانِ فن سے سابقہ پڑا تو غالب ان کی رائے کو نظرانداز نہ کرسکا اور پچیس برس تک پہنچتے پہنچتے طبیعت صحیح شعر کی طرف مائل ہوگئی۔
 اپنی جاگیر اور پنشن کے سلسلے میں غالب کو تیس برس کی عمر میں (۱۸۲۷ء) کلکتے کا جو سفر کرنا پڑا وہ اس کی زندگی کا بہت بڑا موڑ ہے۔ وہاں اس نے صرف نئی زندگی کی جھلکیاں ہی نہیں دیکھیں بلکہ اپنی ناکامی کے آئینے میں اپنا منہ بھی دیکھا۔ اس طرح غالب نے مغل تہذیب کی آخری بہار اور نئی صنعتی تہذیب کے ابھرتے ہوئےنقوش اور ان کی کیفیتوں کو اپنی شخصیت میں جذب کرلیا۔
 لیکن ان میں سب سے بڑا واقعہ عمر بھر کا افلاس ہے جس نے ہمیشہ غالب کو بے چین اور بے قرار رکھا۔ اب نہ تو آباء و اجداد کی شان و شوکت باقی تھی جن کے قدیم رشتے ایرانی بادشاہوں سے ملتے تھے اور نہ بوعلی سینا کا علم تھا اس لئے اپنے قلم کو غالب نے عَلَم بنالیا اور اپنے آباء و اجداد کے ٹوٹے ہوئے نیزوں کو قلم۔ زندگی نے غالب کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا اور ہمیشہ اس کی روح میں ریگزار ہی انڈیلتی رہی لیکن غالب کی روح نے زندگی کو لالہ زار بخشے۔ اس کی طبیعت کی یہ فیاضی اردو زبان اور ادب کو مالامال کرگئی۔

(مصنف کی مشہور تصنیف ’’کبیر، میر اور غالب: پیغمبرانِ سخن‘‘ سے ایک باب)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK