Inquilab Logo Happiest Places to Work

عالمی منافقت اور غزہ

Updated: October 25, 2023, 1:15 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

عالمی منافقت ختم ہوجائے تو اسرائیل کو جنگی جرائم کی سزا سے کوئی نہیں روک سکتا مگر حال یہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور کناڈا ہوں یا ان جیسا کوئی اور ملک، یہ سب تل ابیب سے یہ اُمید تو رکھتے ہیں کہ وہ عالمی انسانی قوانین کی پاسداری کرے مگر جب وہ ان قوانین کی دھجیاں اُڑاتا ہے تو یہ، گھنگنیاں منہ میں بھر کر بیٹھ جاتے ہیں اور کچھ نہیں کہتے۔

Israel`s indiscriminate bombing continues to haunt Gaza day and night.Photo:INN
اسرائیل کی اندھادھند بمباری غزہ کو دن رات تہس نہس کررہی ہے۔تصویر: آئی این این

 عالمی منافقت ختم ہوجائے تو اسرائیل کو جنگی جرائم کی سزا سے کوئی نہیں  روک سکتا مگر حال یہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور کناڈا ہوں  یا ان جیسا کوئی اور ملک، یہ سب تل ابیب سے یہ اُمید تو رکھتے ہیں  کہ وہ عالمی انسانی قوانین کی پاسداری کرے مگر جب وہ ان قوانین کی دھجیاں  اُڑاتا ہے تو یہ، گھنگنیاں  منہ میں  بھر کر بیٹھ جاتے  ہیں  اور کچھ نہیں  کہتے۔ 
 اسرائیل کی اندھادھند بمباری غزہ کو دن رات تہس نہس کررہی ہے۔ جنگ کا اُصول ہے کہ شہری ٹھکانوں  پر بمباری نہ ہو مگر اس اُصول سے اسرائیلی کا کوئی سروکار نہیں  ہے جس نے اسپتالوں  پر بھی بمباری کی ہے، مسجدوں  اور کلیساؤں  پر بھی اور  رہائشی عمارتوں  پر بھی۔ بچے اس کا خاص ہدف ہیں  جس کا نتیجہ ہے کہ اب تک غزہ میں  جتنی اموات ہوئی ہیں  اُن میں  کم و بیش پچاس فیصد بچے ہیں ۔ صاف محسوس ہورہا ہے کہ تل ابیب غزہ کو نیست و نابود کردینا چاہتا ہے تاکہ کوئی مزاحمت باقی ہی نہ رہے اور غزہ کا اسرائیل سے الحاق کرلیا جائے اور بہت آسانی کے ساتھ یہودی بستیاں  بسا لی جائیں ۔ اپنے اس مقصد کے حصول کیلئے اس نے آوازوں  کو دبانے پر خاص توجہ دی ہے۔ خبروں  میں  بتایا جارہا ہے کہ خود اسرائیل کے عوام بھی غزہ کے ساتھ ہونے والے سلوک سے خوش نہیں  ہیں  اور اپنی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں  مگر اُن کے غم و غصے کو ذرائع ابلاغ میں  جگہ نہیں  مل رہی ہے۔ جن مشہور شخصیات نے فلسطین کے حق میں  آواز اُٹھائی  اُنہیں  کسی نہ کسی انداز میں  پریشان کیا جارہا ہے۔تنقیدی آوازوں  کو بالجبر خاموش کرنے کا یہ سلسلہ اسرائیل تک محدود نہیں  بلکہ امریکہ تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے کئی شواہد منظر عام پر ہیں ۔ اس کا تازہ ثبوت یہ ہے۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں  جنیٹکس کے ماہر سائنسداں  اور ای لائف نامی میگزیشن کے مدیر اعلیٰ مائیکل ایزن کو محض اس لئے ادارتی سربراہی سے ہٹا دیا گیا کہ اُنہوں  نے غزہ کی اموات پر لکھے گئے ایک مضمون کو ’’ری ٹویٹ‘‘ کیا تھا۔اس مضمون کے عنوان کا مفہوم تھا: موت کے گھاٹ اُتارے جانے والے اہل غزہ پر اس لئے تنقید کی جارہی ہے کہ اُنہوں  نے مرتے وقت حماس کی مخالفت نہیں  کی۔ یہ طنزیہ مضمون تھا مگر جو اہل اقتدار عام دنوں  میں  طنز پسند نہیں  کرتے وہ دوران ِ جنگ طنز کو قبول کرلیں  یہ کیسے ممکن ہے؟ اہل اقتدار تو اہل اقتدار، اُن کے حامی اور اُن سے مفادات وابستہ رکھنے والے کب چپ رہ سکتے ہیں ۔ بتادیں  کہ مائیکل ایزن خود بھی یہودی ہیں  مگر اُن پر بجلی گری ۔ ایسی ایک نہیں  سیکڑوں  بجلیاں  مصری تیراک عبدالرحمان العربی پر گریں  جنہوں  نے ایک اہم مقابلہ جیتا تھا مگر اُن کا کہنا تھا کہ ’’پتہ نہیں  مَیں  اس قابل ہوں  یا نہیں  کہ اپنی فتح کا جشن منا سکوں  کیونکہ مجھے فلسطین کے حق میں  بولنے کے جرم میں  موت کی دھمکیاں  مل رہی ہیں ۔‘‘ 
 اپنے ’’کارناموں ‘‘ پر تنقید برداشت نہ کرنا  ایسی ہی بزدلی ہے جیسی بچوں  کو یا تو بمباری کے ذریعہ مارنا یا اُنہیں  طبی امداد فراہم کرنے والے اسپتالوں  کومنہدم کردینا یا وہاں  تک دوائیں  نہ پہنچنے دینا۔ اسرائیل اِس وقت ہر وہ بدمعاشی کررہا ہے جو وہ کرسکتا ہے اور عالمی برادری اُسے ایسا کرنے دے رہی ہے۔ جو ممالک دبے یا کھلے لفظوں  میں  کچھ کہہ رہے ہیں  وہ دیگر ملکوں  کو اعتماد میں  لے کر کچھ کہنے یا کرنے سے بچ رہے ہیں ۔ غزہ کو، پوری یا آدھی، یہی  منافقت ڈس رہی ہے ۔   

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK