Inquilab Logo

لاء اینڈ آرڈر کے مفہوم کی خیر ہو، اَب نہ لاء ہے نہ آرڈر

Updated: May 01, 2023, 1:10 PM IST | P. Chidambaram | Mumbai

حالیہ برسوں کے کئی واقعات کے پیش نظر یہ سمجھنا مشکل ہوتا جارہا ہے کہ ہم قانون کے مطابق چلنے والا ملک چاہتے ہیں یا اس ملک میں جنگل راج قائم کرنے پر تُلے ہیں؟

photo;INN
تصویر :آئی این این

آئین ہند میں فوجداری قانون اور فوجداری طریقہ عمل (کریمنل لاء اور کریمنل پروسیجر) ساتویں شیڈول میں درج ہے (لسٹ III، کنکرنٹ لسٹ)۔ جہاں تک پبلک آرڈر یعنی عوامی نظم و ضبط کا تعلق ہے، جس میں نظم و نسق شامل ہے، یہ ریاستی قانون سازیہ کی عملداری میں آتا ہے (لسٹ II، اسٹیٹ لسٹ)۔ اس سلسلے کے انتظامی اختیارات بھی ریاستی حکومتوں کو دیئے گئے ہیں (آرٹیکل ۱۶۲)۔ ان اختیارات کے ساتھ ہی یہ ذمہ داری بھی دی گئی ہے کہ قانون نافذ کیا جائے، قانون شکنی روکی جائے، مشتبہ افراد کو گرفتار کیا جائے، تفتیش ہو، دفاع اور استغاثہ کا عمل ہو اور ملزم کے تعلق سے فیصلہ سنایا جائے۔
 لازم ہے کہ یہ سب قانون کے دائرے میں ہو اور اس کیلئے قانون پر مبنی احکام جاری ہوں۔ مگر حالیہ چند واقعات نے نظم و نسق کی تعریف کے تعلق سے بڑے شبہات پیدا کردیئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ قانون کو قانون نہیں سمجھا جارہا ہے نہ ہی بطور قانون نافذ کیا جارہا ہے۔ شاید کوشش یہ ہے کہ قانون کو اُس طرح سمجھا جائے جس طرح قانون نافذ کرنے والے سمجھانا چاہتے ہیں۔جہاں تک حکم کا تعلق ہے، ایسا لگتا ہے کہ اس کا معنی قانون کے مطابق حکم نہیں ہے بلکہ وہ ہدایت ہے جو زبانی جاری کی گئی ہو اور ایسے افراد نے جاری کی ہو جنہوں نے حکم کے نام پر مرضی چلانے کو معمول بنالیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب جب بھی نظم و نسق کی بات ہوتی ہے تو میرے ذہن میں سوال اُٹھتا ہے کہ کیسا نظم اور کیسا نسق؟ کیسا لاء اور کیسا آرڈر؟ 
 حقیقت یہ ہے کہ قانون چند آفاقی یا عالمی، قانونی اور اخلاقی ضابطوں پر مبنی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر پوری دُنیا میں جو قوانین الگ الگ شکل اور انداز میں پائے جاتے ہیں، اُن میں چند باتیں بنیادی اور مشترک ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر:
 (۱) ہر شخص، فرد یا شہری بے گناہ ہے جب تک کہ اُسے عدالت گنہگار، خاطی یا مجرم نہ قرار دے دے۔
 (۲) کسی بھی شخص کو اُس کی زندگی یا ذاتی آزادی سے محروم نہیں کیا جاسکتا البتہ قانون میں جواستثنیٰ موجود ہے اسے پیش نگاہ رکھا جاسکتا ہے۔ (آرٹیکل ۲۱)۔ 
 (۳) تعزیری قانون (کریمنل لاء) لکھا ہوا قانون ہے جس میں جرم و سزاکی مکمل تفصیل موجود ہے کہ قانون کے ذریعہ کس طرح جرم کی تہہ تک پہنچا جائے، تفتیش ہو، دفاع اور استغاثہ کا عمل ہو اور اس کے بعد فیصلہ ہو، سزا دی جائے۔ 
 (۴) ملزم کے خلاف مقدمہ کھلی عدالت میں چلایا جائے۔
 (۵) ملزم کو اپنے دفاع کا پورا اختیار ہے، اُسے اپنا مقدمہ پیش کرنے کا بھی حق ہے ، وہ کسی اور کو پیروی کیلئے منتخب کرسکتا ہے۔ 
 (۶) عدالت میں مقدمہ لے کر پہنچنے والے یا دائر کرنے والے پر لازم ہے کہ عدالت میں تمام شواہد پیش کرے خواہ وہ تفتیشی ادارہ کے دعوؤں کو تقویت دینے والے ہوں یا ملزم کے حق میں ہوں یعنی اُس کے دفاع کی راہ ہموار کرنے والے ہوں۔ 
 (۵) جج اور صرف جج کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ پیش کئے گئے شخص کو یا تو مجرم قرار دے یا بے گناہ۔ اگر اُسے مجرم قرار دیا جاتا ہے تو سزا تجویز کرنے کا اختیار بھی جج ہی کا ہے۔
 جس ملک میں ان عالمی اور آفاقی اُصولوں کو پیش نظر نہ رکھا جاتا ہو، کیا اُسے قانون کی بالادستی میں چلنے والا ملک کہا جائیگا؟ چند ملکوں کا طریقہ الگ ہے، وہاں کہا جاتا ہے کہ ’’قانون کس طرح نافذ ہوگا اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آدمی کون ہے؟یہ اُن ملکوں کا طریقہ ہے جہاں قانون کی بالادستی نہیں ہے، قانون کی عملداری اور نفاذ نہیں ہے بلکہ من مانے طریقے سے فیصلے کئے جاتے ہیں چنانچہ ایک ہی طرح کی خطا پر ایک شخص کو جو سزا دی جائیگی ضروری نہیں کہ ویسی ہی خطا پر کسی دوسرے شخص کو بھی وہی سزا ملے۔ قانون کی بالادستی اور قانون کے ذریعہ حکمرانی کا یہی فرق ہے۔ افسو س کہ یہ فرق دن بہ دن کم ہوتا جارہا ہے۔ نفاذ قانون کے کئی ذمہ داران کا طرز عمل اب ایسا ہے جیسے یہ سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہو کہ حکم ہی حکم ہے۔ 
 قانون کے تعلق سے ان فلسفیانہ باتوں سے قطع نظر اب آئیے چند مثالوں اور ٹھوس حقیقتوں کے تناظر میں معاملات کو سمجھا جائے: 
 جے پور دہلی ہائی وے سے مویشی لے جانے والے پہلو خان کو چند نام نہاد گئو رکشکوں نے بُری طرح مارا پیٹا تھا۔ اس حملے کی ویڈیو ریکارڈنگ کی گئی تھی۔ اس کی موت واقع ہوگئی۔ دو سال بعد چھ ملزمین کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بَری کردیا گیا۔ ابھی اُنہیں رہا کیا ہی گیا تھا کہ اُن کا خیرمقدم کرنے کیلئے کچھ لوگ پہنچ گئے جنہوں نے کچھ نعرے بھی لگائے۔
 اُدیشہ، اُترپردیش، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، گجرات، کرناٹک وغیرہ سے ہر سال عیسائی عبادت گاہوں اور اُن کی دعائیہ مجلسوں پر حملے کے کم و بیش ۳۰۰؍ واقعات منظر عام پر آتے ہیں۔
 مسلم نوجوانوں پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ ہندو لڑکیوں کو جھانسہ دیتے ہیں اور اُنہیں اپنے شکنجے میں پھانس لیتے ہیں۔ کئی ریاستو ں میں اس الزام میں لوَ جہاد کے معاملات درج کئے گئے۔ مگر فروری ۲۰۲۰ء میں وزیر مملکت برائے داخلہ نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ قانون میں لوَ جہاد کی تعریف موجود نہیں ہے اور اس نوع کے کسی واقعہ کی اطلاع مرکزی ایجنسیوں نے نہیں دی ہے۔ 
 ۲۶؍ مارچ ۲۰۲۳ء کو عتیق احمد نے صحافیوں سے کہا تھا کہ اُسے قتل کیا جاسکتا ہے۔ ۱۶؍ اپریل کو جب اسے پریاگ راج میں ایک اسپتال لے جایا گیا تھا، تب حملہ آوروں نے اسے گولیوں سے بھون دیا۔ اس سے ایک ہفتہ پہلے عتیق کے بیٹے کا انکاؤنٹر ہوا تھا۔
 سوال یہ ہے کہ کون سا قانون ایسی ہلاکتوں، حملوں اور زیادتیوں کی اجازت دیتا ہے؟ کس کے حکم پر پہلو خان جیسے لوگوں کو مارا گیا، ایک قیدی کو گولیوں سے بھوننے والوں سے بچایا نہیں جاسکا اور کس کی ہدایت پر نوجوان جوڑوں کے خلاف معاملات درج کئے جاتے ہیں؟ غور کیجئے ان سوالات کا جواب نہیں ملتا۔
 مَیں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو ان کے انجام دینے والے مخصوص قسم کے نعرے کیوں لگاتے ہیں؟ کیا یہی نظم ہے اور یہی نسق ہے؟ کیا اسی کو لاء اور اسی کو آرڈر کہتے ہیں؟سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کہاں جارہے ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟

law Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK