Updated: December 16, 2025, 11:18 PM IST
| Mumbai
سڈنی میں یہودیوں کے قتل میں ملوث دہشت گرد بھی مسلمان نکلے۔ لیکن یہ آدھا سچ ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ سڈنی میں یہودیوں کو موت کے منہ سے بچانے والا مسیحا بھی مسلمان ہی نکلا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ جہاں مسلم دہشت گردوں مذمت کی جارہی ہے وہیں احمد ال احمد نامی اس مسلم شخص کے کارنامہ کو بھی سراہا جارہا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی احمد کی دلیری کی ستائش کی اور بنجامن نیتن یاہو نے بھی۔
اتوار کے دن دو دہشت گردوں نے سڈنی کے ساحل سمندر پر مذہبی تہوار ہنوکا مناتے ہوئے یہودیوں پر خود کار رائفلوں سے اندھادھند فائرنگ کرکے پندرہ لوگوں کو ہلاک اور تیس سے زیادہ کو زخمی کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے تہوار کا جشن موت کے ماتم میں بدل گیا۔ آسٹریلیا میں اس صدی میں دہشت گردی کی اتنی بڑی واردات اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔اگر ایک عام شہری نے عدیم المثال بہادری کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا تو ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہوسکتی تھی۔ اس دہشت گردانہ حملے کی جس سے ساری دنیا ایک بار پھر سکتے میں رہ گئی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ حملہ آوروں کا مقصد خواہ کچھ بھی رہا ہو بے گناہوں کے قتل کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں اس حملے کی مذمت ہورہی ہے وہیں اس شخص کی تعریف بھی کی جارہی ہے جواپنی جان کی پروا کئے بغیر ایک حملہ آوار سے بھڑ گیا، اسے پیچھے سے دھر دبوچا اور تھوڑی جدو جہد کے بعد اس کے ہاتھ سے رائفل چھین لی۔ اس کوشش میں اسے گولیاں بھی لگیں اور وہ زخمی ہوگیا۔ اس شخص کا نام احمد ال احمد ہے۔ احمد سیریاسے ہجرت کرکے آسٹریلیا آیا تھا اور سڈنی میں پھلوں اور سبزیوں کی دکان چلاتا ہے۔
چونکہ اس حملے کا ٹارگٹ بلاشبہ یہودی تھے اس لئے اسے سرکاری طور پر anti-semitic جرم تسلیم کرلیا گیا ہے اس بات کی بھی سرکاری طور پر تصدیق کردی گئی ہے کہ اس دل دہلادینے والے حملے کے پیچھے باپ۔بیٹے کی جوڑی کا ہاتھ تھا۔ باپ ساجد اکرم پولیس کے ہاتھوں مارا گیا جبکہ زخمی نوید اکرم کو پولیس نے گرفتار کرکے اسپتال میں داخل کرادیا ہے۔ گویا جس کا خدشہ تھا وہی ہوا۔ سڈنی میں یہودیوں کے قتل میں ملوث دہشت گرد بھی مسلمان نکلے۔ لیکن یہ آدھا سچ ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ سڈنی میں یہودیوں کو موت کے منہ سے بچانے والا مسیحا بھی مسلمان ہی نکلا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ مسلم دہشت گردوں کی حرکت کی جس طرح مذمت کی جارہی ہے اسی طرح اس مسلم شخص کے کارنامہ کو بھی ساری دنیا میں سراہا جارہا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی احمد کی جرأت کی ستائش کی اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے بھی۔ نیتن یاہو کایہ اعلان کہ وہ اس ’’بہادر مسلم شخص کو جس نے بے گناہ یہودیوں کی جان بچائی ہے سیلوٹ کرتے ہیں‘‘ اہمیت کا حامل ہے۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم انٹونی البانیز احمد کی عیادت کے لئے سینٹ جارج اسپتال پہنچ گئے۔ انہوں نے احمد کو’’ حقیقی آسٹریلیائی ہیرو‘‘ کا خطاب دیتے ہوئے کہا کہ ان سے مل کر وہ انہیں بے پناہ فخر کا احساس ہورہا ہے۔
اسرائیل کے عوام کے دلوں میں جہاں ایک جانب یہودیوں کے قتل پر غم وغصہ ہے وہیں دوسری جانب انہیں احمدکی دلیری اور انسان دوستی نے بھی اپنا گرویدہ بنالیا ہے۔ اسرائیل کے معروف روزنامہ ’’یروشلم پوسٹ‘‘نے ایک ستائشی مضمون شائع کیا ہے جس کی طویل سرخی ہے ’’ اگر یہودیوں کی جان بچانے کے لئے کوئی یہودی نوبیل انعام ہوتا تو احمد ال احمد اس کے حقدار بن گئے ہیں۔‘‘یروشلم پوسٹ کے مطابق احمد نے درجنوں بلکہ سیکڑوں زندگیاں بچائی ہیں اسی لئے اسرائیلی حکومت احمدکے اس ناقابل یقین کارنامہ کا اعتراف کرے اور اظہار تشکر کے طور پر انہیں اسرائیل کے اہم قومی اعزاز Genesis Prize سے نوازا جائے۔
یہ سچ ہے کہ فلسطینیوں پر جاری ظلم و استبداد پر ساری دنیا کے انصاف پسند انسانوں کا دل خون کے آنسو روتا ہے اور وہ اسرائیلی حکومت اور اس کی فوج کے جابرانہ رویے سے نفرت کرتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ غزہ یا مغربی کنارے کے مظلوم فلسطینیوں کا بدلہ کسی ایک بھی بے قصور یہودی شہری سے لیا جائے۔امریکی اور دوسرے مغربی تجزیہ نگار مسلسل یہ وارننگ دے رہے ہیں کہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں غزہ میں نہتے فلسطینیوں کے قتل عام سے دنیا بھر میں anti-semitism (یہود دشمنی) میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے لیکن اتنے بڑے پیمانے پر خونریزی نہیں ہوئی تھی ۔ میرا مؤقف یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت کی غیر انسانی پالیسیوں کے لئے دنیا بھر میں رہائش پذیر یہودیوں کو تو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان پالیسیوں کی انہیں سزا دی جاسکتی ہے۔ سڈنی میں یہودیوں کا خون بہاکر غزہ کے فلسطینیوں کے زخموں پر مرہم نہیں رکھا جاسکتا ۔ اس طرح کی دہشت گردانہ وارداتوں سے نیتن یاہو جیسے صہیونی جنگی مجرموں کے ہاتھ مضبوط ہوں گے اور وہ انہیں اپنی کالی کرتوتوں کو جائز ٹھہرانے کے لئے استعمال کریں گے۔
غزہ کی تباہی اور ستر ہزار فلسطینیوں کے قتل کے خلا ف ساری دنیا میں احتجاج کئے گئے۔ اسرائیل سفارتی طور پر دنیا میں اتنا تنہا کبھی نہیں تھا جتنا اس وقت ہے۔ پچھلے چند ماہ میں آسٹریلیا، فرانس، برطانیہ، پرتگال اور کینیڈا جیسے اسرائیل کے دوست ممالک نے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرکے نیتن یاہو کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔ دو ڈھائی برسوں میں فلسطینیوں کیلئے دنیا بھر میں ہمدردی اور آزادی کی ان کی جد وجہد کی حمایت میں اضافہ ہوا۔ لیکن سڈنی جیسے واقعات اگر نہیں رکے تو ان سے فلسطینیوں کا کاز کمزور پڑ جائے گا۔
سڈنی میں ہوئی دہشت گردی کا ایک اور بھیانک نتیجہ نکل سکتا ہے۔ وہ لوگ جوایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک سے امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپ میں ذریعہ معاش اور ایک بہتر زندگی کے حصول کے لئے جانا چاہتے ہیں ان کے لئے اب ان ممالک کے دروازے بند ہوسکتے ہیں۔ان لاکھوں تارکین وطن کے لئے بھی اس طرح کے واقعات مشکلیں پیدا کرسکتے ہیں جو پہلے سے ان ممالک میں مقیم ہیں۔ کینیڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا میں پچھلے چند ماہ سے امیگرینٹس کے خلاف زبردست احتجاج ہورہا ہے ، امریکہ میں امیگرینٹس کے خلا ف کریک ڈاؤن میں ہزاروں گرفتاریاں ہوچکی ہیں اور سیکڑوں بدنصیب ڈیپورٹ کئے جاچکے ہیں۔ واشنگٹن میں تشدد کی حالیہ واردات میں ایک افغان مہاجر کے ملوث ہونے کی وجہ سے ٹرمپ نے افغانستان اور درجن بھر دوسرے ممالک کے ویزوں پر پابندی لگا دی ہے۔
ہر قوم کی طرح مسلمانوں میں بھی اچھے برے دونوں قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کی کسی بھی واردات میں کوئی مسلم نام آتے ہی فوراً پوری قوم کو تشدد اور تخریب کاری کا حامی قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہی اسلاموفوبیا ہے۔ سڈنی کے المیے سے آسٹریلیا میں امیگرنٹس اور خصوصاً مسلم امیگرینٹس مسلمانوں کے خلاف بدظنی اور نفرت میں راتوں رات کافی اضافہ ہوسکتا تھالیکن لوگوں نے اپنی آنکھوں سے یہ مشاہدہ کیا کہ سڈنی کے خونیں ڈرامے کے ویلن اگر دو مسلم تھے تو اس ڈرامے کا ہیرو بھی ایک مسلم ہی تھا۔n