Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’میٹرک پاس تھا، تحصیلدار بن سکتا تھا مگر ۲؍ ہزار رشوت نہ دے سکا‘‘

Updated: July 13, 2025, 12:53 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

مدنپورہ کے ۷۷؍ سالہ عبدالکریم خان کا تعلق اُترپردیش کے ضلع بستی کے ایک زمیندار گھرانے سے ہے، لیکن آبائی پیشہ کاشتکاری کا تھا، اسلئے پیسوں کی قلت ہمیشہ رہی، چھٹی دہائی میں ممبئی آئے تو پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے، جو کاروبار شروع کیا تھا، وہ آج بھی جاری ہے۔

Abdul Karim Khan. Photo: INN.
عبدالکریم خان۔ تصویر: آئی این این۔

مدنپورہ کے سائوٹر اسٹریٹ میں مقیم، اُترپردیش کے ضلع بستی سے تعلق رکھنےوالے ۷۷؍سالہ عبدالکریم خان کی پیدائش ۸؍اگست ۱۹۴۸ء کو ان کے آبائی گائوں میں ہوئی تھی۔ گائوں کے علاوہ اطراف کے دیگر گائوں سے اس دور میں ہندی میڈیم سے میٹرک پاس کیا۔ اس عہد میں میٹر ک پاس کرنا بڑی بات تھی۔ زمیندار خاندان سے تعلق رہالیکن آبائی پیشہ کاشتکاری کاہونےسے ان کے والد کے پاس انہیں مزید اعلیٰ تعلیم دلانے کی مالی گنجائش نہیں تھی، اسلئے پڑھائی ترک کرنی پڑی۔ اس زمانے میں میٹرک پاس لوگ گائوں میں تحصیلدار بن جاتےتھے۔ انہیں بھی تحصیلدار بننےکا موقع ملا لیکن ۲؍ہزارروپے رشوت دینے کا انتظام نہ ہونے سے وہ تحصیلدار نہیں بن سکے۔ کاشتکاری سے کوئی بڑی آمدنی متوقع نہ تھی چنانچہ والد نے گائوں کے ۳؍ افراد سے ۱۰۔ ۱۰؍روپے قرض لے کر ۳۰؍روپے کا انتظام کیا۔ اسی رقم سے عبدالکریم کو ان کے ماموں کے ساتھ کام کرنےکیلئے چھٹی دہائی کے ابتدائی برسوں میں ممبئی روانہ کر دیا۔ مدنپورہ میں ان کے ماموں کی بھنگار کی دکان تھی۔ ماموں نے پہلے ایک شناساکی بھنگار کی دکان پر عبدالکریم کو ایک روپےیومیہ مزدوری پرلگایا، کچھ دنوں بعد ماموں انہیں یومیہ ۳؍روپے کے حساب سے اپنی دکان پر کام پر رکھ لیا۔ یہاں سے انہیں ماہانہ ۹۰؍روپے ملتے، جس میں سے ۵۰؍روپے وہ والدین کیلئے گائوں روانہ کرتےاور ۴۰؍ روپےمیں اپنی ضروریات پوری کرتے۔ یہ سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہا۔ اس دوران ان کے متعدد کاروباریوں سے تعلقات ہوگئے۔ ایک روزان کے ایک دوست نے انہیں اپنا کاروبار شروع کرنے کامشورہ دیا۔ ان دونوں نے ساتھ میں بھنگار کی پھیری کرناشروع کیا۔ دکانوں اور ملوں سے بھنگارملنے لگا، کام بڑھتا گیا۔ ماموں کی رضا سے انہوں نے مدنپورہ میں کرائے پر ایک جگہ لے کر اپنا ذاتی کاروبار شروع کیا۔ پوری زندگی اسی کاروبار سے وابستہ رہے۔ آج بھی ان کا کاروبار جاری ہے۔ ان کے۴؍بیٹے اسی کاروبار سے وابستہ ہیں۔ عمر کے اس مرحلے پر زیادہ تر گھر ہی میں رہتے ہیں۔ پانچوں وقت کی نماز پابندی سے پڑھتےہیں ۔ سادگی پسند زندگی گزارنے پر یقین رکھتےہیں۔ 
عبدالکریم خان کا کہنا ہےکہ ’’میری کامیابی میں اہلیہ جنت النساء کا بہت اہم رول رہا۔ انہوں نے میری محنت کی کمائی ہوئی رقم کا بڑے احتیاط سے استعمال کیا اور تھوڑا تھوڑا رقم پس انداز کرتے ہوئےبڑی رقم جمع کی، جس سے بال بچوں کی پرورش کی اوران کیلئے ایک گھر بھی خریدا۔ ساتویں دہائی میں انہوں نے۵۰۰۔ ۵۰۰؍روپے ماہانہ کی بسی ڈال کر بڑی خاموشی سے ۱۵؍ہزار روپے جمع کئے اور بھنڈاری کی چال (سائوٹر اسٹریٹ) میں پہلا گھر خریدا، وہ گھر آج بھی موجودہے۔ اس کےبعد بسی کا سلسلہ جاری رکھا جس سے ہم نے یکے بعد دیگرے کئی گھر خریدے۔ آج بھنڈاری چال کی جگہ پر تعمیر ہونےوالے باغ ربانی ٹاور میں ہمارے ۵؍ مکانات ہیں ۔ یہ سبھی گھر ہماری اہلیہ کی کفایت شعاری اور مالی بچت کے مرہون منت ہیں ۔ انہوں نے صرف اپنا ہی نہیں بلکہ بھنڈاری چال اور مدنپورہ کے دیگر علاقوں میں کرایے پر رہنے والی کئی خواتین کو بسی کی ترغیب دے کر انہیں بھی صاحب مکان بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ‘‘ عبدالکریم اپنی اہلیہ کی ان خوبیوں سے بے حدمتاثر ہیں۔ 
عبدالکریم کی پوری زندگی سادگی، ایمانداری اور محنت و مشقت پر محیط رہی۔ جس زمانےمیں وہ بھنگار کی پھیری کیا کرتے تھے، ان کے پاس پیسہ رکھنےکی کوئی محفوظ جگہ نہیں تھی۔ ایسےمیں بدلوپورہ (مدنپورہ)  میں ایک کرانہ اسٹور تھا، جہاں سے وہ راشن لیاکرتے تھے، اس دکان کے مالک قمرو اورصدرو نامی ۲؍بھائی تھے۔ دونوں بھائی بہت اچھے اور ایماندارتھے۔ ہفتہ بھر وہاں سے راشن لینےکےبعد سنیچر کو ان کاپیسہ وہ پابندی سے اداکرتےتھے۔ ان بھائیوں سے ان کے قریبی مراسم ہو گئےتھے۔ عبدالکریم اپنا پیسہ ان کے ہاں جمع کرواتے تھے۔ وہ، ان بھائیو ں سے کہتے تھےکہ جب کبھی پیسوں کی ضرورت ہو، وہ ان کا پیسہ بلا جھجھک استعمال کرسکتےہیں۔ جس کے جواب میں قمرو اور صدرو ان سے کہتے کہ ہمیں پیسوں کی ضرورت نہیں ہے اگر آپ کو مال خریدنے کیلئے پیسوں کی ضرورت پڑے تو آپ ہم سے پیسے لے سکتےہیں۔ عبدالکریم کاکہناہےکہ اب ایسے ایماندار اور بے لوث لوگ نہیں ملتےہیں۔ 
بابری مسجد کی شہادت کے بعد پھوٹ پڑنےوالے فساد کے دوران شرپسندوں نے سات راستہ مچھلی بازار پر واقع عبدالکریم کے گھر کو آگ لگا دی تھی۔ اس میں ان کا پورا گھر تباہ ہوگیاتھا۔ اس کی وجہ سے انہیں نقصان برداشت کرنا پڑا تھا لیکن اپنے نقصان سے زیادہ دوسروں کے نقصان اور ان کی پریشانیوں کی فکر تھی۔ اُس وقت عبدالکریم نے وہاں رہنے والے سیکڑوں مسلم مکینوں کو سائوٹر اسٹریٹ میں لاکر باغ ربانی ٹاور میں پناہ دی تھی۔ اس کے بعد مقامی لوگوں کے تعاون سے انہوں نے ان تمام افراد کیلئے قیام و طعام کا انتظام بھی کیاتھا۔ جب تک حالات معمول پر نہیں آگئے تھے، تب تک انہیں سہارا دیاتھا۔ 
عبدالکریم خان قدیم روایت اور رواداری کے زبردست حامی ہیں۔ دوست واحبات سے مضبوط اور مستحکم مراسم بنانے اوراسے قائم رکھنے پر یقین رکھتےہیں۔ اسی وجہ سےاکثراپنے دولت کدے پر دوست اور ہمسایوں کی محفل سجاتے رہےہیں۔ ان کی اہلیہ جنت النساءبھی اس معاملہ میں ہمیشہ پیش پیش رہیں۔ مہمانوں کی ضیافت کا انتظام نہایت خوش اسلوبی، دلچسپی اور گرمجوشی سے کیاکرتی تھیں۔ اکثرہونےوالی دعوت میں مقامی مسجد کے امام اور خادموں کو خاص طور پر مدعوکرتی تھیں۔ آج بھی ہر اتوار کو ان کے گھر سے مقامی مسجد کے امام اور خادموں کیلئے دوپہر کاکھانا بھیجاجاتاہے۔ 
عبدالکریم خان ۲۰۰۷ءمیں اپنی اہلیہ اور اپنے پوتےکےساتھ حج کرنےگئے تھے۔ حج کی ادائیگی کےبعد ایک دن بس سے عرفات کی جانب جارہےتھے۔ اس دوران اچانک ایک بھاری گاڑی سے ان کے بس کا تصادم ہوگیا۔ اس ٹکر سے بس میں سوار تقریباً ۵۰؍حاجی بری طرح زخمی ہوگئے تھےجبکہ تین چار حاجیوں کی موقع پر ہی موت واقع ہوگئی تھی۔ انہیں دیکھ کر عبدالکریم خوف سے نڈھال ہوگئے تھے۔ ان کے سرمیں بھی شدید چوٹ آئی تھی۔ اہلیہ اور پوتابھی زخمی ہواتھا۔ تینوں کو مقامی اسپتال میں علاج کیلئے داخل کیاگیا تھا۔ ۳؍دن تک اسپتال میں رکھنےکےبعد ان تینوں کو مزید علاج کیلئے ممبئی روانہ کردیاگیا تھا۔ یہاں صابوصدیق اسپتال میں ان کا علاج ہوا۔ حادثے میں انہوں نے موت کو بہت قریب سے دیکھا تھا، جسے وہ نہیں بھولتےہیں۔ 
عبدالکریم کی شادی بھی نہایت سادگی سے ہوئی تھی۔ ان کے سسرال کے لوگ بہت غریب تھے۔ اسلئے بارات کے نام پر صرف ۱۵۔ ۲۰؍ افراد ہی شادی میں گئے تھے۔ نکاح کےبعد ان کے تمام مہمانوں کی ضیافت دال، روٹی اور چاول سےکرائی گئی تھی کیونکہ ان کیلئے گوشت وغیرہ کاانتظام مشکل تھا۔ جہیز میں چند برتنوں کے علاوہ بادھ سے بنی ایک چارپائی اور ۲۰؍روپے کی گھڑی انہیں دی گئی تھی۔ 
عبدالکریم خان کو عیدقرباں میں قربانی کروانےکا ہمیشہ سے شوق رہا، جو اَب بھی برقرار ہے۔ وہ بکروں کی خریداری کیلئے محلے والوں کے ساتھ دیونار جاتےتھے۔ اچھے، فربہ اور خوبصورت بکروں کی تلاش میں دن بھر دیونا بازار کی خاک چھانتے اورجب انہیں اپنی پسند کا جانور مل جاتا تو ہی اس کا سودا کرتےتھے۔ ایک زمانےمیں ایک ہزار روپےمیں ۳؍بکرے خرید کرلائےتھے۔ آج اس طرح کےایک بکرے کی قیمت کم ازکم ۵۰؍ہزار روپے ہوگی۔ وہ آج بھی اچھا بکر ا خرید کرلاتےہیں اوراپنی موجودگی میں ہی قربانی کرواتے ہیں۔ اس کے بعد پوری بلڈنگ میں قربانی کا گوشت اپنی نگرانی میں تقسیم کرواتےہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK