Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’مرار جی دیسائی کے ہاتھوں مجھے سرٹیفکیٹ ملا تو بہت خوشی ہوئی تھی‘‘

Updated: July 06, 2025, 12:22 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

بائیکلہ کے ۷۷؍سالہ مرادعلی ابراہیم ہمدارے نے مالی کسمپرسی کی وجہ سے ایس ایس سی کے بعدتعلیم کا سلسلہ ترک کردیا، حالانکہ اُس وقت جب ان کے دادا معروف چیف جسٹس عبدالکریم چھاگلہ کے یہاں ملازمت کرتےتھے، ان کے یہاں کافی خوشحالی تھی۔

Murad Ali Ibrahim Hamdare. Photo: INN.
مرادعلی ابراہیم ہمدارے۔ تصویر: آئی این این۔

بائیکلہ مارکیٹ میں رہائش پز یر۷۷؍سالہ مرادعلی ابراہیم ہمدارے کی پیدائش ۸؍فروری ۱۹۴۹ءکو ڈونگری میں ہوئی تھی۔ محمدیہ اُردوہائی اسکول اور انجمن اسلام سے ایس ایس سی کی تعلیم پوری کی۔ دونوں ہاتھوں سے معذور والد کی مسلسل بیماری سے مالی مشکلات کا سامنا رہا، اسلئے خواش کے باوجود انہوں نے آگے کی پڑھائی نہیں کی بلکہ والد کی مالی دشواریوں کو کم کرنےکیلئے چھوٹی عمر ہی میں ملازمت کرنے کافیصلہ کیا۔ انڈین آئل کارپوریشن میں پیون کے طورپر ملازمت اختیار کی اور پھر وہیں سے سبکدوش بھی ہوئے۔ ابتدامیں ان کی تنخواہ ۲۰۰؍روپے ماہانہ تھی جبکہ آج ۷۰۰؍روپے ماہانہ بطور پنشن مل رہےہیں۔ سبکدوش ہونےکےبعد عملی مصروفیت سے دور ہیں۔ بیشتر اوقات گھر میں رہتےہیں ۔ نماز، روزہ کے پابند ہیں۔ ذیابیطس اور عارضہ قلب میں مبتلاہونے کی وجہ سے محدود زندگی گزاررہےہیں۔ مرادعلی کے دادا معروف چیف جسٹس عبدالکریم چھاگلہ کے ہاں پیون کی حیثیت سے ملازمت کرتےتھے۔ اُس وقت ان کے یہاں اچھی خوشحالی تھی۔ انہوں نے ہی ان کےدادا کو بائیکلہ مارکیٹ میں ایک گھر دلایاتھا، جس میں آج بھی ان کے گھروالے رہتے ہیں۔ 
مراد علی جس دورمیں انجمن اسلام اسکول میں زیر تعلیم تھے، ان دنوں ایک مرتبہ مرارجی دیسائی جو اُس وقت بامبے اسٹیٹ کے وزیراعلیٰ تھے، نے اسکول کا دورہ کیاتھا۔ اس موقع پر طلبہ کی حوصلہ افزائی کیلئے منعقدہ تہنیتی تقریب میں مراد علی کو ہونہار طالب علم کا سرٹیفکیٹ مرار جی دیسائی نے دیاتھا۔ وہ سرٹیفکیٹ بطور یادگار اب بھی مراد علی کےپاس محفوظ ہے۔ تقریب میں مرارجی دیسائی نے طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتےہوئے دلجمعی سے پڑھائی کرنےکی تلقین کی تھی اور کہا تھا کہ پڑھ لکھ کر کامیاب انسان بنیں ۔ وہاں پر کہی گئی ان کی بیشتر باتیں اب بھی انہیں یاد ہیں۔ 
مراد علی کو فلمیں دیکھنے کا شوق کم لیکن گیت گانے کا شوق بہت رہا ہے۔ آواز اچھی ہونے سےانہیں اسکول اور انڈین آئل کمپنی میں بھی گانا گانے کا موقع ملا تھا۔ پیون ہونےکے باوجود انہیں کمپنی کے متعدد پروگراموں میں گانے کا موقع دیاگیا۔ اپنی دلکش آواز سے انہوں نے اپنے حلقے میں اپنا ایک منفرد مقام بنالیا تھا۔ وہ آج بھی پابندی سے موبائل پر گانے سنتے اور گنگناتےہیں۔ 
مراد علی کو جس وقت۲۰۰؍روپے تنخواہ ملا کرتی تھی، وہ زمانہ کافی سستائی کا تھا لیکن والد کی بیماری اور دیگر گھریلو مسائل کی وجہ سے اُس وقت بھی اخراجات پورے نہیں ہوتےتھے۔ خاص کرتہواروں کےموقع پر پیسوں کی قلت کا شدت سے احساس ہوتا تھا، لیکن اچھا اخلاق ہونے سے بائیکلہ مارکیٹ کے علاوہ نل بازار اور بھنڈی بازار کے دکانداروں سے ان کے بہت اچھے مراسم تھے، جس کی وجہ سے سامان کی خریداری میں آسانی ہوجایاکرتی تھی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ پیسہ نہ ہونے کے باوجود دکانداروں نےانہیں ساما ن دیا۔ ایک بار تہوار کے موقع پر انہوں نےایک دکاندار سے کہاکہ مجھے بادام، پستہ، چارولی اور کاجو وغیرہ چاہئے لیکن فی الحال میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ دکاندا نے ان سے کچھ نہیں کہا اور فوراً مطلوبہ ڈرائی فروٹس کی۱۰۰۔ ۱۰۰؍ گرام کی تھیلیاں بنا کر ان کے حوالے کردیں اورکہاکہ آپ پیسے کی فکر نہ کریں۔ اس کے بعد جب بھی کوئی ضرورت پڑتی بلاجھجھک وہاں سے سامان خرید لیا کرتا تھا۔ 
کسی دورمیں فلم اداکار قادرخان بھی اسی محلہ ( بائیکلہ مارکیٹ ) کی کاس منزل میں رہاکرتےتھے، جس کی وجہ سے مرادعلی سے بھی ان کے مراسم تھے۔ وہ انہیں مراد بھائی کہہ کر مخاطب کرتےتھے۔ اکثر وبیشتر ان کی مالی مدد بھی کیاکرتےتھے۔ مرادعلی کے والد کے انتقال کےبعد، قادر خان نے ان سے کہاتھاکہ مراد بھائی گھبرائیے بالکل نہیں ، فکرکرنےکی کوئی ضرورت نہیں ہے، جب بھی کوئی ضرورت پیش آئے بلاجھجھک اپنے اس چھوٹے بھائی کو یاد کرلیا کریں ۔ قادر خان کی اس حوصلہ افزائی کو وہ اب بھی یاد کرکے جذباتی ہوجاتےہیں ۔ مرادعلی کہتے ہیں کہ ایسا دل نواز، زندہ دل اور غریب پرور انسان میں نے نہیں دیکھا۔ دوستوں کادوست اور ان کا غمگسار تھا، میں ان کے احسانات کو نہیں بھلا سکتا۔ 
کسی دور میں بائیکلہ مارکیٹ کے مکینوں کی جانب سے پیلس سنیما کےقریب یوم ِ جمہوریہ پر خصوصی تقریب کا انعقاد کیاجاتاتھا۔ اس موقع پر ایک مرتبہ یہاں کےلوگوں نے فلم اداکار یوسف خان( دلیپ کمار) کو مدعو کیاتھا۔ دلیپ کمار کی آمد کی اطلاع سے کافی لوگ جمع ہوگئے تھے۔ ان کی ایک جھلک دیکھنےکیلئے لوگ گھنٹوں پہلےجلسہ گاہ میں پہنچ گئے تھے۔ دلیپ کمار کے آنےپر ایک شور اُٹھا، جو کافی دیر جاری رہا۔ دلیپ کمار کی حب الوطنی پر کی جانےوالی تقریر سے مراد علی بہت متاثرہوئے تھے۔ اس وقت انہوں نے دلیپ کمار کو بہت قریب سے دیکھاتھا۔ 
مرادعلی ایک اندوہناک حادثے کو کبھی نہیں بھولتےہیں۔ دراصل بائیکلہ کے ایک ہمسائے کےگھر میں شادی تھی۔ ناسک سے دلہن کوبیاہ کرلوگ بس کے ذریعے ممبئی لوٹ رہےتھے، کسارا گھاٹ سے اچانک بس کھائی میں گرپڑی، جس کی وجہ سے بس میں سوار سبھی افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ یہ خبراہالیان بائیکلہ کیلئے بڑی صدمے والی تھی۔ حادثے کی اطلاع ملتےہی، محلے کے نوجوان جائے وقوع کیلئے روانہ ہوئے جن میں مرادعلی بھی شامل تھے۔ دوسرے دن کے اخباراتمیں سہواً مہلوکین کی فہرست میں مراد علی کانام بھی شائع ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے ان کے متعلقین دوردراز علاقوں سے ان کے آخری دیدار کیلئے پہنچ گئے تھے۔ انہیں گھر پر خیر وعافیت سےدیکھ کر ان کے عزیزوں کی جان میں جان آئی تھی لیکن اس روزبائیکلہ مارکیٹ کا منظر انتہائی سوگوار تھا۔ 
رانی باغ (چڑیاگھر) کے قریب اور داخلہ مفت ہونے سے مرادعلی اکثر تفریح کی غرض سے وہاں چلے جاتے تھے۔ اس دور میں وہاں بہت جانور تھے۔ صبح ۱۰؍بجے سے شام ۶؍بجے پورے چڑیاگھر میں پرانے گانوں کی ریکارڈنگ بجاکرتی تھی۔ لوگ جانوروں کو دیکھ کر لطف اندوز ہونےکےساتھ ہی پرانے گیتوں سےبھی محظوظ ہوا کرتے تھے۔ مراد علی کو پرانے گانوں کو سننے اور انہیں گنگنانےکا بڑا شوق تھا، اسلئے وہ وقت ملتےہی رانی باغ کا رخ کیا کرتے تھے اوراپنا شوق پورا کرکے گھرواپس آتے تھے۔ اس دور میں بندر اور لومڑی وغیرہ وہاں آنےوالوں کے ہاتھوں سے کھانے پینے کی اشیاء خود طلب کرتے تھے۔ 
بائیکلہ سے سی ایس ایم ٹی اور چرچ گیٹ وغیرہ بی ای ایس ٹی کی بس سے سفر کے دوران مرادعلی کی فلم اداکار جانی واکر سے اکثر بات چیت ہواکرتی تھی۔ اُس وقت جانی واکر بس کنڈکٹر تھے۔ جانی واکر سے مراد علی کی بہت اچھی جان پہچان ہوگئی تھی۔ مراد علی ٹکٹ کیلئے پیسے دیتے، جانی واکر ان سے کہتے جاکر فلاں سیٹ پر بیٹھ جا، باقی میں دیکھ لوں گا۔ قریبی تعلقات ہونےکےبعد جانی واکر نے ان سے کبھی ٹکٹ کاپیسہ نہیں لیا، ہمیشہ مراد علی کی محنت اور جدوجہد کی ستائش کی۔ 
مرادعلی کےدونوں ہاتھوں سے معذور والد بامبے ہائی کورٹ میں کلرک تھے، ایک بندھی تنخواہ میں گھر کی ذمہ داریوں کے ساتھ اپنا علاج کرواتے، ساتھ ہی بدقسمتی سے ان کی پیداہونےوالی ہراولاد، پیدائش کے کچھ ہی دنوں بعد فوت ہوجاتی تھی، جس کی وجہ سے وہ کافی مشکلوں میں گھرے رہے۔ ان کی ۸؍اولادیں پیدائش کے کچھ دنوں ہی بعد فوت ہوچکی تھیں۔ ان کی اولادوں میں صرف مرادعلی اور ان کی ایک بہن زندہ رہیں۔ ایسےمایوس کن حالات میں مراد علی کو اپنے والد سے بہت ہمدردی رہی۔ انہوں نے پوری زندگی اپنے والدسے کبھی کسی ضرورت کا اظہار نہیں کیااور نہ ہی کسی چیزکیلئے ضد کی۔ اس بات کا ان کےوالدکوبھی احسا س تھا، وہ کبھی مراد علی کو کپڑے وغیرہ دلانےکی خواہش ظاہر بھی کرتےتو مرادعلی بڑی خوبصورتی سےیہ کہہ کر ٹالنےکی کوشش کرتےکہ ابھی کپڑوں کی ضرورت نہیں ہے، جب ہوگی تو خرید لیں گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK