• Mon, 15 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’احمد عباس کے پاس نوجوان ہیرو بننے کیلئے راجیو گاندھی کا جعلی خط لے آیا‘‘

Updated: December 14, 2025, 12:34 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

جوگیشور ی کے۷۵؍سالہ ابراہیم یادگیری کی پیدائش کرناٹک میں ہوئی لیکن عمر کا بیشتر حصہ ممبئی میں گزرا، تین سال تک خواجہ احمد عباس کے یہاں ملازمت کی، مطالعہ اور لکھنے پڑھنے سے خاص شغف رہا اورآل انڈیا ریڈیو ممبئی پر ۶۰؍سے زیادہ پروگرام نشرہوئے۔

Ibrahim Miran Sahib Yadgir. Photo: INN
ابراہیم میراں صاحب یادگیری۔ تصویر: آئی این این

جوگیشوری( مشرق)، باندرہ پلاٹ کے۷۵؍سالہ ابراہیم میراں صاحب یادگیری کی پیدائش کرناٹک میں گلبرگہ ضلع کے تعلقہ الندمیں ہوئی۔ یہاں کےفرقانیہ ہائی اسکول سے میٹرک تک پڑھائی کرنےکےبعد ذریعہ معاش کی تلاش میں ۱۹۶۷ء میں ممبئی کارُخ کیا اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ ڈھائی سال کی عمرمیں پہلےوالدہ اور پھر ۸؍ سال کی عمر میں والدداغ مفارقت دے گئے۔ اس کی وجہ سے ان کا بچپن آزمائش بھر ا رہا۔ والدین کے نہ ہونے پرنانا، ماموں اور ممانیوں نے پرورش کی۔ اندھیری کول ڈونگری میں ان کی بڑی بہن رہائش پزیر تھیں۔ ان کےپاس رہتےہوئے پہلے ایک پیپر باکس کمپنی میں ملازمت کی، ۱۵؍ سال بعد مصنوعی زیورات کااپناکاروبار شروع کیا۔ پہلے باندرہ مغرب میں اسٹیشن کےباہرپھر کھیرواڑی باندرہ مشرق میں یہی کاروبارکیا۔ اسکول کےزمانے ہی سے مطالعہ کاشوق رہا۔ شعروادب سےبھی دلچسپی رہی۔ وقتاً فوقتاً ان کے کئی افسانے اور کہانیاں ممبئی کےعلاوہ دیگر شہروں کےمعروف جریدوں اور اخبارات میں شائع ہوئے۔ آل انڈیا ریڈیو ممبئی کے بزم اُردو پروگرام میں ان کے ۶۰؍سے زیادہ پروگرام نشرہوئےہیں۔ معروف ادیب وصحافی اور فلمسازخواجہ احمد عباس کے ساتھ بھی۳؍سال کام کیا۔ 
ابراہیم یادگیری جن دنوں خواجہ احمد عباس کےہاں ملازمت کررہے تھے، ایک نوجوان ہیرو بننے کیلئے وزیر اعظم راجیوگاندھی کاسفارشی خط لے کرآیاتھا، جس میں نوجوان کو فلم میں کام دلانےکی سفارش کی گئی تھی۔ وہ خط راجیوگاندھی کے لیڈرہیڈ پر ہندی میں ٹائپ تھا جس پر راجیو گاندھی کے دستخط بھی تھے۔ خط پڑھنےکےبعد عباس صاحب نے نوجوان سے کہاکہ فی الحال میں توکوئی فلم نہیں بنارہاہوں لیکن اپنے ایک دوست کی فلم میں تمہیں کام دلانےکی کوشش کروں گا۔ نوجوان کا نام اورپتہ لکھ کر، اس سے کچھ دنوں بعد آنےکیلئے کہا۔ اس کے جانےکےبعد انہوں نے مذکورہ خط کو دوبارہ غور سےپڑھا، انہیں کچھ شبہ ہوا۔ شبہ کی تصدیق کیلئے انہوں نےفوراً راجیوگاندھی کو نوجوان کے سفارشی خط کی فوٹو اسٹیٹ کاپی کے ساتھ ایک خط روانہ کیا۔ ایک ہفتے بعد وزیر اعظم کا جواب آیاکہ وہ خط فرضی ہے۔ اس کے فوراً بعد دہلی سےسی بی آئی آفیسر اوپی شرما اور ان کی ٹیم نے ممبئی میں خواجہ احمد عباس سے ملاقات کی۔ ان افسران نےان سے پوری معلومات حاصل کرکے اس نوجوان کی تلاش شروع کی اور پھر اسے اس کے آبائی وطن آکولہ سےگرفتارکیا۔ 
ان کےبچپن میں الندگائوں میں بجلی نہیں تھی۔ مٹی کےتیل کاچراغ بناکرگھروں میں روشنی کی جاتی تھی۔ اس چراغ کوچُمنی کہتےتھے۔ شام ہوتےہی گائوں کے ہرگھرمیں چُمنی روشن ہوجا تی تھی اور پھراسی کی مدھم روشنی میں گھر کے سارے کام انجام دیئے جاتے تھے۔ چُمنی کو گھر کے چھوٹے سےمحراب میں رکھ دیاجاتا تھا۔ چراغ سے نکلنےوالے سیاہ دھوئیں سے محراب کالا پڑجاتا تھا۔ رات میں سونے سے قبل چراغ بجھا دیا جاتا تھا کیونکہ اس کا دھواں گلے میں جانے سے سانس لینےمیں تکلیف ہوتی تھی۔ برسوں چراغ کی روشنی میں زندگی گزارنےکےبعد بالآخر ایک دن گائوں میں بجلی آگئی۔ بجلی آنےپر پورا گائوں خوشی سے جھوم اُٹھاتھا۔ بجلی کےآنے سے رات کی تاریکی روشنی میں تبدیل ہوگئی تھی۔ بجلی کی آمد کے ساتھ چُمنی کادور بھی جاتارہا۔ 
ابراہیم یادگیری کےبچپن میں موسم باراں میں بارش بہت ہوتی تھی۔ متواترہونےوالی بارش سے الندگائوں کی نالانماگہری ندی بھر جاتی تھی۔ گائوں میں پانی کی قلت ہونے سے خواتین کپڑے دھونے کیلئے نالے پر جایا کرتی تھیں، اسی طرح گائوں کے نوجوان اور بچے وہاں نہانے جایا کرتے تھے، بالخصوص جمعہ کے دن وہاں کافی بھیڑ ہوتی تھی۔ جن بچوں کو تیرنا نہیں آتا تھا وہ اسی نالےمیں تیراکی بھی سیکھ لیتے تھے۔ ایک دن ابراہیم یادگیری بھی تیراکی سیکھنے گئے تھے۔ تیراکی سیکھنے کی کوشش میں وہ اچانک گہرے پانی میں چلے گئے۔ ۳؍ڈبکیاں کھائیں، بعد ازیں پورا جسم پانی میں ڈوب گیا، دایاں ہاتھ پانی کے اُوپری حصے میں لہرا رہا تھا، یہ منظر دیکھ کر ایک شخص نے نالےمیں چھلانگ لگاکر ان کی جان بچائی تھی۔ اگر اس فرشتہ صفت انسان نے بروقت مدد نہ پہنچائی ہوتی تو ان کی موت یقینی تھی۔ اس واقعہ کے چند دنوں قبل اسی نالےمیں ایک ہم عمر لڑکے کی ڈوبنے سے موت ہوئی تھی۔ 
ابراہیم یادگیری الند میں ہم عمر بچوں کےساتھ کھیلنےکا ایک واقعہ نہیں بھولتے ہیں۔ اس دور میں کبڈی، گلی ڈنڈا اور آم کی گٹھلیوں کو مٹی میں سلسلہ وار گاڑکرکچھ فاصلہ سے پتھر مارکر انہیں گرانےکا کھیل بھی بچوں میں مقبول تھا۔ ایک دن کی بات ہے، ان گٹھلیوں کو گرانےکیلئے زور سے پھینکاگیا ایک پتھر، وہاں سے گزرنےوالےایک بزرگ کے پیر میں جاکر لگ گیا۔ ان کے پیر سے خون بہنے لگا۔ سبھی ساتھیوں نے جاکر پہلے ان سے معافی طلب کی، انہیں اسپتال پہنچایا اور ان کا علاج کرایا۔ اس دن سے گٹھلیوں کو پتھر مارنےوالا کھیل ان لوگو ں نے کھیلنا کم کردیا۔ اگر کھیلتے بھی تو راستے کےبجائے میدان کےسنسان حلقےمیں کھیلتے تھے۔ 
تقریباً ۲۵؍سال پہلے کی بات ہے۔ ابراہیم یادگیری کسی کام سے جوگیشوری ایسٹ سے ویسٹ میں ریلوے پھاٹک پارکرکے جارہے تھے۔ اس دورمیں جوگیشوری کا ریلو ے پھاٹک کھلا رہتاتھا۔ وہ بے خیالی میں پٹری پارکرنےوالے تھے کہ اچانک بوریولی سے چرچ گیٹ جانے والی فاسٹ ٹرین آگئی۔ وہاں پر موجود لوگوں نے ایک ساتھ آوازلگائی، لمحوں کافرق تھا، ورنہ اس دن ابراہیم یادگیری یقینی طورپر حادثے کا شکار ہوجاتے۔ ٹرین کےگزر جانےکےبعد وہ کافی دیر تک حواس باختہ رہے۔ 
ابراہیم یادگیری کی نوعمری کا زمانہ تھا۔ گاؤں میں بجلی نہ ہونے سے گیس کی روشنی میں شادیاں ہوتی تھیں۔ گیس کی روشنی میں لڑکے کےگھر سے لڑکی کےگھر بارات جاتی تھی۔ بریانی اور زردہ سے باراتیوں کی تواضع کی جاتی تھی۔ شادی کی رسم ۴؍ دنوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ پہلے دن ہلدی مہندی، دوسرے دن پلنگ کی رسم ادا کی جاتی تھی۔ پلنگ پر جہیز سجاکر لڑکی والے، لڑکےوالوں کے گھر جاتے تھے۔ لڑکے والوں کی جانب سے ان کی ضیافت کا انتظام کیاجاتا تھا۔ تیسرے روز باقاعدہ نکاح کی رسم اداکی جاتی اور چوتھے د ن ولیمہ کی روایت تھی۔ 
ابراہیم یادگیری کویاد نہیں ہے کہ وہ کونسادور تھا لیکن فرقہ وارانہ فساد کی وجہ سے جوگیشوری میں کرفیولگاہواتھا۔ وہ کسی کام سے باندرہ سے لوٹ کر رات میں تقریباً ۸؍بجے جوگیشوری اسٹیشن پہنچنے تھے۔ اسٹیشن کے باہر آٹو رکشا یا کوئی اور سواری نہیں تھی۔ اسٹیشن سے گھر پیدل آرہےتھے۔ کرفیولگنےمیں چندمنٹ باقی تھے۔ ویسٹرن ہائی وےتیزی سے پار کرنےکی کوشش میں نامعلوم کیسے ایک ٹیمپو ان کے دائیں پیر سے گزر گیا۔ وہیں پر اُن کے قریب ان کا بھانجہ کھڑا تھا۔ اس نے فوراً انہیں سڑک کے کنارے کیا، اس دوران ٹیمپو والا فرار ہوگیا۔ بھانجے نے کسی طرح انہیں کوپر اسپتال پہنچایا، جہاں ایک مہینے تک علاج جاری رہا۔ اب بھی ان کے دائیں پیر کی ہڈی میں گہری چوٹ کا نشان موجود ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK