بائیکلہ کے عبدالمنان خان کی پیدائش ۱۹۳۰ء میں لکھنؤ میں ہوئی تھی، ۱۹۶۰ء میں ممبئی آئے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے، ۹۵؍ سال کی عمر میں بھی پوری طرح سے فٹ ہیں اور پابند ی سے مسجد جاکر تہجد کی نماز پڑھتے ہیں اورپھر فجر کے بعد تلاوت کرکے گھر لوٹتےہیں۔
EPAPER
Updated: June 22, 2025, 12:46 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
بائیکلہ کے عبدالمنان خان کی پیدائش ۱۹۳۰ء میں لکھنؤ میں ہوئی تھی، ۱۹۶۰ء میں ممبئی آئے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے، ۹۵؍ سال کی عمر میں بھی پوری طرح سے فٹ ہیں اور پابند ی سے مسجد جاکر تہجد کی نماز پڑھتے ہیں اورپھر فجر کے بعد تلاوت کرکے گھر لوٹتےہیں۔
بائیکلہ کے ۹۵؍ سالہ عبدالمنان خان کی پیدائش ۱۹۳۰ء میں لکھنؤ کے معروف علاقے حضرت گنج میں ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم اسلامیہ کالج لکھنو ٔسے حاصل کی۔ پڑھائی میں دل نہ لگنے سے، والدین نے بڑھئی کا کام سیکھنےکیلئے ایک دکان پر لگایا۔ وہاں سے کام سیکھ کر پہلے لکھنؤ پھر کانپور اور دہلی میں چند برسو ں تک کام کیا۔ ۱۹۶۰ءمیں ممبئی آئے اور پھر یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ کم وبیش ۶۰؍سال تک محنت کی، ۲۰۰۸ء میں کام کرنابند کیا۔ اس کےبعد سے نماز، روزہ، تلاوت اور گھریلو کام کاج میں ہاتھ بٹانا ان کی مصروفیت رہی۔ اس عمر میں بھی پوری طرح سے فٹ ہیں اور پابند ی سےعلی الصباح مقامی مسجد جاکر پہلے تہجدپھر فجر کی نماز ادا کرتے ہیں، بعدازیں نوافل اور تلاوت وغیرہ کےبعد گھر لوٹتےہیں۔
عبدالمنان خان کی ایک اور خاص بات ہے۔ تقریباً۵۰؍ سال تک، سال بھرکثرت سے نوافل روزے رکھنا ان کا معمول رہا ہے۔ ان میں ۳؍مہینے رجب، شعبان اور رمضان کےعلاوہ شوال کے نفلی، یوم عرفہ اور عاشورہ کے روزے بھی شامل ہیں۔ ڈیرھ سال قبل پریل پر واقع بائولہ مسجد میں جمعہ کی نماز کےوقت اچانک وضوخانے کےقریب گر گئے تھے جس کی وجہ سے دونوں کولہوں کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ اس کے بعد آپریشن ہوا تھا۔ اس کی وجہ سے شدید کمزوری کا احساس ہونے لگا ہے جس کے بعد اب روزہ نہیں رکھ پاتے ہیں۔
انہیں بچپن میں پتنگ لڑانے کا بہت شوق تھا۔ یہ شوق جنون کی حد تک ہوگیا تھا۔ صورتحال یہ تھی کہ پتنگ بازی کیلئے ہندوستان کے متعدد شہروں مثلاً دہلی، کانپور، الہ آباد، کولکاتا، مراد آباد، جے پور، بیکانیراوربریلی وغیرہ کا دورہ کیا۔ قومی سطح کے متعدد پتنگ بازی مقابلوں میں حصہ لے چکےہیں۔ ممبئی کےمعروف رئیس کائٹ کلب سے بھی ان کی وابستگی رہی۔ پتنگ لڑانےمیں امتیازی کامیابی حاصل کرنےپر ایک مرتبہ اُترپردیش کےگورنر کےہاتھوں انہیں اعزاز سے بھی نوازا گیا۔
پتنگ کے شوق کی وجہ سے فلم اداکار دلیپ کمار سےبھی ان کے قریبی مراسم رہے۔ جس دور میں عبدالمنان اور ان کےگروپ کے رئیس، دلیپ اورعباس بھائی پتنگ لڑانےکی مشق کرنے وکھرولی، گودریج کمپنی کے قریب واقع کھاڑی والے علاقے میں جاتے تھے، وہاں اکثر دلیپ کماربھی پتنگ بازی دیکھنےکیلئے آتے تھے۔ ان کےآنے سے بھیڑ بڑھ جاتی تھی۔ ایسے میں بھیڑ پر قابوپانےمیں ہونےوالی دشواری اور لڑائی جھگڑا ہونے کے خوف سے عبدالمنان اور ان کےساتھیوں نے دلیپ کمار سے یہاں نہ آنے کی درخواست کی تھی۔ اس کےبعد دلیپ کمار نے وہاں آنا کم کردیا تھا لیکن دلیپ کمار سے اس گروپ کی اچھی دوستی ہوگئی تھی۔ پھر ایسا ہوا کہعبدالمنان اور ان کے ساتھیوں کو دلیپ کمار اپنی رہائش گاہ پر پتنگ لڑانےکیلئے بلانے لگے۔ متعدد مرتبہ ان کے گھر پر جاکر عبدالمنان اور ان کے ساتھی پتنگ لڑاچکےہیں۔ پتنگ لڑانے کے بعد دلیپ کمار اور ان کے بھائی ناصر خان اور اہلیہ سائرہ بانو سب مل کر ناشتہ پانی کیاکرتےتھے۔ ایک مرتبہ دلیپ کمار کی دلجوئی کیلئے عبدالمنان اوران کے ساتھیوں نے سادہ مانجھے سے پتنگ اُڑائی اور انہیں ( دلیپ کمارکو) دھاردار مانجھے والی پتنگ اُڑانےکودی، جس کی وجہ سے بڑی آسانی سے انہوں نے عبدالمنان کے گروپ کی پتنگ کاٹ دی، جس پر دلیپ کما ر کی خوب واہ واہی کی گئی تھی۔
عبدالمنان نے برٹش کادور بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ انگریزوں کا دور بھلے ہی غلامی کا دورتھا لیکن کئی معنوں میں آج کے حالات سے بہتر تھا۔ ان دنوں معمولی لڑائی جھگڑا کرنےوالوں کوبھی سزا ملتی تھی۔ جس کے ساتھ زیادتی ہوتی تھی، اسے انصاف ملتاتھا۔ اگرکوئی کسی کو ماردیتا تو قصور وار کو اس کی کئے کی سزا ضرور ملتی تھی۔ آج کی طرح رشوت کا بازار گرم نہیں تھا۔ لوگوں میں بڑی حد تک اطمینان تھا۔
اُس دورمیں جنوبی ممبئی کے جے جے جنکشن اور بھنڈی بازار کے علاقوں میں پسماندہ اور متوسط طبقے کے افراد کے کھانے کیلئے ۳؍ اہم اور معروف ہوٹلیں تھیں ۔ ان ہوٹلوں میں یوپی طرز کے کھانے ملتے تھے۔ یہاں کے پکوان لذیذ ہونےکےساتھ سستے بھی تھے۔ جے جے جنکشن کے قریب واقع عالم گیر، اس کے قریب حاجی اور گھوگھاری محلہ کارفیق ہوٹل کافی مشہور تھے۔ ان ہوٹلوں میں آنوں میں شکم سیر ہوکر لوگ کھانا کھاتے تھے۔ ان ہوٹلوں کی مقبولیت کااندازہ اس سےبھی لگایاجاسکتاہےکہ لوگ کھانے کیلئےہوٹل کےباہر قطار لگاکراپنی باری کا انتظار کرتےتھے۔ عبدالمنان بھی متعدد مرتبہ ان ہوٹلوں پر قطار لگا چکےہیں۔ چاراورپانچ آنےمیں لوگ اپنی پسند کا کھانا پیٹ بھر کر کھاتے تھے۔ اگر کسی روز کھانےکےساتھ شاہی ٹکڑا نوش فرمالیاتو ۷؍ آنے بل ہوتاتھا۔
عبدالمنان کی شادی ۱۹۶۰ءمیں ہوئی تھی۔ ان کی بارات گھوڑے پر گئی تھی۔ باجے گاجے کےساتھ کئی محلوں سے ہوتےہوئے، لڑکی کے گھر پہنچنے پربارات کاانتہائی گرمجوشی سے استقبال کیاگیاتھا۔ نکاح کے بعد کھانے پینے کامعقول انتظام تھا۔ اُس وقت باراتیوں کا نہایت شاہانہ انداز ہوتا تھا۔ کھانےمیں نان، سالن، پلائواو ر زردہ پیش کیاگیاتھا۔
عبدالمنان نے اپنے بچپن میں لکھنؤ یونیورسٹی کے طلبہ اور حکومت کے درمیان ہونےوالے فسا د کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اس دور میں پولیس گھوڑے پر سوار ہوکرآتی تھی۔ کسی معاملے پر ہونےوالے احتجاج کی وجہ سے شروع ہونےوالے فساد نے سنگین صورت اختیارکرلی تھی۔ طلبہ کی جانب سے پولیس پر پتھرائو کیاجارہاتھا جبکہ پولیس والے گھوڑے پر سوار ہوکر، طلبہ کاتعاقب کرتے تھے اور انہیں وہاں سے بھگاتے تھے۔ عبدالمنان نے اپنی کوٹھی سے ان مناظر کو دیکھاتھا۔ پولیس کے حملے سے کئی طلبہ زخمی ہوکر سڑک پر گرگئےتھے۔
عبدالمنان کو بچپن میں فلم دیکھنے کا بھی شوق تھا۔ پڑھائی میں دلچسپی نہ ہونےکی وجہ سے فلم دیکھنےکیلئے ان کے پاس پورا وقت تھا۔ والدین کے لاڈلے ہونے سے فلم کا ٹکٹ خریدنےکیلئے پیسوں کابھی انتظام آسانی سے ہو جاتا تھا، ساتھ ہی اس دور میں حضرت گنج کی ایک سائیکل کےدکان پر جزوقتی کام بھی کرلیاکرتے تھے، وہاں سے بھی کچھ پیسے مل جاتے تھے۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا تھا کہ وہ ایک دن میں ۴؍شوفلم دیکھ لیتے تھے۔ ایک سنیما گھر سے دوسرے سنیما گھر اور پھر تیسرے اورچوتھے کا بھی چکر لگا لیتے تھے۔ اس کیلئے انہیں رکشا کرنا پڑتا تھا۔
عبدالمنان جس وقت یومیہ ۳؍روپے پر مدنپورہ میں مزدوری کیا کرتے تھے، اُس وقت وہاں ہر گلی کے الگ الگ بدمعاش ہوا کرتے تھے۔ ان کے درمیان اکثر لڑائی جھگڑے بھی ہوتے تھے۔ سانکلی اسٹریٹ میں دن دہاڑے ایک بدمعاش نے دوسرے کو دھار دار ہتھیار سے موت کی نیند سلا دیا تھا۔ اپنی آنکھوں سے قتل کایہ منظر دیکھ کر عبدالمنان حواس باختہ ہوگئے تھے۔ ان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر وہ فوراً وہاں سے بھاگ کر اپنے کارخانے چلے گئے۔ اس دور میں گلی کے بدمعاشوں کے درمیان ہونےوالی لڑائیوں میں سوڈا کی بوتل کادھڑلے سے استعما ل ہوتا تھا۔ اس کی زد میں اکثر عام لوگ بھی آجایا کرتے تھے۔
عبدالمنان کے والد، لکھنؤ کے قریب واقع بارہ بنکی ضلع کے راجہ کے ہاں ملازم تھے۔ راجہ کی ملازمت کرنے سے ان کےوالدکابھی علاقے میں بہت اثر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ وزیر اعظم اندرا گاندھی حضرت گنج کے ایک جلسے میں شرکت کیلئے آئیں تو اُس وقت وہاں پر عبدالمنان کے والد بھی موجود تھے۔ اُس وقت والد صاحب نے عبدالمنان کی اندرا گاندھی سے ملاقات کرائی تھی۔ عبدالمنان نے ان سے مصافحہ کیاتھا۔ اسی طرح ایک بار گجرات میں پتنگ لڑانےکے مقابلے میں سابق وزیر اعظم مرار جی دیسائی سے بھی ان کی ملاقات ہوئی تھی۔