نائیگاؤں، دادر کے محمد انورپاپامیاں مومن قانون کی تعلیم حاصل کررہے تھے کہ اسی دوران سینٹرل لائبریری فورٹ میں ملازمت مل گئی، اسلئے تعلیم ادھوری رہ گئی، بعد ازاں کئی جگہ ملازمت کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک کی ملازمت سے رضاکارانہ طور پر سبکدوش لی۔
EPAPER
Updated: August 24, 2025, 12:06 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
نائیگاؤں، دادر کے محمد انورپاپامیاں مومن قانون کی تعلیم حاصل کررہے تھے کہ اسی دوران سینٹرل لائبریری فورٹ میں ملازمت مل گئی، اسلئے تعلیم ادھوری رہ گئی، بعد ازاں کئی جگہ ملازمت کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک کی ملازمت سے رضاکارانہ طور پر سبکدوش لی۔
دادر، نائیگائوں کراس روڈ کے محمد انورپاپامیاں مومن، ۱۶؍اکتوبر ۱۹۵۰ء کوپارسی واڑی ( ٹھاکر واڑی ) کی ساجن بلڈنگ میں پیدا ہوئے تھے۔ داداصاحب پھالکے روڈ، دادر میں واقع اُردو میونسپل اسکول سے ساتویں جماعت تک پڑھائی کرنےکےبعد کرلا کےانجمن اسلام سے میٹرک پاس کیا، بعدازیں جوگیشوری کے اسماعیل یوسف کالج سے بی اے کیا، آگے کی پڑھائی کیلئےروپاریل لاءکالج ماٹونگا میں داخلہ لیالیکن اس دوران سینٹرل لائبریری فورٹ کے اُردومحکمہ میں لائبریرین کی حیثیت سے ملازمت مل گئی۔ یہاں ۲۲۰؍روپے ماہانہ تنخواہ تھی۔ ۴۔ ۶؍ مہینے کےبعدفوڈ کارپوریشن آف انڈی( ایف آئی سی )میں ملازمت نکلی تھی۔ یہاں کلرک کی تنخواہ ۲۷۰؍روپے ماہانہ تھی۔ یہاں قسمت آزمائی کی، انٹرویومیں کامیاب ہونےپر ایف سی آئی، پی ڈی میلوروڈ میں اسسٹنٹ کلرک کے طورپر ان کا انتخاب ہوا، مگریہاں کی بدعنوانی سے بدظن ہوکر۶؍مہینے میں ہی یہ ملازمت چھوڑدی۔ اسی دوران اسٹیٹ بینک آف انڈیامیں کلرک اور کیشیئر وغیرہ کی آسامیاں نکلی تھیں۔ انہوں نے کلرک کیلئے درخواست دی تھی لیکن ان کی تقرری بحیثیت کیشیئرہوئی۔ اس دور میں کیشیئرکی ملازمت کیلئے بینک انتظامیہ کو بطور ڈپازٹ ۵؍ سے ۱۰؍ہزارروپے جمع کرانا ہوتاتھا، جو اُن کے پاس نہیں تھا۔ اس رقم کے نہ ہونے سے، تقرری کےباوجود انہوں نے معذرت طلب کرلی تھی، چونکہ ان کی پیدائش اور پرورش مراٹھی ماحول میں ہوئی تھی، اس وجہ سے وہ مراٹھی بہت اچھی بول لیتےہیں۔ کچھ دنوں بعد اسٹیٹ بینک میں ہی مراٹھی بول لینے کی بنیاد پر بطور اسسٹنٹ کلرک انہیں ملازمت دی گئی۔ جہاں ۱۹۷۲ء سے ۲۰۰۱ ء تک ملازمت کی۔ ملازمت سے رضاکارانہ طورپرسبکدوش ہونےکےبعدگزشتہ ۲۵؍ سال سے ملّی، سماجی اور تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا سلسلہ جاری ہے۔ وہ دادا صاحب پھالکے روڈپر واقع حاجی محمد جان لطیف مسجد کے ذمہ دارکی حیثیت سے اپنی خدمات نبھارہےہیں ، ساتھ ہی دکنی مومن جماعت کے ذریعے تعلیمی سرگرمیاں انجام دے رہےہیں ۔
اسٹیٹ بینک آف انڈیا سے انور مومن کا رشتہ تقریباً ۳۰؍برسوں کا رہا۔ اس دوران ۱۹۷۴ءمیں ایک روز وہ سی ایس ایم ٹی پر واقع ڈائریکٹر آف میڈیکل ایجوکیشن کے دفتر، میڈیکل میں داخلہ سے متعلق معلومات حاصل کرنے گئے تھے۔ وہاں کے آفیسر نے گفتگوکےدوران انور مومن سے پوچھا کہ آپ کہاں ملازمت کرتےہیں ۔ اس کے جواب میں انہوں نے بتایاکہ میں اسٹیٹ بینک میں کام کرتاہوں۔ یہ سن کرمذکورہ آفیسر نے کہاکہ ہمیں مرکزی حکومت سے ایک طبی اسکیم کے تحت ۴؍کروڑ روپے ملے ہیں ، جو ہمیں بینک میں ڈپازٹ کرانی ہے، اسٹیٹ بینک میں یہ رقم ڈپازٹ ہوسکتی ہے ؟ انور مومن نے فوراً اپنے اعلیٰ آفیسر سے فون پر بات کی، آفیسرنے بینک سے ایک نمائندے کو ڈائریکٹر آف میڈیکل ایجوکیشن کے دفتر روانہ کیا۔ اسی وقت ضروری کارروائی مکمل کی گئی۔ اس پوری کارروائی کی تکمیل پر انور مومن کو اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی جانب سے توسیفی مکتوب سے نوازاگیا۔ علاوہ ازیں اسٹیٹ بینک آف انڈیاکی قومی میگزین میں ان کی رپورٹ مع تصویر شائع کی گئی۔
انورمومن کا بچپن سے بزرگی تک کا دوردادر، نائیگائوں کراس روڈ میں گزراہے۔ ان کےبچپن میں یہاں ہندو مسلمان بہت مل جل کر رہا کرتےتھے۔ ایک دوسرے کے خوشی اور غم میں برابر کے شریک ہوتے تھے۔ یومِ آزادی اور یوم ِجمہوریہ کےموقع پر یہاں کے معروف ڈیکوریٹر بابو رائوسروے اپنے خرچ پر ایک ٹرک سجاکر، محلے کے سبھی ہندو مسلم بچوں کو گیٹ آف انڈیا کی سیر کرانے لے جاتےتھے۔ دیوالی اور عیدپر ایک دوسرےکو مبارکباد پیش کرتےتھے۔ ٹھاکر واڑی جہاں انور مومن رہتے ہیں ، یہاں تقریباً ڈیرھ سو خاندان آباد ہیں، جن میں صرف ۵؍گھر مسلمانوں کے تھے۔ انور میاں عیدوالے دن بیشتر گھروں میں شیر خورمہ اور دیوالی کے موقع پر برادران وطن انہیں مٹھائیوں کا تحفہ پیش کرتے تھے۔ انور مومن کی نوعمری تک عیدالضحیٰ کے موقع پرٹھاکر واڑی میں مسلمان بکروں کی قربانی کرتےتھے، برادران ِ وطن قربانی کے موقع پر خود کھڑے رہتے تھے، ساتھ ہی جن سے انور میاں کے قریبی مراسم تھے، وہ قربانی کاکچاگوشت نہیں لیتے تھے بلکہ یہ کہتے تھےکہ گوشت پکاکر ہمیں کھلائو، کیونکہ تمہارے گھر میں پکے ہوئے گوشت کی لذت اورخوشبو بہت پیاری اوراچھی لگتی ہے، چنانچہ عید قرباں پر انور میاں کےگھر پر گوشت کا سالن پکاکر برادران وطن کےگھروں پر بھیجاجاتاتھالیکن ۱۹۹۲ء کے فساد کےبعد حالات بدل گئے۔ اب ٹھاکر واڑی میں قربانی ہوتی ہے نہ گوشت کاسالن برادران وطن کے گھروں پرجاتاہے۔
۱۹۹۲ءمیں بابری مسجد کی شہادت کےبعد پھوٹ پڑنےوالے فرقہ وارانہ فسادات میں بھی نائیگائوں کے برادران وطن نے مسلم بھائیوں کابہت ساتھ دیاتھا۔ داداصاحب پھالکے روڈ پر واقع حاجی محمد جان لطیف مسجد اور اطراف کی مسلم آبادی کاتحفظ یہاں کے ہندوئوں نے اپنی جان پر کھیل کر کیا تھا۔ ناگیش کامبلے نامی ایک نوجوان نے باہر سے آنےوالے شرپسندوں کے ہجوم کو بڑی بہادری سے روکاتھا۔ اس دوران انور مومن نے اپنے گھروالوں کوٹھاکر واڑی سےاپنے چھوٹے بھائی کے گھر دادا صاحب پھالکےروڈپر، جہاں مسلمانوں کی بستی ہے، وہاں منتقل کردیاتھا، اور خود ٹھاکر واڑی میں اپنے ماموبھائی زاد بھائی کے ساتھ رہتے تھے، لیکن ان کے ہمسایہ ناگیش دیسائی کے مشورے پر کچھ دنوں کیلئے وہ بھی یہاں سے بھائی کے گھرچلے گئے تھے۔ حالانکہ ناگیش دیسائی نے کہاتھا کہ انور اگرمیرے گھر رہناچاہوتو رہ سکتےہو، میں فرش پر سو جائوں گاتم مسہری پر سوجانا، لیکن انور میاں نے ناگیش دیسائی کےگھر کے بجائے چھوٹے بھائی کےگھر جانا ہی مناسب سمجھا۔ بھائی کے گھر جانے سے قبل اپنے گھرکی خواتین کے سارےزیورات ناگیش دیسائی کے پاس رکھ کر گئے تھے۔ حالات کےمعمول پر آجانے کےبعد جب وہ اپنے گھر لوٹے تو ناگیش دیسائی نے سارے زیورات انور مومن کو لوٹائے، اس دوران ان کے ہمسایوں نے ان کے گھرکی پوری رکھوالی کی تھی۔
داداصاحب پھالکے روڈ کےاطراف میں روپ تارا، رنجیت اور شری ساونت نامی ۳؍فلم اسٹوڈیو تھےجہاں شوٹنگ ہواکرتی تھی۔ وہاں انور مومن نے شوٹنگ دیکھی تھی، لیکن فلم اورشوٹنگ کا تجربہ مختلف ہوتا ہے، ایک منظرکی شوٹنگ میں گھنٹو ں نکل جاتے تھے، جس سے انہیں بوریت ہوتی تھی۔ ٹھاکر واڑی سے متصل دستور واڑی میں کسی دور میں فلم اداکارہ للتا پوار رہاکرتی تھیں۔ انور اور ان کے دوست دستور واڑی میں کھیلنے جاتے، ان کے شور وغل سے پریشان ہوکر للتاپوار انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر بھگاتی تھیں ۔
انورمومن ایک مرتبہ اسکول پکنک پر تانسا جھیل گئے تھے، جھیل کے سیر کےبعد واپسی میں شٹل ٹرین سے لوٹتے وقت کچھ ساتھی ٹرین میں سوار نہیں ہوسکے۔ ٹرین چل پڑی ایسے میں انور مومن کے علاوہ دیگر طلبہ نے بھی ٹرین کی زنجیر کھینچنے کی کوشش کی لیکن سب ناکام رہے۔ ان لوگوں کےساتھ سلمیٰ نامی ایک تندرست طالبہ بھی تھی، اس نے پوری طاقت سے چین کھینچی، تب جاکر گاڑی رکی۔
تقریباً ۲۰؍سال قبل اپنی اہلیہ کےہمراہ انور مومن حج پر گئے تھے۔ دوران حج عرفات جاتےوقت، عازمین کے ہجوم میں ان کی اہلیہ اچانک غائب ہوگئی تھیں، تین سے ساڑھے ۳؍گھنٹے تک انور مومن انہیں بھیڑ میں تلاش کرتے رہے، ، بعدازیں بھیڑ میں اچانک انہیں ایک ترنگےکےرنگ والی چھتری دکھائی دی، وہاں قریب جاکر انہوں نے اس حاجی سے دریافت کیاکہ، یہاں ہندوستانی حاجیوں کا خیمہ کہاں ہے؟ ان کی رہنمائی پر وہاں گئے تو ان کی اہلیہ وہاں موجود تھیں۔ انہیں سہی سلامت دیکھ کر ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے تھے۔