Inquilab Logo

اُن دنوں چاول کی بڑی قلت تھی،اسلئےایک کلوچاول کیلئےمدنپورہ سےٹرامبےاوروسئی تک طویل سفرکرنا پڑتا تھا

Updated: February 11, 2024, 1:41 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

ممبرا میں مقیم ،مدنپورہ ،گھیلابائی اسٹریٹ کی۹۰؍سالہ حفیظہ عبدالواحد انصاری زیادہ تعلیم حاصل نہیں کرپائیں، بھائی بہنوں میں بڑی ہونے کی وجہ سے دیکھ بھال کی ذمہ داری انہیں پر تھی جو انہوں نے بخوبی نبھائی، اِس عمر میں بھی پوری طرح سے فعال ہیں اور اپنا کام خود کرتی ہیں۔

Hafiza Abdulwahid Ansari. Photo: INN
حفیظہ عبدالواحد انصاری۔ تصویر : آئی این این

ممبرامیں مقیم، مدنپورہ، گھیلابائی اسٹریٹ کی ۹۰؍سالہ حفیظہ عبدالواحد انصاری کے بارےمیں مدنپورہ کی رضوانہ انصاری کے ذریعے پتہ چلاکہ وہ اس عمر میں بھی پابندی سے انقلاب کا مطالعہ کرتی ہیں۔ دوران گفتگو گوشہ ٔ بزرگاں کالم سے متعلق تبادلہ خیال ہونےپر موصوفہ نےانہیں اس کالم میں شائع کرنےکی درخواست کی۔ اس طرح حفیظہ بی تک پہنچنے کی سبیل پیداہوئی۔ بعدازیں حفیظہ بی کےبڑے فرزند محمد ایوب انصاری سےموبائل فون پر ملاقات کا وقت طےپایا۔ ان کی رہائش گاہ پہنچنے پر، کمرے کے ایک مخصو ص حصے میں قدیم طرز کی آرام دہ کرسی پر سن رسیدہ خاتون کو دیکھ کر حفیظہ بی کے ہونے کا گمان گزارا۔ ان کے سامنے ۲؍ خواتین، جن میں ایک خاتون کو ۲؍تیلیوں کی مدد سےاُونی پوشاک بنتے دیکھ کر یکلخت قدیم دور یا د آگیاجب لڑکیاں اور خواتین گھروں میں اُونی کپڑے، سوئٹر، غلاف اورمفلر وغیرہ تیلیوں کی مدد سے بنتی تھیں۔ اب تو دیہی علاقوں میں بھی خواتین یہ کام نہیں کرتی ہیں۔ ایسےمیں ممبئی جیسے ترقی یافتہ شہر میں کسی خاتون کو رات کے ۱۰؍بجےتیلیوں سے بنائی کرتےدیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ سلام ودعا کےبعد حفیظہ بی سے ایک گھنٹہ ۱۳؍ منٹ ہونےوالی بات چیت بڑی دلچسپ اور بامعنی رہی۔ 
 آج سے ۹۰؍ سال قبل حفیظہ بی کی پیدائش ہنس روڈ بائیکلہ میں ہوئی تھی۔ گھر کےقریب واقع باپورائوجگتاپ مارگ میونسپل اُردو اسکول سے انہوں نے دوسری جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ بچوں میں بڑی ہونے سے نانی نے ان کےبھائی بہنوں کی پیدائش کےبعد ان کی دیکھ بھال کیلئے حفیظہ بی کی پڑھائی چھڑوا دی۔ صرف دوسری جماعت تک پڑھائی کرنے کے باوجود وہ حساب کتاب میں بڑی ماہر ہیں اور انقلاب کا مطالعہ تو ۱۹۵۵ء سے کررہی ہیں۔ ابھی بھی انقلاب ان کا محبوب اخبار ہے۔ عمر کے اس مرحلے پر پہنچنے کےباوجود پوری طرح سے فعال ہیں۔ اپنے بیشتر کام خود کرتی ہیں اور یادداشت بھی بہت اچھی ہے۔ شروع سے نڈر اور بے خوف رہی ہیں، جس کی وجہ سے مایوسی ان کے قریب نہیں پھٹکتی۔ اپنےبچوں کو اپنی مثال دے کر حوصلہ دیتی ہیں۔ ضداور اپنی بات پر قائم رہنےکی عادت اب بھی نہیں بدلی ہے۔ وقت ضرورت غصہ بھی کرتی ہیں جو اُن کی پرانی عادت میں شمار ہوتا ہے۔ مذکورہ ملاقات کے دوران حفیظہ بی کے علاوہ ان کےبڑے بیٹے ایوب انصاری، بڑی بیٹی مہتاب محمد اقبال، چھوٹی بیٹی نجمہ محمد سلیم انصاری، پوتا محمد منیب انصاری اور دامام محمد سلیم انصاری بھی موجودتھے۔ ان سب نے مل کر اس گھر کو گل گلزار بنا رکھاتھا۔ 
 ۱۹۴۴ءمیں ممبئی بندرگاہ میں کھڑے پانی کے جہاز میں ہونے والے زبردست دھماکوں سے پورا شہر لرز اُٹھا تھا۔ عام تباہ کاریوں کے علاوہ قرب وجوار کی متعدد کمزور اور خستہ حال عمارتیں منہدم ہوگئی تھیں جس کی وجہ سے ان عمارتوں کےمتعددمکین ملبے میں دب کر فوت ہو گئے تھے۔ شہری انتظامیہ ان عمارتوں کے ملبے کواُٹھاکر، ہنس روڈکی دونوں جانب کی فٹ پاتھوں پر لاکر جمع کررہا تھاتاکہ یہاں ملبے سےلاشوں کو نکال کرعلاحدہ کر لیاجائے، بعدازیں انہیں آخری رسوم کیلئے ورلی شمشان بھومی لے جایاجارہاتھا۔ یہ سب منظر حفیظہ بی نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ لڑکپن تھا، اسلئے وہ اپنی سہیلیوں کے ہمراہ ملبے سے پیسہ تلاش کرتی تھیں۔ انہیں ملبہ سے ایک آنا دوآنا کےمتعدد سکے ملے تھے۔ انہوں نےدسیوں لاشوں کو یہاں سے ورلی شمشان لے جاتے دیکھاتھالیکن فطری طورپر بے خوف ہونےسے ان پراس کا کوئی اثرنہیں پڑاتھا۔ 

یہ بھی پڑھئے:۱۹۸۸ء میں عرفات کے میدان میں اتنی زیادہ گرمی تھی کہ شدت کم کرنے کیلئےعازمین حج سروں پر برف رکھتے تھے
 ہنس روڈ پرواقع مدینہ کمپائونڈ کے سامنے کسی زمانے میں پٹھان چال ہواکرتی تھی۔ جس میں برادران وطن کی اکثریت تھی۔ ایک مرتبہ یہاں پرفرقہ وارانہ فسادہوگیا تھا، جس میں دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے کے گھروں پر پتھرائو کررہےتھے۔ ایک روز اچانک ایک بڑا سا پتھرحفیظہ بی کے والد کے سرپر آکر لگا تھا جس سے ان کا سر پھٹ گیا تھا۔ سرسے خو ن پھوارے کی طرح جاری تھا۔ علاقہ کے دواخانے بند تھے۔ ایسےمیں ریشم جلاکر اس کے سفوف سے خون روکنےکی کوشش کی گئی تھی۔ فساد کی وجہ سے کم وبیش ایک مہینہ تک لوگ پریشان تھے۔ روز رات کو ہونےوالی پتھربازی سے لوگ خوفزدہ تھے۔ 
  ایک واقعہ۷۰۔ ۶۰ء کی دہائی کا ہے۔ ممبئی میں چاول کی بڑی قلت تھی۔ تقریب میں چاول پکانےکی اطلاع پر راشننگ آفیسرپہنچ جاتے تھے۔ چاول کہاں سے آیااس کی پوچھ تاچھ کی جاتی تھی۔ حتیٰ کہ چاول ضبط تک کرلیتے تھے۔ اس دور میں چاول کی اسمگلنگ ہوتی تھی۔ لوگ دوردراز کا سفر کرکے بڑی احتیاط اور رازداری سے کھانےکیلئے چند کلو چاول اضافی قیمت دے کر خریدتےتھے۔ حفیظہ بی اپنی کچھ سہیلیوں کے ساتھ چاول لانےکیلئے ٹرامبے اوروسئی جاتی تھیں۔ ان دونوں مقامات پر چاول کی بوٹ آتی تھیں۔ حفیظہ بی ایک سے دوسری اور دوسرے سے تیسرے، اس طرح متعدد بوٹ پار کرکے چاول خرید کرلاتی تھیں۔ ایک کلوچاول کیلئے انہیں مدنپورہ سے ٹرامبےاور وسئی کی کھاڑی کا طویل سفر کرنا پڑاتھا۔ 
 حفیظہ بی اپنے خانوادہ میں طبی خدمات کیلئے بھی خاص طورپر مقبول تھیں۔ گھر کے کسی بھی افرا دکےبیمار پڑنے پر انہیں علاج کیلئے اسپتال لے جانا، ان کا علاج کروانااور اسپتال میں بھاگ دوڑ کرنےمیں ماہر تھیں۔ انہیں اسپتال یا مردہ خانےمیں آنے جانے سے کوئی خوف نہیں ہوتا تھا۔ انہوں نے پوسٹ مارٹم ہوتے ہوئے بھی دیکھاہے۔ 
 یہ ۱۹۷۳ءکی بات ہے۔ حفیظہ بی اپنے بچوں اور عزیزوں کے ساتھ ماتھیران تفریح کیلئے گئی تھیں۔ ٹوائے ٹرین میں سفر کےدوران ان کےفرزندایوب کو ایک اژدھا ٹرین کی طرف آتا ہوا دکھائی دیا۔ جیسے ہی اـژدھے کامنہ پٹری پر پہنچا، ٹرین کےپہیوں سے اس کا منہ کچل گیا۔ اس نے جائے وقوع پر ہی دم توڑ دیا۔ ڈرائیور نے ٹرین روک دی۔ چونکہ ایوب نے اژدھاکو ٹرین کی طرف آتے دیکھ لیا تھا، اسلئےو ہ سمجھ گئے تھےکہ معاملہ کیاہے۔ انہوں نے اپنے چاچاسے کہا کہ نیچے آئیے، دونوں نیچے اُترے، دیکھا تو ٹرین کاعملہ سانپ اُٹھاکر ٹرین کے اسٹور روم والے ڈبے کی طرف لے جانے کی تیاری میں تھا، ان دونوں نےعملے سے سانپ اُٹھاکر فوٹو نکالنے کی اجازت طلب کی۔ دونوں نے سانپ اُٹھاکر تصویر نکالی۔ بعدازیں ٹرین میں بیٹھ گئے۔ ٹرین کے منزل مقصود پرپہنچتے ہی ایوب نے عملے سے سانپ خریدنےکی خواہش ظاہر کی توپتہ چلاکہ کسی نے ۱۰؍روپے میں سودا کرلیاہے۔ یہ سن کربہت افسو س ہوا۔ حفیظہ بی حالانکہ۲۰؍ روپے بھی دینےپر آمادہ تھیں لیکن سودا ہوچکا تھا، اسلئے انہیں نہیں مل سکا۔ ۱۰؍فٹ لمبااور موٹاسانپ اتنے قریب سے انہوں نے کبھی نہیں دیکھاتھا۔ مذکورہ تصویر اب بھی ان کےگھر میں محفوظ ہے۔ 
  حفیظہ بی ۶؍مہینےکی تھیں۔ اس وقت ہنس روڈپر ان کےپڑوسی کی اکلوتی ۶؍ماہ کی بیٹی کی اچانک موت ہونےسے ہمسایہ کاگھر سوگوار تھا۔ ایسے میں پڑوسی نے حفیظہ کو گود لے لیاتھا۔ وہ حفیظہ کو بیٹی کی طرح مانتے تھے۔ حفیظہ بی انہیں ماموں اور ان کی بیوی کو خالہ کہتی تھیں۔ حفیظہ کی شادی کا بیشتر خرچ، ماموں ہی نے اُٹھایاتھا۔ کچھ دنوں بعدخالہ کا انتقال ہوگیا تھاجس سےماموں بہت مغموم رہنے لگے تھے۔ ان کے وہ ماموں جے پور کےرہنےوالےتھے۔ ان کے بھانجے نے انہیں جے پور منتقل ہونے کا مشورہ دیاتاکہ بیوی اور بیٹی کی موت سے جو صدمہ پہنچا تھا، اسے مندمل کیاجاسکے۔ اس کے بعد ماموں اپنے بھانجے کو ہنس روڈ کا مذکورہ گھر کرائے پر دے کر جے پور منتقل ہوگئے لیکن جب اس گھر کو فروخت کرنےکافیصلہ کیا تووہ ممبئی آئے اور مدنپورہ گھیلابائی اسٹریٹ جاکر حفیظہ سے پوری کیفیت بیان کی۔ ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ میں اس گھر کو دینا چاہتاہوں لیکن اس کیلئے تیری اجازت چاہئے۔ اگر تو یہ گھر لینا چاہتی ہے تو میں تجھے یہ گھر بطور تحفہ دے دوں۔ جس پر حفیظہ نے کہاکہ ماموں آپ گھر کسے دے رہےہیں ؟ ماموں نے بتایاکہ میرا بھانجہ ہے جو گھر لینا چاہتا ہے۔ اس کے جواب میں حفیظہ نےکہا کہ برائے مہربانی اپنے بھانجے کو گھر دے دیں، وہ آپ کاخون ہیں، میں تو پھر بھی ایک ہمسایہ کی بیٹی ہوں۔ یہ کہہ کر انہوں نے گھر لینے سے منع کردیا۔ ماموں اب بھی حفیظہ کے خواب میں اکثر آتے ہیں۔ گزشتہ سال حفیظہ بی نے ان کےنام سے عیدقرباں پر قربانی بھی کروائی تھی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK