Inquilab Logo

۱۹۸۸ء میں عرفات کے میدان میں اتنی زیادہ گرمی تھی کہ شدت کم کرنے کیلئےعازمین حج سروں پر برف رکھتے تھے

Updated: February 04, 2024, 3:03 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

مورلینڈروڈ کے۸۰؍سالہ ضیاءالدین سوامہینے کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ اعظم گڑھ سے ممبئی آگئے تھے، تعلیم مکمل کرنے کے بعد کئی جگہوں پر ملازمت کی اور پھر اپنی کمپنی قائم کی، عمر کے اس مرحلے پر بھی خود کو سماجی، تعلیمی اور ملّی سرگرمیوں میں مصروف رکھتے ہیں۔

Ziauddin Muhammad Hanif Shah. Photo: INN
ضیاءالدین محمد حنیف شاہ۔ تصویر : آئی این این

مورلینڈروڈ بیسٹ کوارٹرس کے سن رسیدہ مکین محمد شکیل خان کا اس کالم سے گہرا تعلق ہے۔ وہ خود بھی کالم کی زینت بن چکے ہیں۔ وہ جب کبھی ملتے ہیں، سلا م دعا کےبعدسب سے پہلے یہی کہتےہیں کہ میں آپ کے کالم کیلئے لوگوں کو تلاش کررہاہوں۔ ایک دو بزرگوں سےملابھی چکےہیں۔ جن کی روداداس کالم میں شائع ہوچکی ہیں۔ تقریباً ایک ماہ قبل ان کا فون موصول ہوا۔ خیر خیریت دریافت کرنے کےبعد کہنے لگے کہ الانا ہال کےسامنے اوّل مسجدمیں نماز پڑھنے گیاتو ایک بزرگ پر نظر پڑی۔ ان سے گوشہ ٔبزرگاں کالم کے تعلق سے دریافت کیا، انہوں نے کہاکہ میں پابندی سے پڑھتا ہوں۔ کیا آ پ اس کالم میں جگہ پانا پسند کریں گے؟ یہ پوچھنے پر وہ بہت خوش ہوئے، کہاکہ کیسے جگہ ملے گی؟ بعد ازیں ہم نے ایک دوسرے کا موبائل نمبر شیئر کیا۔ ان کا موبائل نمبر آپ کودے رہاہوں۔ ان سے وقت طے کرلیں اور جاکر مل لیں۔ میں نے ان کاشکریہ اداکیا۔ اس طرح مورلینڈروڈ پیربھائی مینشن میں رہائش پزیر ۸۰؍سالہ ضیاءالدین محمد حنیف شاہ سے ملاقات کی راہ ہموار ہوئی۔ 
 مذکورہ عمارت کے گرائونڈ فلور پر مقیم ضیاءالدین شاہ کی رہائش گاہ ۴؍کمروں پر مشتمل ہے۔ ایک کمرہ ضیاءالدین شاہ کیلئے مختص ہے۔ جس میں ہم نے تقریباً سوا گھنٹہ تک انتہائی معلوماتی اور دلچسپ گفتگو کی۔ اس دوران کمرے میں ان کی اہلیہ بھی موجود رہیں۔ جنہوں نے دوران ِ گفتگو متعدد مقامات پر ضیاءالدین شاہ کی رہنمائی کی۔ اعظم گڑھ کے بندول قصبہ میں ۲؍فروری ۱۹۴۴ء کو پیدا ہونے والے ضیاء الدین شاہ سوا ماہ کی عمر ہی میں اپنے والدین کے ساتھ ممبئی منتقل ہوگئےتھے۔ انجمن اسلام سی ایس ایم ٹی سے انہوں نے ایس ایس سی پاس کیا۔ نیشنل کالج میں مزید پڑھائی کیلئے داخلہ لیاتھا لیکن معاشی پریشانی کی وجہ سے آگے کی پڑھائی نہیں ہوسکی۔ ان کےوالد گودی میں ملازمت کرتے تھے۔ والد نے پہلے گودی میں انہیں بھی کام پر لگایالیکن یہاں کی ملازمت ضیاءالدین کو راس نہیں آئی۔ بعدازیں انہوں کپاڈیہ نامی ایک پینٹنگ کمپنی میں ملازمت اختیار کی۔ یہاں ۸۔ ۷؍ سال کام کرنےکےبعد اپنی خود کی بیوٹی پینٹس کے نام سےکمپنی شروع کی۔ تقریباً ۱۶؍سال قبل تک اسی کاروبار سے وابستہ رہے۔ پیرانہ سالی میں فلاحی اور دینی سرگرمیوں سے منسلک ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: گونڈہ سےممبئی کیلئے براہ راست ٹرین نہیں تھی،لوگ پہلےلکھنؤ جاتے تھے، پھرجھانسی سےعروس البلاد پہنچتے

ضیاءالدین شاہ نے ۱۹۸۳ءمیں پانی کےنور جہاں جہاز سے حج کا سفر کیاتھا۔ اس دورمیں کسی کانمبر پہلی مرتبہ میں حج کیلئے نہیں لگتاتھا۔ ان کا والدین اور اہلیہ کے ساتھ حج پر جانےکاارادہ تھا لیکن اسی دوران ان کےوالدکابیماری کےسبب انتقال ہوگیا۔ ایسے میں انہوں نےصرف اپنی والدہ کے ساتھ حج پر جانے کافیصلہ کیا۔ عازمین کی فہرست جمعہ کے دن جاری ہونی تھی۔ جمعہ کی نماز پڑھ کر ضیاءالدین کھانا کھاکر قیلولہ کر رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے خواب دیکھاکہ ان کانام حج پر جانے والوں کی فہرست میں آگیا۔ یہ دیکھتے ہی وہ نیند سے بیدار ہوئے اور اپنی اہلیہ سے کہاکہ ہمارا نام حج کی فہر ست میں آگیا۔ وہ گھر سےسیدھے ٹیکسی کر کے کرافورڈ مارکیٹ حج ہائوس پہنچے، یہاں لگی فہرست میں اپنالفافہ نمبر ۴۳۵؍ تلاش کیا۔ ان کانمبر فہرست میں شامل تھا۔ یہ دیکھتے ہی ان کی خوشی کی انتہا نہیں رہی۔ اس خواب کے یاد آنےپر وہ اب بھی جذباتی ہو جاتےہیں۔ 
۶۰ء کی دہائی کا قصہ ہے۔ ضیاءالدین شاہ کاپہلا بیٹا جس کی عمر ۳؍ سال تھی۔ اچانک طبیعت خراب ہونےسے اسے علاج کیلئے نائر اسپتال داخل کیاگیاتھا۔ جہاں علاج کےدوران اس کی حالت مزید خراب ہوگئی تھی، نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس کے پیر کی نس نکال دی گئی تھی۔ روزبروز اس کی حالت ابترہوتادیکھ کر ضیاءالدین اور ان کی اہلیہ بہت پریشان تھے۔ ایسی صورت میں انہوں نے جنوبی ممبئی کے ایک معروف نجی ڈاکٹر کوٹھاری سے رابطہ کیا۔ ان سے ساری کیفیت بیان کی۔ ڈاکٹر کوٹھاری کےمطابق بچےکی جان بچانا مشکل تھی، اس کےباوجود انہوں نے بچہ کواپنی کلینک لانےکیلئے کہا۔ نائر اسپتال کے ڈاکٹر بچے کو ڈسچارج نہیں دے رہےتھے۔ کسی طرح ڈسچارج لے کر بچے کو ڈاکٹر کوٹھاری کو دکھایاگیا۔ ڈاکٹر کوٹھاری نے ناناچوک پر واقع ایک نجی دواخانےمیں اسے داخل کرایا۔ وہاں بچوں کےماہر ڈاکٹر سمدھانی تھے۔ انہوں نے بچے کی حالت دیکھنے کےبعد ضیاء الدین سے کہاکہ تمہارے پاس بچے کے علاج کیلئے پیسہ ہے یانہیں ؟ ضیاءالدین نے کہاکہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں لیکن میں کچھ بھی کرکے بچے کاعلاج کرانے کیلئے تیارہوں۔ یہ بات سن کر ڈاکٹر سمدھانی بہت متاثرہوئے۔ انہوں نے بچے کاعلاج شروع کیا۔ اللہ کےفضل سے بچہ روبہ صحت ہوا۔ اس دور میں ڈاکٹر کابل ۳۸۰؍روپے ہواتھا۔ ضیاءالدین کیلئے اتنی بڑی رقم کا انتظام کرنا مشکل تھا لیکن انہوں نے اپنےمتعلقین سے مالی مددحاصل کرکے ڈاکٹرکےبل کی ادائیگی کی۔ بچے کو بچانے کیلئے ان کی یہ کوشش کارگر ثابت ہوئی۔ 
ضیاء الدین شاہ معروف فلم اداکار دلیپ کماراور گلوکار محمد رفیع کے زبردست مداح ہیں۔ ضیاء الدین نے دلیپ کمار کو پہلی مرتبہ ۱۹۶۴ءمیں تاج محل ہوٹل کے قریب دیکھاتھا۔ ضیاءالدین کو سگریٹ پینے کا بڑاشوق تھا۔ وہ تاج محل ہوٹل کے قریب بیٹھ کر پناما سگریٹ کا کش لگا رہے تھے۔ عین اسی وقت دلیپ کمار اپنی موٹرکار سے اُترے، ان کی نگاہ ضیاء الدین پر پڑی، وہ ضیاء الدین کے کش لگانے کو لمحہ بھر تکتے رہے۔ معنی خیز نگاہوں سے ضیاء الدین کو دیکھا، وہ کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن دوسرے پل بغیر کچھ کہے، ذہن میں کچھ یادیں لئے ہوٹل میں داخل ہوگئے۔ اس دور میں ہالی ووڈ فلم کے سپراسٹار عمرشریف کی سگریٹ نوشی سےمتعلق دلیپ کمار کا اخباروں میں ایک بیان بھی شائع ہواتھا، جس میں انہوں نے کہاتھا کہ میں عمرشریف کے سگریٹ کے کش کےانداز سے بے حد متاثر ہوں۔ غالباً ضیاءالدین کے سگریٹ کے کش میں بھی انہیں عمرشریف کا کش دکھائی دیاتھا۔ اسی وجہ سے کچھ دیر رک کر انہوں نے ان کے کش کو دیکھاتھا۔ بعدازیں ایک مرتبہ دلیپ کمار کے گھر پر ملازمت کرنےوالے سکندر بھائی کےساتھ ضیاءالدین دلیپ کمار سے ملاقات کیلئے گئے تھے۔ ملاقات بہت دلچسپ رہی لیکن ضیاءالدین نے مذکورہ واقعہ کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ ضیاءالدین کو سگریٹ نوشی کا بہت شوق تھا۔ پناماان کی پسندیدہ سگریٹ تھی۔ متواتر سگریٹ پینے سے ان کی دائیں ہاتھ کی ۲؍ اُنگلیاں برائون ہوگئی تھیں۔ 
 بابری مسجد کی شہادت کےبعد ممبئی شہر میں پھوٹ پڑنےوالے فساد کو ضیاءالدین نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ان کی رہائش گاہ سے متصل سڑک پر بھی پولیس تعینات تھی۔ اسی دوران ایک روز صبح کےوقت وہ گھر سےباہر نکل کر سڑک کی جانب جارہےتھے۔ پولیس نے انہیں دیکھتے ہی ان کی جانب بندوق تان دی۔ پولیس پر نظر پڑتے ہی ضیاءالدین اُلٹے پیر گھر کی طرف دوڑے، اچھا ہوا کہ پولیس نے گولی نہیں چلائی ورنہ کچھ بھی ہوسکتاتھا۔ 
 ضیاءالدین پہلی مرتبہ ۱۹۸۸ءمیں حج پر گئے تھے۔ عرفات کے وسیع وعریض میدان میں شدید ترین گرمی تھی۔ تیز دھوپ ہونے کی وجہ سے عازمین پیاس اور تپش کی شدت سے پریشان تھے۔ ایسےمیں عازمین کی سہولت کیلئے حکومت کی طرف سے مفت برف تقسیم کرنے کا انتظام کیاگیاتھا۔ ذمہ داران ٹیمپو سے برف لاکر چھوڑ جاتے تھے۔ متعدد عازمین برف کے ٹکڑوں کو کندھے پر اُٹھاکردیگر عازمین میں تقسیم کرتے تھے تاکہ لوگ برف کا استعمال کر سکیں۔ گرمی کی شدت کو کم کرنے کیلئے عازمین اپنے سروں پر بھی برف رکھتے تھے۔ اُس وقت ضیاءالدین نے اپنےکندھے پر برف رکھ کر نہ صرف عازمین میں تقسیم کیا تھا بلکہ خود اپنے سرپر بھی برف رکھ کر گرمی کا مقابلہ کیاتھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK