۷۹؍ سالہ انصاری محمداکبر عبدالخالق نے ۳۲؍سال تک تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد اب کرلا کی ایل آئی جی کالونی میں سبکدوشی کی زندگی گزار رہے ہیں، انہیں تعلیم کے ساتھ ہی فٹ بال کھیلنے کا شوق بچپن سے رہا ہے، فی الحال اپنا بیشتر وقت مطالعے میں گزارتے ہیں۔
انصاری محمداکبر عبدالخالق۔ تصویر: آئی این این
کرلا، ایل آئی جی کالونی میں رہائش پزیر ۷۹؍سالہ انصاری محمداکبر عبدالخالق کی پیدائش ۱۲؍اکتوبر ۱۹۴۶ء کو مدنپورہ، تیسری گھیلا بائی اسٹریٹ کی مرادچال میں ہوئی تھی۔ محمد عمر رجب روڈپر واقع صفرابادی اُردو میونسپل اسکول سے چوتھی اور احمد سیلراُردو(ناگپاڑہ ) سے میٹرک کاامتحان پاس کیا۔ نامساعد گھریلوحالات سے آگےکی پڑھائی نہیں کرسکے۔ پڑھائی چھوڑنےکےبعد سب سے پہلے ناگپاڑہ، پیرخان اسٹریٹ میں ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں ماہانہ ۱۰۰؍ روپےپر عارضی ملازمت کی۔ اسی دوران ایک خیرخواہ نے ۱۹۶۸ءمیں ڈی ایڈ کرنےکا مشورہ دیا۔ ماہم ڈی ایڈ کالج سے ڈی ایڈ کرنےکےبعدتقریباً ۲؍سال ایک موٹرکمپنی کے شوروم میں بحیثیت اسٹور کلرک کام کیا، بعد ازیں ایک صاحب کے مشورہ پرانجمن مفید الیتمیٰ میں ٹیچر کی ملازمت کرلی۔ دورانِ ملازمت، بی ایم سی اُردو اسکول کیلئے ایک معلم کی ضرورت کااشتہا ر پڑھ کراس عہدہ کیلئے درخواست دی اور پھر بطورٹیچر مرول میونسپل اُردو اسکول میں تقرری ہوئی۔ بعد ازاں ۳۲؍سال تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ اس دوران مرول، کرلا کے نہرواور قریش نگر، گھاٹ کوپراور شیواجی نگرمیں ڈیوٹی انجام دی۔ ۲۰۰۴ءمیں سبکدوش ہوئے۔ فٹ بال کھیلنے کا شوق بچپن سے رہا۔ اس عمر میں مطالعہ کرنا، رشتے داروں، عزیزوں اور دوست احباب کی خیر خیریت معلوم کرنا اہم مشغلہ ہے۔
اس دورمیں ڈی ایڈ کی پڑھائی کےدوران طلبہ کیلئے کالج کی طرف سے کسی تاریخی مقام کا ۱۰؍روزہ ٹورکرنا لازمی تھا۔ ۱۹۶۸ءمیں ماہم ڈی ایڈ کالج کے پرنسپل عبدالقیوم صاحب تھے۔ انہوں نے ٹور کیلئے ہر طالب علم سے ۵۰؍ روپے جمع کرنےکیلئے کہا۔ ٹورفنڈاکٹھا ہونے پر اورنگ آباد جانےکا منصوبہ طے پایا۔ وہاں طلبہ نے خلدآباد، دولت آباد، اجنتا اور ایلورہ وغیرہ کادورہ کیا۔ اس دوران ایک دن پرنسپل عبدالقیوم نے طلبہ سےکہا کہ معروف فنکاراور مصور ایم ایف حسین اورنگ آبادمیں رہتے ہیں۔ ہم ان سے ملاقات کرنے چلیں گے۔ انہوں نے ایم ایف حسین سے رابطہ کرکے ملاقات کا وقت متعین کیا۔ پرنسپل کےہمراہ سبھی طلبہ ایم ایف حسین کی رہائش گاہ پہنچےجہاں انہوں نے نہایت گرمجوشی سے طلبہ کااستقبال کیا۔ انہیں دعائیں دیں اور مستقبل کی کامیابی کیلئے نیک خواہشات کااظہار کیا۔ رسمی ملاقات اور بات چیت کےبعد انہوں نے طلبہ سے بلاجھجھک سوالات کرنےکی پیشکش کی، جس پر محمد اکبر نے ان سے کہا کہ ’’سر شریعت میں تصاویر بنانےکی اجازت نہیں دی گئی ہے؟ اس پر آپ کا کیاخیال ہے؟‘‘اس سوال کے جواب میں ایم ایف حسین نے کہاکہ کسی دورمیں یہی سوال میں نے مولاناابوالکلام آزاد سے کیاتھا، جس کا انہوں نےمجھے یہ جواب دیاتھاکہ تم جو کام کررہےہو، وہ کرتےرہو۔ ایم ایف حسین کا یہ جواب سن کر سب خاموش ہوگئے۔
انصاری محمد اکبر کو فلم دیکھنے کاشوق بچپن سے رہا۔ مغل اعظم ان کی پسندیدہ فلم ہے۔ مغل اعظم کے ریلیز ہونے سے قبل اس کی بڑی تشہیرکی گئی تھی۔ مغل اعظم کو ہندوستانی فلم صنعت کی ۱۰۰؍سالہ تاریخ کاشاہکار قرار دیاجارہا ہے۔ اس کی ٹکٹ کیلئے مراٹھامندر سے مورلینڈروڈ پرواقع رحمانی ہوٹل تک لگنےوالی طویل قطار، انہوں نے قریب سے دیکھی تھی۔ ان کے والد کےچنددوست بھی ٹکٹ کی قطارمیں کھڑے تھے۔ ان لوگوں نے کافی جدوجہد سے ٹکٹ حاصل کی تھی۔ انہی لوگو ں نے ایک ٹکٹ محمد اکبرکودی تھی۔ ٹکٹ ملنے پروہ بے انتہاخوش تھے۔ فلم انہیں بہت پسند آئی تھی۔ انہوں نےاس کے بعد ۱۰؍مرتبہ مغل اعظم دیکھی تھی اور آج بھی موبائل پرفلم دیکھنے کاموقع ملتاہےتو مغل اعظم کو ترجیح دیتےہیں۔ ۱۹۶۲ء میں پہلے دن مغل اعظم کا جو ٹکٹ انہیں ملا تھا، وہ۶۳؍سال گزر جانے کےباوجود آج بھی ان کے پاس محفوظ ہے۔ ٹکٹ کی قیمت ایک روپے ۳۰؍ پیسے تھی۔
۲۶؍جولائی۲۰۰۵ءکوہونےوالی موسلادھار طوفانی بارش سے بڑے پیمانےپر جانی اورمالی نقصان ہواتھا۔ محمد اکبر اس دور میں کرلاایل آئی جی کالونی میں اپنے اہل خانہ کےساتھ رہتےتھے۔ ان کی ۸؍سالہ پوتی کرلاسے سانتا کروز پڑھنے جاتی تھی۔ اس روز بھی وہ معمول کے مطابق صبح ۷؍بجےاسکول گئی تھی جبکہ صبح ۱۱؍بجے سے تباہ کن بارِ ش ہوگئی تھی جو شام ۴؍بجے تک جاری رہی۔ اس دوران ممبئی کے بیشتر علاقوں میں سیلابی کیفیت پیداہوگئی تھی۔ کرلا میں ڈبل ڈیکر بس کی اُوپری منزل تک پانی پہنچ گیاتھا۔ ایسےمیں ان کا بیٹا جو کرلاکی ایک اسکول میں بطور معلم ملازمت پر مامور تھا، اس نے سانتاکروز جاکراپنی بیٹی کواسکول سے لیا، کسی طرح کرلاڈپوکےقریب پہنچا، لیکن یہاں سے آگے جانےکاکوئی راستہ نہیں تھا، مجبوراً یہاں کھڑی ایک ڈبل ڈیکر بس میں بیٹی کو لےکر اوپری منزل پر چڑھ گیا۔ باپ بیٹی نے تقریباً ۱۸؍گھنٹے بس میں گزارا، اس دوران گھروالوں سے کسی طرح کارابطہ نہیں ہوسکا۔ بیٹے اورپوتی کے گھر نہ پہنچنے سے محمد اکبر اور گھر کےدیگر افراد ذہنی طورپربہت پریشان تھے۔ پوری رات وسوسوں میں گزری۔ دوسرے دن پانی کے اُترنے پر صبح ۸؍بجے جب دونوں گھر پہنچے تو سب کی جان میں جان آئی۔
محمد اکبر ۲۰۰۵ءمیں اہلیہ کے ساتھ حج بیت اللہ پرگئے تھے۔ سارے ارکان معمول کےمطابق پورے کئے لیکن جس روز شیطان کو کنکری مارنےگئے، اسی دن اچانک بھگدڑ مچ گئی۔ وہاں لوگوں کے مختلف ریلےایک دوسرے کو کچلتےدکھائی دیئے۔ افراتفری ایسی تھی کہ لوگ کسی کاخیال کئے بغیر ایک دوسرے کو دھکیل کر آگے بڑھ رہے تھے۔ اسی بھگدڑ میں محمداکبر نےاپنی اہلیہ کےساتھ ایک مخصوص گوشے میں پناہ لی اوروہیں گھنٹوں خاموشی سے کھڑے رہے۔ انہوں نےاپنی آنکھوں کے سامنے متعدد عازمین کودم توڑتے دیکھا۔ اس خوفناک ماحول میں انہیں نہیں یاد رہا کہ کے وہ کتنی دیرمیں اورکیسے اپنے خیمے میں پہنچے۔ بعد میں پتہ چلا کہ حادثے میں ۳۰۰؍ عازمین جاں بحق ہوئے تھے۔
۱۹۶۸ءمیں محمداکبر مدنپورہ کے گھیلابائی اسٹریٹ کی مرادکی چال میں رہتےتھے۔ رمضان المبارک کامہینہ تھا۔ سحری کے وقت اچانک بلڈنگ کےہلنے کا احساس ہوا۔ دوسرے ہی لمحے چیخ وپکار سے ماحول خوفناک ہوگیا، بلڈنگ میں لوگوں کے دوڑ بھاگ کی آوازیں سنائی دیں۔ گھروں سےنکل کر لوگ محلےمیں جمع ہورہےتھے۔ برتنوں کےساتھ بلڈنگ ہل رہی تھی، چندسیکنڈوں میں سب کچھ ادھر اُدھربکھرا ہوادکھائی دیا۔ ’زلزلہ آیاہے، زلزلہ آیا ہے‘کی آواز ہر طرف سے سنائی دے رہی تھی۔ اسی گھبراہٹ میں لوگ سحری کرنا بھول گئے تھے۔ بڑا خوفناک منظرتھا۔ اچھی بات یہ رہی کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔
۳۲؍سالہ تدریسی خدمات کےدوران ایک مرتبہ سالانہ اسپورٹس میں مراٹھی اور اُردو میڈیم کےطلبہ کےمابین ہونےوالے جھگڑے سے محمداکبر بہت پریشان ہوئےتھے۔ اس وقت وہ مرول اسکول میں بحیثیت معلم تھے۔ جھگڑے میں ان کی جماعت کے ۲؍بچوں کومراٹھی میڈیم کےبچوں نے زخمی کر دیا تھا۔ بات پولیس تک پہنچی، پولیس نے ضروری کارروائی کیلئے دونوں اسکولوں کے اساتذہ کوبلایا۔ حالانکہ چوٹ اُردو میڈیم کےبچوں کوآئی تھی، اس کےباوجود محمد اکبر محکمہ جاتی کارروائی کے خوف سے فکرمند تھے۔ ایسےمیں دونوں اسکول کے ذمہ داران نے مفاہمت پسندانہ طرز عمل سے کسی طرح معاملے کورفع دفع کرلیا۔
محمد اکبرنے جن بچوں کوپڑھایا، ان میں سےکچھ طلبہ آج بھی انہیں کہیں نہ کہیں مل جاتےہیں۔ جوبچےانہیں پہچانتے ہیں وہ بڑےاحترام سے ملاقات کرتےہیں اور ان کاشکریہ اداکرتے ہیں۔ ۲۵؍سال قبل کرلا اسٹیشن پر ایک باحجاب لڑکی نے انہیں سلام کیا، جس کاجواب دینے کےبعد محمداکبر نے لڑکی سےکہا کہ آپ کون ہیں ؟ میں نے پہچانا نہیں۔ اس پرلڑکی نے چہرے سے برقعہ ہٹاکرکہا کہ سر!میں آپ کی طالبہ ہوں۔ آپ نے مجھے پڑھایاہے۔ یہ سب سن کر بہت اطمینان ہوتا ہے۔