Inquilab Logo

میں میکانک کا کام سیکھتا تھا، گیراج کا مالک تنخواہ کے نام پربریانی کھلاتا تھا

Updated: March 31, 2024, 4:17 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

ڈونگری،کھڑک کے ۷۸؍سالہ محمد ابراہیم کچھی نے تقریباً ۵۰؍سال تک ڈرائیونگ کی ذمہ داری نبھائی، ان میںوہ ۳۵؍ سال دبئی میں رہے، اس دوران اپنی ایمانداری اور دیانتداری سے بہت سارے لوگوں کو متاثر کیا جن میں برادران وطن بھی شامل ہیں۔

Muhammad Ibrahim Kachi. Photo: INN
محمد ابراہیم کچھی۔ تصویر : آئی این این

اس کالم میں شائع ہونے کا تجربہ رکھنے اور پابندی سے اس کامطالعہ کرنےوالے مورلینڈروڈ کے۸۰؍ سالہ شکیل خان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ گوشہ ٔبزرگاں کے ذریعے اپنےہم عمر رفقاء کی زندگی کے اہم واقعات سے قارئین کو روشناس کرائیں۔ اسی مقصد کے تحت گزشتہ دنوں فون کر کےکالم نگار کی توجہ اپنے ایک ٹیکسی ڈرائیور دوست محمد ابراہیم کچھی کی جانب مبذول کرائی جن کاتعلق ڈونگری، کھڑک سے ہے لیکن فی الحال وہ کوسہ، شیل پھاٹا میں واقع دوستی کمپلیکس میں مقیم ہیں۔ شکیل خان نے ابراہیم کچھی سےگفتگو کرکےاتوار۳؍مارچ ۲۰۲۴ءکا وقت مقررکیا۔ 
  ملاقات کیلئے طے کئےگئے وقت پر ان کی رہائش گاہ پہنچنے پر محمد ابراہیم نےبذات خود بڑی گرمجوشی سے کالم نگار کا استقبال کیا۔ ان کی فعال شخصیت اور ان کےجسمانی خد و خال کو دیکھ کر ان کی ۷۸؍سال عمر ہونےکا احساس نہیں ہو رہا تھا۔ راقم کے ایک سے دومرتبہ عمر دریافت کیا پر انہوں نےمزاحیہ لہجے میں کہاکہ میں ہی محمد ابراہیم ہوں اور میری عمر ۷۸؍سال ہے۔ رسمی گفتگو کےبعد محمد ابراہیم نے اپنی زندگی کے مختلف ادوار کی جوروداد بیان کی وہ بڑی دلچسپ اور معلوماتی رہی۔ 

یہ بھی پڑھئے : ’’ ہوائی سفر کے دوران موسم کی خرابی کی وجہ سے ۲؍ مرتبہ جہاز گرتے گرتے بچا تھا‘‘

 محمدابراہیم کچھی کی پیدائش کیرالا، کوچین کے مٹن جری گائوں میں ۲۰؍جنوری ۱۹۴۷ء کوہوئی تھی۔ ان کے والد اور بڑے بھائی ذریعہ معاش کے تعلق سے اس وقت ممبئی میں مقیم تھے لہٰذا ان لوگوں نے بچپن ہی میں محمد ابراہیم کو ممبئی بلا لیا تھا۔ اس دورمیں ان کے والد کھڑک میں مقیم تھے۔ محمد ابراہیم نے محمدعلی روڈ کے ہاشمیہ اُردو اسکول سے پانچویں تک تعلیم حاصل کی۔ شوق نہ ہونے سے زیادہ پڑھائی نہیں کرسکے۔ ایک اسکولی ساتھی کے والدیونیفارم میں اپنے بیٹے کواسکول چھوڑنےاس دورکی معروف ایمپالاکار سےآتے تھے۔ انہیں دیکھ کر محمدابراہیم اپنے دوست پر رشک کرتے تھے۔ ابراہیم کبھی ایمپالاکارکوہاتھ سے چھُو لیتے تو ان کادوست انہیں منع کرتاتھا، کہتاتھاکہ یہ ایمپالا میرے ابا کی نہیں ہے، وہ صرف ڈرائیونگ کرتےہیں، ایمپالا کے مالک کو اگر یہ بات پتہ چل گئی کہ تم اس کی کار کو چھُوتے ہوتو مالک، میرے اباپر نارا ض ہوگا۔ یہ بات انہیں بہت بری لگی تھی۔ اسی وقت انہوں ڈرائیور بننے کافیصلہ کرلیا تھا۔ پڑھائی چھوڑنے کے بعد انہوں نے پہلے ایک گیراج میں میکانک کا کام سیکھا، اس وقت کام سیکھنے کےعوض گیراج کا مالک مہینہ پورا ہونے پر انہیں ایک پلیٹ بریانی کھلاتا تھا، اس کےعلاوہ پیسہ نہیں ملتاتھا۔ چونکہ میکانک کو اس دور میں موٹر گاڑی چلانےکا لائسنس نہیں دیاجاتاتھا، اسلئے انہوں نے یہ کام چھوڑ کر وارڈن روڈ کے ایک سروس سینٹر پر ملازمت کرلی جہاں گاڑیو ں کی دھلائی ہوتی تھی۔ یہاں انہوں نے گاڑیوں کی دھلائی کےساتھ ہی گاڑیوں کو آگے پیچھے کرتےہوئے ڈرائیونگ سیکھ لی۔ بعدازیں اپنا لائسنس بنایااور پھر ڈرائیونگ ان کی عملی زندگی کا حصہ بن گئی۔ ممبئی کے علاوہ ۳۵؍سال تک دبئی میں ڈرائیونگ کی۔ اس دوران جدید ترین موٹرگاڑیاں اور ۲۲؍ٹائروالی ٹرک بھی چلائی۔ ۲۰۱۷ء تک ڈرائیونگ ان کی روزی روٹی کا ذریعہ رہا۔ 
 یہ ۶۰ء کی دہائی کی بات ہے۔ ممبئی میں گھر بہت تھے جبکہ آبادی اور لوگوں کے پاس پیسے کم تھے جس کی وجہ سے گھر خالی پڑے رہتے تھے۔ بڑی آسانی اور معمولی رقم پر گھر مل جایاکرتےتھے حتیٰ کہ ۵؍روپے ماہانہ کرائے پر بھی گھر ملتےتھے۔ محمدابراہیم کے والد نے اس دور میں کھڑک کی قصائی گلی میں ایک کمرہ پر مشتمل گھر صرف ۵۰۰؍ روپے میں خریدا تھا۔ اس گھرمیں ایک سال رہنےکےبعد اسے ۶۰۰؍روپےمیں فروخت کرکے بھنڈی بازار میں عبدالرحمٰن شاہ باباکی درگاہ کے قریب ایک گھر اور دکان اسی پیسے سے خریدلی تھی۔ سستائی کا دور تھا، اسی وجہ سے ان کے والد نے اس زمانےمیں متعدد گھر اوردکانیں خرید لئے تھے۔ 
 ابراہیم کچھی کی ڈرائیونگ کی زندگی کا ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ مرحوم ڈاکٹر اے آر اُندرے کا ڈرائیور ان کاشاگرد ہوا کرتا تھا۔ ڈاکٹر اے آر اندرے اور معروف فلم اداکاردلیپ کمار کے قریبی مراسم تھے۔ اچانک ایک ڈرائیور کی ضرورت پیش آنے پر دلیپ کمارنے ڈاکٹر اُندرے سے اس کا ذکر کیا، ڈاکٹر اندرے نے اپنے ڈرائیور سے کسی ڈرائیور کا انتظام کرنےکی درخواست کی۔ اس نے ابراہیم کچھی سے دلیپ کمار کی موٹر گاڑی کی ڈرائیونگ کرنے کی بات کی۔ وہ ابراہیم بھائی کولے کر دلیپ کمارکی رہائش گاہ پالی ہل باندرہ گیا۔ دلیپ کمار، سائرہ بانو اور ان کی والدہ نسیم بانو کےسامنے بات چیت ہوئی۔ دوسرے دن سے ابراہیم کچھی ڈیوٹی پر مامور ہوگئے۔ ابھی چند دن ہی گزرے ہوں گے کہ ایک روز دلیپ کمار نے ابراہیم کچھی سے کہاکہ تمہاری فیملی اور بچے وغیرہ کہاں ہیں، انہیں چاہو تو یہاں لے آئو، بچوں کی پڑھائی لکھائی اور رہائش کا انتظام ہوجائے گا۔ جس پر ابراہیم کچھی نے کہا کہ میں اس بارےمیں گھر میں بات چیت کرکے جواب دوں گا۔ دراصل ابراہیم کچھی اپنا گھربار چھوڑکر دلیپ کمارکے بنگلے پر نہیں رہنا چاہتےتھے۔ ایسا کرنے سے ہر وقت ملازمت کاخطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔ اسی وجہ سے انہوں نے دلیپ کمار کی مذکورہ پیشکش کو مسترد کردیااور اپنی جگہ اپنے ایک دوست غفور بھائی کو وہاں ملازمت دلوادی۔ ابراہیم کچھی نے صرف ۲۱؍دنوں تک ان کے ملازمت کی تھی۔ ملازمت چھوڑکر جاتے وقت دلیپ کمار انہیں ان کی تنخواہ دینے لگےتو ابراہیم کچھی نے تنخواہ قبول کرنے سےمنع کردیا۔ کہاکہ جناب ہم لوگ غریبوں کی تواکثر دعا لیتے ہیں لیکن آپ جیسے امیروں کی دعاکہاں نصیب ہوتی ہے، مجھے صرف اپنی دعائوں سے نوازیں، یہی میری تنخواہ ہوگی۔ ابراہیم کچھی کے اس اندازسے دلیپ کمار بہت متاثرہوئےتھے۔ 
  ابراہیم کچھی نے یوں تو اپنی زندگی میں ۴؍جنگیں دیکھی ہیں لیکن ۱۹۶۲ءمیں چین سے ہونےوالی جنگ کے مناظر اور اس کی وجہ سے ملک میں پھیلنے والی غربت کو بہت قریب سے دیکھاہے۔ چین کی جنگ کےبعد فلمی ستاروں کی طرف سے ایک ریلیف ریلی نکالی گئی تھی جس میں اس دور کےمعروف فلم اداکار شمی کپور، دیوا نند، شیخ مختار، وحیدہ رحمان، وجنتی مالااور دیگر کئی شعبوں سے تعلق رکھنےوالی بڑی ہستیاں موجود تھیں۔ ریلی کی ایک خاص بات انہیں اب بھییاد ہے۔ ا ُسی سال شمی کپور اور سائرہ بانوکی سپر ہٹ فلم ’جنگلی‘ ریلیز ہوئی تھی جس میں محمد رفیع کی آواز میں گایاہوا ایک گانا ’یاہُو‘ بہت ہٹ ہواتھا۔ لوگوں کی زبان پر یہ گانااس طرح عام تھاکہ ریلی کے دوران لوگ شمی کپور سے گانے کے اس بول کو دُہرانےپر ۵؍روپے ریلیف میں دینے کی پیشکش کررہےتھے۔ شمی کپورنے گانےکے اس بول کو متعدد مرتبہ دہرا کر ریلیف کیلئے سیکڑوں روپے اکٹھا کئے تھے۔ 
 یہ ۱۹۷۵ءکی بات ہے۔ وارڈن روڈ سےبرادران وطن کی ایک فیملی باندرہ، شادی میں شرکت کرنے جارہی تھی۔ ان کے پاس شادی کا سامان بھی تھا۔ سارا سامان ڈگی میں رکھ دیا گیا۔ شادی ہال کے قریب انہیں اُتار کرابراہیم بھائی دیگر مسافروں کو چھوڑتےہوئے ڈونگری پہنچ گئے۔ وہاں بھی ایک مسافر ملا جس کےپاس کچھ سامان تھا۔ سامان رکھنے کیلئے ڈگی کھولنے پرابراہیم بھائی کو ایک باکس دکھائی دیا، انہیں یاد آگیا کہ یہ باکس انہی لوگوں کا تھا، جنہیں وہ باندرہ چھوڑکر آئے تھے۔ باکس کھول کر دیکھا تواس میں ز یورات تھے۔ ابراہیم بھائی نےمسافر کو دوسری ٹیکسی کرنے کیلئے کہااور اپنی خالی ٹیکسی لے کر باندرہ روانہ ہوگئے۔ وہاں پہنچنے پر اُن سب کو اپنا منتظر پایا۔ انہیں دیکھتے ہی ان سب نے ایک آواز میں کہا کہ تم کہاں تھا، ڈگی میں ہمارا باکس چھوٹ گیاہے، اس میں زیورتھا۔ ابراہیم کچھی نے ان سب سےکہا، صبر رکھو، تمہارا زیور محفوظ ہے، میں ممبئی جاکر دوبارہ باندرہ تمہارا باکس واپس کرنے ہی آیاہوں۔ ان لوگوں نے ابراہیم بھائی کابہت شکریہ اداکیااور کہاکہ اگر باکس نہیں ملتاتو ہماری بیٹی کی شادی نہیں ہو پاتی، تم بڑے ایماندار انسان ہو۔ یہ کہہ کر ان لوگوں نے کہا کہ بتائو تمہیں کیا چاہئے، جس پرانہوں نے کہاکہ مجھے کچھ نہیں چاہئے، بس ممبئی سے باندرہ تک کاکرایہ ۸؍ روپے ہوتاہے وہ مجھے دے دیں۔ وہ لوگ سیکڑوں روپے دینے پر بضد تھے لیکن انہوں نے صرف ۸؍ روپے ہی لئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK