Inquilab Logo

’’اُس دورمیں الیکشن مہم کےدوران موٹرگاڑیوں پرلاؤڈ اسپیکر باندھ کراُمیدواروں کی تشہیرکی جاتی تھی‘‘

Updated: December 31, 2023, 3:00 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

کرلاکے ۸۰؍سالہ شیخ عبدالصمد نے صابوصدیق کالج سے پرنٹنگ ٹیکنالوجی کاکورس کرکے وہیں پر بطور لیکچر ر۹؍سال تک اپنی خدمات پیش کیں،اب بھی وہ سابق طلبہ کی تنظیم’ اوسا‘کے صدر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری اداکررہےہیں، عمر کے اس مرحلے میں بھی پوری طرح فعال ہیں۔

 Sheikh Abdul Samad. Photo: INN
شیخ عبدالصمد۔ تصویر : آئی این این

انجمن اسلام کی صدسالہ تقریبات سےمتعلق گزشتہ دنوں وہاں منعقدہ ایک پریس کانفرنس کےدوران ادارے کےنائب صدرڈاکٹر عبداللہ شیخ سےملاقات ہوئی۔ رسمی گفتگو کےبعدانہوں نے گوشۂ بزرگاں کی سیریز پر اپنےتاثرات کااظہار کرتےہوئے کہا کہ بھئی میں اتوار کوبڑی پابندی سے اس کامطالعہ کرتا ہوں۔ مجھےیہ کالم بہت پسندہے۔ بڑی اہم ،قیمتی، دلچسپ اورحیرت انگیز معلومات ملتی ہیں ۔دوران گفتگو انہوں نےان دنوں جاری قسط میں کیلئے مشروط عمر سے متعلق دریافت کیا اور پھرکرلاکے اپنےایک قریبی ہمسایہ اور دیرینہ ساتھی شیخ عبدالصمد کا موبائل نمبر دیتےہوئے کہاکہ اگر ممکن ہوتو انہیں بھی کالم کی زینت بنائیں۔
 متعدد کوششوں کے بعد ایک دن شیخ عبدالصمد سے موبائل پرگفتگو ہوئی ۔اتوار۲۴؍ دسمبر دوپہر۴؍بجے ان کی رہائش گاہ واقع سمراٹ ٹاور، کرسچن ویلیج ، شیتل سنیما، ایل بی ایس روڈ،کرلاپر ملاقات کا وقت طے پایا۔ جائے وقوع پر پہنچنے پر موصوف اپنی عمار ت کے نیچے راقم کے منتظر دکھائی دیئے۔ہم لفٹ سے چوتھی منزل پر پہنچے ،شیخ عبدالصمد کے گھنٹی بجانے پر ایک معمر خاتون نے دروازہ کھولا۔فلیٹ میں داخل ہوتےہی خوبصو رت اور خوش نما ہال کے پُرسکون ماحول نے ہمارا خیرمقدم کیا۔ہال کی صاف ستھری دیواریں مختلف قسم کی زیب وآرائش سےآراستہ تھیں ۔ ایک دیوارپر دلکش پینٹنگ تودوسری دیوار پربنی لکڑی اور شیشے کی الماری سے قیمتی کتابیں جھانک رہی تھیں ۔ ایک دیوار پر شوپیس اور نایاب نوادرات رکھنےکیلئے لکڑی سے بنے فریم پر ۴۔۳؍ انچ کےدائرہ کا انتہائی جاذب نظر اور خوبصورت پنکھارکھا ہوا تھا، جو بیٹری سے بھی چلتا ہے۔ اسی طرح چھوٹی گھوڑا گاڑی، مٹی کی خوبصورت برنی اور ایک گھڑی نما شوپیس سجاہواتھا۔ ہال کا ایک بڑا حصہ خوبصورت صوفوں اور میز سے سجا تھا۔ وسیع اورعریض ہال میں پائی جانےوالی صفائی اس کی سب سے اہم خوبی دکھائی دی۔ایسے خوشگوار اور پُرسکون ماحول میں شیخ عبدالصمد سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک ہونےوالی دلچسپ اور معلوماتی گفتگو کے دوران موصوف کی زندگی سے جڑی متعدد یادوں سے آگاہی کا موقع میسر آیا۔
 شیخ عبدالصمدکی پیدائش ۱۷؍اپریل۱۹۴۳ءکو پونےکےپربتی گائوں میں ہوئی تھی ۔ والدکےمحکمہ ڈاک سے منسلک ہونے کے سبب ان کے تبادلوں کے ساتھ ہی شیخ عبدالصمد کی پڑھائی بھی پونےاور ممبئی کے تعلیمی درسگاہوں میں ہوئی۔ والد کا مکان کرلا کے سی ایس ٹی روڈپر واقع انجمن اسلا م اسکول کے سامنے واحدمنزل میں تھی،اسلئے ان کی ابتدائی تعلیم پائپ روڈ کے اُون والاکمپائونڈ میونسپل اُردو اسکول اور انجمن اسلام کرلا سے ہوئی جبکہ میٹرک کا امتحان انہوں نے پونے،کیمپس کے مولیدینہ اُردو اسکول سےپاس کیا۔ یہیں کے واڈیا کالج سے پہلے سال کی تعلیم پوری کی بعدازیں اسماعیل یوسف کالج جوگیشوری سےانٹرمیڈیٹ کرنےکےبعد کاروباری زندگی سے جڑگئے۔ بعد میں والد کےاصرار پر انہوں نےدوبارہ پڑھائی شروع کی۔ صابوصدیق کالج سےپرنٹنگ ٹیکنالوجی کا ۳؍سالہ کورس ۱۹۷۱ء میں مکمل کیا اور پھر وہیں پر لیکچررکی ملازمت اختیارکرلی۔ بعدازاں ۹؍سال تک لیکچرر کی حیثیت سے اپنی خدمات پیش کیں ۔ ٹیکسٹائل اورکھیل کود کے سامان کے ایکسپورٹ کے علاوہ فرنیچر کے کاروبار کابھی انہیں خاصا تجربہ رہا ہے۔ اس دوران سماجی اور تعلیمی سرگرمیوں سےبھی جڑے رہے۔ ان کا شمار صابوصدیق کے اولڈ اسٹوڈنٹ اسوسی ایشن (اوسا) کے بنیادی اراکین میں ہوتا ہے۔ان دنوں موجودہ صدر کی حیثیت سے تنظیم کی رہنمائی فرما رہےہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:۱۹۶۰ء میں جب ممبئی آیا تودادراسٹیشن پرٹرین سےاُترکررانی باغ تک سامان کابوجھ اٹھاتےہوئے پیدل گیا تھا

شیخ عبدالصمد کو اپنی اسکولی زندگی کا ایک سبق آموز واقعہ اب بھی یاد ہے۔ وہ دسویں جماعت میں زیرتعلیم تھے۔ پونے کے مولدینہ اُرود اسکول کے جس کمرے میں وہ پڑھائی کرتے تھے،اس کی کھڑکی سے ایک سنیماہال کے عقب کاحصہ متصل تھا۔ وہاں سے شائقین فلم دیکھنے کے بعدلوٹتے تھے۔ ایک روز ایک ہم جماعت دوست کی صدپر شیخ عبدالصمد بھی اسکول کےاوقات میں اس کےساتھ فلم دیکھنے چلے گئے۔چونکہ پڑھائی کےمعاملےمیں ان کا پرفارمینس بہت اچھا تھا اورو ہ جماعت میں ہمیشہ اوّل یادُوم آتے تھے،اسلئے وہ اساتذہ کے چہیتے بھی تھے۔ اسکول کےوقت فلم دیکھنےجانے اور اساتذہ کے دیکھ لینے کا خوف ان پر طاری تھا، اس کے باوجود وہ بہکاوے میں آکر فلم دیکھنے چلے گئے ۔ فلم چھوٹنے کے بعد جب وہ ہال سے باہر نکل رہےتھے ، مذکورہ کمرہ میں موجود قاضی سر نے انہیں دیکھ کر کمرے کے کھڑکی بند کردی تھی ۔ اس وقت انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ دوسرے دن قاضی سر نے عبدالصمد کی جو خبرگیری کی ،وہ انہیں اب بھی یاد ہے۔ ان کا کہناہے کہ وہ سبق اب بھی انہیں غلط کاموں سے روکتاہے۔ وہ قاضی سر کے ممنون ہیں ، جنہوں نے بروقت ان کی رہنمائی کی، ورنہ اس طرح کی دیگر برائیاں ان میں پیدا ہوسکتی تھیں ۔
 عبدالصمد کے بچپن میں کرلا،سی ایس ٹی روڈ سے آگرہ روڈ (موجودہ ایل بی ایس مارگ) تک محدود تھا۔اس کےبعد کھاڑی کا سلسلہ دراز تھا۔ گرمی کے دنوں میں کھاڑی کا پانی سوکھ کر پپڑی بن جاتا تھا۔ مقامی بچے ان پپڑیوں کو اُکھاڑ کراس جگہ کو میدان میں تبدیل کرکے وہاں پر گُلی ڈنڈا کھیلاکرتےتھے۔ عبدالصمد اپنے اسکولی ساتھیوں کے ساتھ اکثریہاں گُلی ڈنڈا کھیلنے آتے تھے۔ کھاڑی کا یہ پورا علاقہ آج ایک بڑے کاروباری علاقےمیں تبدیل ہوگیاہے۔ ایک انچ بھی خالی جگہ نہیں دکھائی دیتی ہے۔ پوری جگہ پر کاروباریوں کا قبضہ ہے۔ یہ دیکھ کر انہیں بڑی حیرت ہوتی ہےکہ کیا سےکیاہوگیاہے۔ 
پائپ روڈ کےاسکولی دوستوں کے گروپ کی سرگرمیوں سے جڑی ایک یاد عبدالصمد اب بھی نہیں بھولے ہیں ۔ ان کے ایک قریبی دوست عبدالعزیزانجینئر کا گھرپائپ روڈ پر لب سڑک تھا جس کے ۲؍کمرے خالی ہوا کرتے تھے۔ یہیں دوستوں کی منڈلی بیٹھتی تھی۔ اسی گھر سے متصل ایک چھوٹے سے میدان میں دوستوں کایہ گروپ شام کو والی بال کھیلتا تھا جس پر علاقےکےکچھ لوگوں کو اعتراض تھا۔ ایک دن ان لوگوں نے اچانک دوستوں کےگروپ پر حملہ کردیا۔ چونکہ عبدالصمد کے دوستوں میں بیشتر شریف اور لڑائی جھگڑے سے دوررہنےوالے تھے،اسلئے آدھے سے زیادہ دوست لڑائی سے دور رہے لیکن انہیں میں سعید اور شبیر نامی جڑواں بھائی لڑائی جھگڑے سے نہیں ڈرتےتھے۔ ان بھائیوں نے حملہ آوروں کا مقابلہ کیا۔ سب کو میدان سے مار کر بھگایا جس پر عبدالصمد اور ان دوستوں کو شرمندگی ہوئی ۔ان لوگوں نےسوچاکہ ہمیں بھی سعید اور شبیر کا ساتھ دینا چاہئے تھا ۔ اتنا شریف ہونا بھی ٹھیک نہیں کہ لوگ آکر مار کر چلے جائیں اور ہم منہ تکتے رہ جائیں ۔ اس کےبعد ان لوگوں نے اسی میدان میں لاٹھی، ڈنڈاچلانےکےعلاوہ کشتی وغیرہ کی تربیت لینی شروع کی تھی۔
 عبدالصمد نے ۷۰۔۶۰ء کی دہائی میں ہونےوالے الیکشن میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا۔ اس دور میں اُمیدوار وں کیلئے چلائی جانےوالی الیکشن مہم بڑی دلچسپ ہواکرتی تھی۔ موٹر گاڑیو ں پرلاؤڈاسپیکر باندھ کر اُمیدواروں کی تشہیر کی جاتی تھی۔ میونسپل الیکشن میں پائپ روڈ کےپٹھان نامی ایک شخص کانگریس پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے تھے۔ا ن کی حمایت میں پائپ روڈ کے معروف شاعر وادیب الیکشن مہم میں حصہ لیا کرتےتھے۔ وہ لائوڈ اسپیکرسے اعلانات کرتےتھے۔ تشہیر میں اُردو شعر وشاعری کا استعمال خوب ہوتاتھا۔ مخالف پارٹی کے اُمیدوار پر مہذب انداز میں طنز ومزاح بھرا حملہ بھی کیا جاتا تھا ۔ عبدلصمد کے ایک ہم نام شاعر اس کام کیلئے بہت مقبول تھے۔ 
 عبدالصمد کاگروپ روزانہ مغرب کی نماز پڑھ کر سنسار ہوٹل جاتاتھا۔ وہاں کی چائے کانشہ ہی کچھ الگ تھا۔ ایک مرتبہ جو وہاں چائے پی لیتا وہ پھر کہیں اور چائے پینا پسند نہیں کرتا تھا۔ بڑی ہوٹل ہونے کی وجہ سے وہاں ایک وقت میں کافی لوگ بیٹھے سکتےتھے۔ ہوٹل میں داخل ہوتے ہی وہاں سبھی مانوس اور وہ روزانہ دکھائی دینےوالے چہرے نظر آتے جن میں بیشتر شاعرو ادیب ہوتے تھے۔ وہاں سب ایک دوسرے کا کلام سنتے اور اس پر بحث ومباحثہ کرتے جس کی وجہ سے وہ ہوٹل نہ ہوکر ایک ادبی مرکز معلوم ہوتا تھا۔ عبدالصمدنے وہاں پر جن شعرائے کرام اور ادیبوں کو باربار دیکھا ہے، ا ن میں ندا فاضلی، ظفر گورکھپوری ، قیصر الجعفری ، محمود درانی، ابراہیم نذیر، سلام بن رزاق اورسلطان شعلہ وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK