Inquilab Logo

’’مجھے ڈر ہےکہ یتیم فلسطینی بچے کل ہم سے انتقام لینے نہ اُٹھ کھڑے ہوں ‘‘

Updated: May 02, 2024, 11:48 AM IST | washington

غزہ جنگ پر امریکہ کی پالیسی کے خلاف گزشتہ ہفتے احتجاجاً بائیڈن انتظامیہ سے استعفیٰ دینے والی سفارتکار ہا لا رہریت نے بتایا کہ’’میں نے غزہ کی صورتحال پر انٹرویو دینا بند کردیا تھا، کیونکہ جو نکات مجھے دئیے جاتے تھے وہ فلسطینیوں کے خلاف ہوتے تھے، میں ان پر بات کرتی تو لوگ ٹی وی پر جوتے مارتے، میں امریکہ سے مزید نفرت کی وجہ نہیں بننا چاہتی تھی ‘‘۔

American diplomat Hala Rahrrit. Photo: INN.
امریکی سفارتکار ہالا رہریت۔ تصویر: آئی این این۔

امریکی سفارتکار ہالا رہریت نے گزشتہ دنوں امریکی محکمہ خارجہ میں عربی زبان کی ترجمان کےاپنے عہدے سے غزہ جنگ کی وجہ سے استعفیٰ  دے دیا تھا۔ انہوں نے استعفیٰ دینے کی وجہ اب بتائی ہے۔ غزہ جنگ سے متعلق امریکہ کی پالیسی کے خلاف احتجاجاً  انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اب انہوں نے اپنے استعفے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا ہےکہ میں امریکہ سے کسی کے مزید نفرت کرنے کی وجہ نہیں بننا چاہتی۔ ہالا رہاریت نے امریکی محکمہ خارجہ کی ملازمت سے پچھلے ہفتے استعفیٰ دے دیا تھا، مستعفی ہونے سے پہلے وہ دبئی میں امریکی سفارتکار تھیں۔ 
ہالا رہریت۱۸؍ برس سے امریکی محکمہ خارجہ سے وابستہ تھیں اور عربی زبان کی ترجمان تھیں۔ انہوں نے دوران ملازمت شہرت حاصل کرنے سے ہمیشہ گریز کیا۔ مستعفی امریکی سفارتکار نے اپنے بیان میں کہا کہ اکتوبر سے میں نے غزہ صورتحال پر انٹرویو دینا بند کردیا تھا، کیوں کہ محکمہ خارجہ کی جانب سے غزہ پر جن نکات پر بات کرنے کی ہدایت دی جاتی تھی وہ اشتعال انگیز تھے۔ ہالا رہریت کا کہنا تھا کہ محکمہ خارجہ کی جو نکات طے کئے جاتے تھے وہ فلسطینیوں کے خلاف تھے اور ان میں فلسطینیوں کی حالت زار کا ذکر نہیں ہوتا تھا۔ 
ان کا کہنا تھا کہ’’ محکمہ خارجہ کے نکات پر بات کرتی تو لوگ ٹی وی پر جوتے پھینک کر مارتے، امریکی پرچم جلاتے اور یہ کہتے کہ امریکی فوج پر راکٹ داغے جائیں ، میں امریکہ سے مزید نفرت کی وجہ نہیں بننا چاہتی تھی۔ ‘‘انہوں نے کہا ’’ مجھے ڈر ہے کہ یتیم فلسطینی بچے کل کو ہتھیار اٹھاکر ہم سے انتقام لینے نہ اٹھ کھڑے ہوں، ہم پوری نسل کو انتقام پر اکسا رہے ہیں، یہ اسرائیلیوں کو بھی محفوظ نہیں بناتا۔ ‘‘ہالا رہریت نے یہ بھی کہا کہ’’ میں عرب میڈیا میں وائرل ہونے والے شہید فلسطینی بچوں کے ویڈیوز دیکھتی رہی، زیادہ المناک یہ تھا کہ اموات کے باوجود ہم مزید اسلحہ اسرائیل بھیج رہے تھے، یہ پاگل پن ہے، ہمیں اسلحہ کی نہیں سفارتکاری کی ضرورت ہے۔ محکمہ خارجہ میں اہلکار غزہ پالیسی کی مخالفت میں بولنے سے خوفزدہ تھے، شاید وزیر خارجہ کے سوا محکمے میں کوئی بھی غزہ پالیسی تبدیل نہیں کرسکتا تھا۔ ‘‘
انہوں نے کہا کہ’’ خوف کے سبب محکمہ خارجہ میں لوگ یہ نہیں جانتے کہ ہر دوسرا شخص غزہ پر کیا سوچتا ہے، محکمہ خارجہ میں لوگ غزہ کا ذکر کرنے سے گریز کرتے ہیں، محکمہ میں لوگ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں غزہ میں کچھ نہیں ہورہا ہے۔ عرب امریکی ہونے کی وجہ سے محکمہ خارجہ میں لوگوں کا مجھ سے برتاؤ مختلف تھا، لوگوں کے برتاؤ نے مجھے شدید ناراض کردیا تھا۔ غزہ تنازع پر یہ پہلی بار حیران کن اور منجمد کرنیوالی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK