• Sun, 21 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’طالب علمی میں والد صاحب کے بھیجے ۲؍ روپے سے مہینے بھر گزارا ہوجاتا تھا‘‘

Updated: September 21, 2025, 2:45 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

ناگپاڑ ہ، مستان تالاب پر واقع تاریخی سنگتراشان مسجد کے ۸۵؍سالہ خطیب و امام محمد نور الہدیٰ اشرفی مصباحی گزشتہ ۴۵؍سال سے مینارہ مسجد میں واقع دارالعلوم محمدیہ میں بھی بحیثیت مدرس اور لائبریرین اپنی خدمات پیش کررہے ہیں۔

Muhammad Noorul Huda Ashrafi Misbah. Photo: INN
محمد نور الہدیٰ اشرفی مصباحی۔ تصویر: آئی این این

ناگپاڑ ہ، ڈمٹمکر روڈ، مستان تالاب پر واقع تاریخی سنگتراشان مسجد کے ۸۵؍سالہ خطیب و امام محمد نور الہدیٰ اشرفی مصباحی کی پیدائش یکم جنوری ۱۹۴۱ءکو اُترپرددیش کے ضلع دیوریا، کے ایک گائوں رودُرپورمیں ہوئی تھی۔ ان کے گائوں میں ایک ہی مسجد ومدرسہ تھا۔ اسی مدرسہ میں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ مکتب کی پڑھائی کی تکمیل کے بعد حفظ اور درس نظامی کا مکمل کورس مبارکپور کے مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم سے کیا۔ انہیں طالب علمی کے زمانے ہی سے معروف عالم دین حضور اشرف العلماء مولانا سید حامد اشرف کی سرپرستی حاصل رہی۔ ذریعہ معاش کی تلاش میں ۱۹۶۹ء میں ممبئی تشریف لائے۔ یہاں بھی مولانا حامد اشرف کی ایماء پر سب سے پہلے کری روڈ پر واقع بائولا مسجد کے دارالعلوم محمد یہ میں بحیثیت ناظم اعلیٰ اور مدرس اپنی خدمات پیش کیں۔ بعدازیں بھیونڈی کے غوری پاڑہ کے ایک متمول خانوادہ کے مدرسہ میں تدریسی فرائض انجام دیئے۔ اس کے بعد اشرفیہ خانقاہ مالیگائوں میں ۹؍سال تک طلباء کو پڑھایا۔ ۱۹۸۰ء میں مالیگائوں سے دوبارہ ممبئی منتقل ہوئے۔ اس وقت سے سنگترا شان مسجد میں خطیب وامام کی ذمہ داری کےساتھ مینارہ مسجد میں واقع دارالعلوم محمدیہ کے مرکزی شاخ میں تدریس اور لائبریرین کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ 
خطیب وامام محمد نور الہدیٰ اشرفی کے والد محترم محمداکبر علی انصاری اپنے گائوں کے پردھان تھے لیکن ایمانداری اور نیک نیتی کا یہ عالم تھا کہ پردھان ہونے کےباوجود انہوں نے اہل خانہ کی کفالت محنت کش مزدور کی حیثیت سے کی۔ جس زمانے میں محمد نور الہدیٰ مبارکپور میں تعلیم حاصل کر رہےتھے۔ ہر مہینے انہیں تیل، صابن اوردیگر ضروریات کیلئے ۲؍روپے منی آرڈر کے ذریعے روانہ کرتے تھے۔ محمد نور الہدیٰ اس ۲؍روپے میں پورے مہینے کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ہی کچھ روپے بچا بھی لیا کرتے تھے۔ کوشش ہوتی تھی کہ ۲؍روپے میں سے کچھ پیسے ہنگامی حالت کیلئے بھی محفوظ رکھا جائے۔ والد کی جانب سے روانہ کئے جانے والے ۲؍روپے کا انہیں شدت سے انتظار رہتا تھا۔ اس کی اہمیت کے وہ اب بھی قائل ہیں ۔ 
ملک کی آزادی اور تقسیم کے وقت ان کی عمر تقریباً ۷۔ ۸؍ سال تھی۔ والد کے نامی گرامی ہونے کی وجہ سے انہیں مسلم لیگ کا مقامی صدر بنایا گیا تھا۔ تقسیم کے وقت پولیس والے گھرگھر کی تلاشی لے رہے تھے تاکہ کسی گھر میں ہتھیار یا اسلحہ وغیرہ ہوں تو انہیں ضبط کیا جاسکے۔ والد کے پردھان ہونےکےباوجود، پولیس والے ان کے گھر کی تلاشی لینے آئے تھے۔ اس وقت محمد نور الہدیٰ کی والدہ، انہیں اپنے ساتھ لے کر گھر کے آنگن کے ایک گوشے میں کھڑی تھیں۔ پولیس والوں کی دہشت اور خوف سے پورے علاقے میں سراسیمگی پھیلی ہوئی تھی۔ پولیس اہلکاروں نے پورے گھر کی تلاشی لی لیکن ان کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ ان کے خالی ہاتھ لوٹ جانے کے بعد ماں نے اپنے بیٹے کو خود سے علاحدہ کیا اور سمجھایا کہ پولیس اہلکار یوں ہی تلاشی لینے آئے تھے۔ 
ایک مرتبہ ان کے گائوں میں طاعون کی وباء پھیلی ہوئی تھی۔ ا س وقت محمد نور الہدیٰ بہت چھوٹے تھے۔ ان کی والدہ نے انہیں بتایا تھا کہ ’’طاعون کے زمانےمیں گھروں میں رہنا غیر محفوظ سمجھاجاتاتھا۔ وباء کے دوران گھروں میں چوہوں کے مرنے سے خوف کا ماحول پیدا ہوجا تا تھا، جس کی وجہ سے لوگ گھر چھوڑ کر باغیچوں میں پناہ لیتے تھے۔ طاعون کی وجہ سے متعدد اموات ہو رہی تھیں۔ گائوں سے ایک جنازہ جاتا، دوسرا تیار رہتا، جس کی وجہ سے لوگوں میں دہشت بیٹھ گئی تھی۔ میں بھی تمہیں لے کر کئی دنوں تک باغیچہ میں رہی تھی۔ لوگ ایک دوسرے سے ملنے کیلئے کتراتے تھے۔ بہت ہی خوف و دہشت کا ماحول تھا۔ ‘‘
۱۹۷۰ء میں ہونے والے فرقہ وارانہ فساد سے بھیونڈی اور ممبئی کے علاوہ مہاراشٹر کے دیگر اضلاع بھی بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ اس دوران محمد نورالہدیٰ بائولامسجد کےمدرسے میں اپنی خدما ت انجام دے رہےتھے۔ چونکہ مسلمانوں کیلئے یہ علاقہ غیر محفوظ تھا، اسلئے مسجدکے ٹرسٹیان کی ایماء پریہاں کے تقریباً ۸۰؍طلباء کے ساتھ انہیں کرافورڈ مارکیٹ کے مسافرخانہ میں منتقل کردیاگیاتھا جہاں ۶؍ماہ تک طلبا ء کے قیام وطعام کے ساتھ ان کی پڑھائی کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔ اس دوران فساد متاثرین کیلئے مسافر خانہ میں راحتی کیمپ کا نظم بھی کیا گیاتھا۔ یہاں سیکڑوں متاثرین قیام پزیر تھے۔ ان کے کھانے پینے کا انتظام مسلمانان ِ ممبئی، بالخصوص حاجی مستان مرزا اوریوسف پٹیل وغیرہ نے کیاتھا۔ 
محمد نور الہدیٰ گزشتہ ۴۵؍سال سےمسجد سنگتراشان میں خطیب و امام کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ اس دوران محلے کے احباب اور مخلصین نے انہیں جو عزت، محبت اور احترام وادب سے نوازا ہے، وہ اس بات کی ستائش کرتے ہیں۔ آج بھی یہاں کے لوگ بڑی عزت دیتے ہیں لیکن وقت کےساتھ والدین کی جانب سے بچوں کی تعلیم و تربیت میں آنے والے فرق سےکچھ روایتیں ضرور بدلی ہیں جن پر وہ توجہ دینے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ 
مسجدسنگتراشان کی امامت کے علاوہ محمد نور الہدیٰ گزشتہ ۴۵؍سال سے مستان تالاب گرائونڈپر عیدالفطراور عیدالضحیٰ کی نماز یں پڑھانے کی ذمہ داری بھی ادا کر رہے ہیں۔ پہلے ان مواقع پر مقامی پولیس افسران نماز کے بعد انہیں گلہائے تحسین پیش کرتےتھے۔ جواب میں محمد نور الہدیٰ افسران کے سروں پر ہاتھ پھیر کرانہیں کامیابی وترقی کی دعائوں سے نوازتےتھے۔ اب یہ روایت برقرار نہیں رہی۔ 
محمدنورالہدیٰ نے تنگدستی اور غربت کےدور کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ جس وقت وہ مکتب میں زیر تعلیم تھے، ایک دن انہیں شدید بھوک لگی تھی۔ اُس وقت ان کی جیب میں ایک آنا بھی نہیں تھا۔ گھر گئے تو ماں نے کہا کہ بیٹا کھانا بنانا ہے، بغل میں چاچا کےگھر سے جاکر ۲؍پیاز لے آئو تاکہ کھانا پکاکر تم لوگوں کو دے دوں۔ حالانکہ بھوک سے ان کی حالت غیر تھی، انہوں نے والدہ سے کچھ نہیں کہا، لیکن چاچا کےگھر جاتے وقت راستے میں سوچ لیا تھاکہ ماں نے ۲؍پیاز لانے کو کہا ہے لیکن میں ان سے ۳؍ پیاز طلب کروں گا تاکہ ۲؍پیازوالدہ کو دے سکوں اورایک پیاز سے اپنی بھوک مٹا لوں۔ چاچا کے گھر پہنچ کر پیاز طلب کئے تو پتہ چلا کہ ان کےگھر بھی پیاز نہیں ہے۔ بہت مایوس ہوئے۔ کسی طرح گھر آئے اور ماں سے پورا ماجرہ بیان کیا۔ پورا دن بھوک کےعالم میں گزر گیا۔ رات کو ماں نے کسی طرح کھانا پکا یا تب جاکر انہوں نے کھانا کھایا۔ اس دن کو یاد کر کے وہ آج بھی مغموم ہو جاتے ہیں۔ 
تقریباً ۳۰۔ ۳۵؍سال قبل ایک بار پھر زلزلہ آیا تھا۔ زلزلے کا مرکز حالانکہ گجرات تھا، لیکن اس کا اثر ممبئی تک بھی پہنچا تھا۔ فجر کی نماز پڑھا کر وہ مسجد کے بالائی منزل پر موجود تھے۔ اچانک فرش کے ہلنے کا احساس ہوا۔ انہوں نے فوراً دیوار پر ہاتھ رکھا، تو محسوس کیا کہ وہ بھی ہل رہی تھی۔ مسجد سے باہر آکر دیکھاتو لوگ افراتفری کے ماحول میں ادھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ گھروں سے برتنوں کے گرنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ لوگ ایک دوسرے کو زلزلہ آنے کی اطلاع دے رہے تھے۔ خوف وہراس کے عالم میں لوگ جان بچانےکیلئے بھاگ دوڑ کر رہے تھے لیکن کچھ ہی لمحوں میں کیفیت کے معمول پر آجانے سے لوگوں کو راحت ملی تھی۔ وہ دیکھ کرقیامت کا منظر یاد آنے لگا کہ آج یہ عالم ہے تو اُس وقت کیا ہوگا؟
محمد نور الہدیٰ کو آج اور ۱۹۶۹ء کی ممبئی میں بڑا فرق دکھائی دیتاہے۔ اس دور میں ممبئی اتنی وسیع نہیں تھی۔ اس دور میں ممبئی میں بڑی بھائی چارگی تھی۔ مسلمان اوربرادران وطن مل جل کر رہتے تھے، ایک دوسرے سے ہمدردی اور ایک دوسرے کی مددبھی کیاکرتےتھے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK