• Sun, 21 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

غیر اردو اخبارات میں وقف قانون اور پولیس جانبداری پر عدالتی ریمارکس نمایاں رہے

Updated: September 21, 2025, 2:49 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

اس ہفتے بیشترغیر اُردو اخبارات نے قطرپر اسرائیلی حملہ، وقف قانون سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ، اکولہ فساد سے متعلق پولیس کی جانب داری پر سپریم کورٹ کاتبصرہ، بلدیاتی انتخابات کی نئی ڈیڈ لائن، وزیر اعظم مودی کا منی پور دورہ اور نیپال کے تازہ حالات پر اداریے اور مضامین لکھے ہیں۔ ذ

Whether the riots are sectarian or racial, the police`s behavior is often suspicious. Photo: INN
فسادات فرقہ وارانہ ہوں یا نسل پرستانہ، اس میں اکثر پولیس کا رویہ مشکوک رہتا ہے۔ تصویر: آئی این این

اس ہفتے بیشترغیر اُردو اخبارات نے قطرپر اسرائیلی حملہ، وقف قانون سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ، اکولہ فساد سے متعلق پولیس کی جانب داری پر سپریم کورٹ کاتبصرہ، بلدیاتی انتخابات کی نئی ڈیڈ لائن، وزیر اعظم مودی کا منی پور دورہ اور نیپال کے تازہ حالات پر اداریے اور مضامین لکھے ہیں۔ ذیل میں چند منتخب اخبارات کے اداریوں کاتراجم پیش ہیں۔ 
وقف سے متعلق عدالتی فیصلہ خوش آئند ہے
دی انڈین ایکسپریس( انگریزی، ۱۶؍ستمبر)
’’وقف ایکٹ میں متنازع ترامیم کے کچھ پہلوؤں پر روک لگا تے ہوئے سپریم کورٹ نے ایک اہم عبوری حکم سنایا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی کی بنچ نے ان دفعات کو روک دیا جس میں ضلع کلکٹروں کو وقف املاک پر وسیع اختیارات دیئے گئے تھے، ساتھ ہی بورڈ میں ان غیر مسلموں کی تعداد کو بھی محدود کردیا۔ سپریم کورٹ نے اس شرط پر بھی پابندی عائد کر دی جس میں کہا گیا تھا کہ صرف وہی لوگ وقف کے حق دار ہوں گے جو کم از کم پانچ سال تک اسلام پر عمل پیرا ہوں۔ یہ عبوری حکم اس وقت تک نافذ العمل رہے گا جب تک سپریم کورٹ کا ایک تفصیلی آئینی بنچ پورے معاملے کی سماعت نہیں کرلیتا۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کا مقصد تمام فریقین کے مفادات کا تحفظ اورمساوات میں توازن پیدا کرنا ہے۔ ۲۰۲۴ء میں وقف قانون متعارف کروایا گیا تھا اور اسےجے پی سی کے پاس بھیجا گیا تھاتاہم جے پی سی میں اپوزیشن کے تمام اعتراضات کو مسترد کردیاگیا تھا۔ چونکہ حکومت کے پاس مطلوبہ اراکین پارلیمنٹ کی تعداد تھی اسلئے یہ متنازع وقف ایکٹ باآسانی پاس کرلیا گیا۔ اس قانون میں کئی شقوں پر اختلاف تھا۔ مثلاً اگر کوئی ضلع کلکٹر وقف کی زمین کو سرکاری اراضی کے طور پر شناخت کرتا ہے تو وقف بورڈ اس املاک پر اپنا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ اب ضلع کلکٹر کا فیصلہ اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک کہ کوئی عدالت متنازع زمین پر فیصلہ نہیں دے دیتی ہے۔ ‘‘
سپریم کورٹ نے حکومت کی کوششوں کو ناکام بنا دیا 
لوک مت( مراٹھی، ۱۶؍ستمبر)
’’سپریم کورٹ نے نئے وقف ایکٹ کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر عبوری حکم دیتے ہوئے ان کے کچھ اعتراضات کو مسترد کردیا ہے۔ اس نے کچھ اہم دفعات پر روک لگا کر شہریوں کی مذہبی آزادی میں مداخلت کرنے کی حکومت کی کوشش کو ناکام بنا دیا ہے۔ جن پانچ دفعات کو معطل کیا گیا ہے ان میں وقف کو عطیہ کون دے سکتا ہے، کون سی جائیداد وقف ہے اور کون سی نہیں، ریونیو ریکارڈ میں تبدیلی کا حق کس کو ہے اور قومی سطح کی وقف کونسل اور ریاستی سطح کے بورڈز میں غیر مسلموں کی تقرری شامل ہے۔ نئے قانون میں کہا گیا ہے کہ صرف وہی شخص وقف کرسکتا ہے جو کم از کم پانچ سال تک اسلام پر عمل پیرا ہو۔ یعنی حکومت نے یہ حق خود ہی حاصل کرلیا کہ کون کس مذہب پر اور کتنے سال سے مانتا ہے۔ عدالت نے اس دفعہ کو معطل کرکے حکومت کو جھٹکا دیا ہے۔ نئے قانون میں وقف املاک سے متعلق ضلع کلکٹروں کو لامحدود اختیارات دیئے گئے ہیں۔ عدالت نے اس کوشش پر بھی قدغن لگایا ہے۔ اسلام میں وقف کا مطلب مذہب کیلئے دیا جانے والا ہے عطیہ جس کی کافی اہمیت ہے۔ اس کے پیچھے سماجی تشکر کا جذبہ کارفرما ہے۔ وقف کے عطیات کبھی واپس نہیں لئے جاسکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وقف کی املاک میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس وقت ملک میں وقف کے پاس ۳۹؍ لاکھ ایکڑ اراضی ہے۔ ‘‘
اکولہ فساد کی جانچ میں پولیس کی سرزنش
نوشکتی( مراٹھی، ۱۶؍ستمبر)
’’معاشرے میں نقض امن کا خطرہ ہونے پر پولیس کی مداخلت ضروری ہوتی ہے۔ اس وقت پولیس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بغیر کسی امتیاز، تعصب یا دباؤ کے متاثرین کے حق میں اپنا اختیار استعمال کرے۔ ایسے میں پولیس کو مذہب، ذات سے متعلق کسی بھی طرح کی جانب داری سے اجتناب برتنا اشد ضروری ہے، لیکن اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ہوسکتی ہے کہ محکمہ پولیس میں بہت سے لوگ اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ جب فرقہ وارانہ فسادات کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اکثر پولیس کے کام کاج پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ کسی خاص فرقے یا گروہ سے متعلق تعصب کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ پولیس کی وردی پہنے ہوئے افسر کو ہر حال میں انصاف کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئےاور قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے فرائض انجام دینا چا ہئے، لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ عدالتوں کو مداخلت کرنی پڑتی ہے اور پولیس کو ان کا فرض یاد دلانا پڑتا ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے اکولہ میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کی جانچ میں جانبداری اور لاپروائی برتنے پر پولیس کی سرزنش کی۔ عدالت نے اپنے فرائض سے غفلت برتنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائی کا حکم دیتے ہوئے درخواست گزار کے الزامات کی ایف آئی آر درج کرنے اور جانچ کا حکم دیا۔ خصوصی تحقیقاتی ٹیم میں ہندو اورمسلم کے سینئر پولیس افسران کو شامل کرنے کی ہدایت بھی دی۔ عدالت نے حکم نامے میں یہ بھی کہا کہ غیر جانبداری پولیس کا اصل فرض ہے۔ ‘‘
موت کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے
لوک مت سماچار( ہندی، ۱۷ ؍ستمبر)
’’محض ۲۷؍ سال کی عمر میں میوری پنگھرے نے خودکشی کرلی۔ آپ اسے نہیں جانتے، کیونکہ وہ مکمل طور پر نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کا شوہر کسی بیماری میں مبتلا تھااور درد کی ناقابل بیان تکلیف سے گزررہا تھا۔ کسی بھی بیوی کیلئے مشکل ہوگا کہ وہ اپنے شوہر کو تکلیف میں مبتلا دیکھے۔ میوری کے گھر میں جو کچھ بھی پیسے تھے، وہ سب علاج میں خرچ ہوچکے تھے۔ جب دوبارہ شوہر کو تکلیف ہوئی تو وہ اپنے شوہر کو لے کر اسپتال پہنچی جہاں اسے اسپتال میں داخل کرلیا گیا۔ میوری کے سامنے سب سے بڑا سوال تھا کہ اسپتال کا جو بل آئے گا، وہ اسے کیسے ادا کرے گی؟ بس اسی پریشانی کے عالم میں میوری نے اسپتال کے ایک کمرے میں پھانسی لگا لی۔ غربت کا سامنا کرنے والے خاندان کیلئے بعض اوقات ایسے حالات بن جاتے ہیں کہ موت ہی سب سے آسان’ `علاج‘ لگتا ہے۔ قرض میں ڈوبے کسانوں کی خودکشی بھی اسی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ موت کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے، لیکن ملک میں اس طرح کے حالات سے روزانہ سابقہ پڑتا ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK