• Sun, 21 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

معاشیانہ: برن آؤٹ، ڈجیٹل ڈیٹاکس؛ ایک مسئلہ، دوسرا کاروبار کا موقع

Updated: September 21, 2025, 2:47 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

ہندوستان میں چند برس پہلے تک ’ڈجیٹل ڈِیٹاکس‘ ایک غیرمعروف اور اجنبی اصطلاح تھی، لیکن آج یہ بڑے شہروں کے متمول طبقے کیلئےایک فیشن اور اسٹیٹس سمبل بنتا جا رہا ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

اس کالم نے اپنے ۲۰۰؍ہفتے مکمل کرلئے ہیں۔ اس مدت میں ۲۰۰؍ مختلف موضوعات کا احاطہ کیا گیا۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو مجھے ذاتی طور پر پسند آئے اور ان کے مطالعے سے قارئین کی معلومات میں یقیناً اضافہ ہوا ہوگا۔ وہ موضوعات یہ ہیں : اے آئی سے لیس سرچ انجن سے ایک سوال!، فیک ویڈنگ کا بڑھتا کاروبار، فریمیم : لینگویج لرننگ شعبے کا کامیاب بزنس ماڈل!، زومیٹو/سویگی سے پارسل آیا ہے! لیکن آپ نے کیا قیمت ادا کی؟، ’ڈائن آؤٹ‘ سے ’آن لائن گیمنگ‘؛ ہندوستانیوں کے خرچ کا بدلتا انداز، اور اینٹی ایجنگ سیکٹر؛ حقیقی دنیا میں وسیع ہوتی بناوٹی دنیا! قارئین کی خدمت میں پیش ہے ۲۰۱؍ واں کالم:
زہریلے یا غیر صحت بخش مادوں سے پرہیز، یا، جسم سے، یا، دل و دماغ سے غیر صحت بخش چیزوں کو دور رکھنا ’’ڈیٹاکس‘‘ کہلاتا ہے۔ اس عمل میں انسان پریشان کرنے والی چیزوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ 
ہندوستان میں انٹرنیٹ اور اسمارٹ فونز کی آسان اور تیز رسائی کا ثبوت یہ ہے کہ ملک میں ۸۵؍ کروڑ سے زائد صارفین ہر منٹ آن لائن رہتے ہیں۔ یہ تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہماری زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں اسکرین (اسمارٹ فون، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ) کا عمل دخل بڑھ چکا ہے۔ کام، تعلیم، تفریح اور سماجی تعلقات سبھی موبائل فون اور انٹرنیٹ پر منحصر ہو گئے ہیں۔ لیکن یہ سہولتیں جہاں آسانی لا رہی ہیں، وہیں ایک نئے مسئلے کو بھی جنم دے رہی ہیں، جن میں ذہنی دباؤ، نیند کی کمی، اور تعلقات میں سرد مہری قابل ذکر ہیں۔ انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے اس لئے اسے کچھ وقت کے بعد احساس ہوجاتا ہے کہ وہ راہ سے بھٹک گیا ہے، اور پھر ان تکلیف دوہ چیزوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تگ و دو کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہندوستان میں ’’ڈجیٹل ڈِیٹاکس‘‘ نہ صرف لائف اسٹائل کا حصہ بن گیا ہے بلکہ ایک ابھرتا ہوا کاروبار بھی بنتا جا رہا ہے۔ 
چند برس پہلے تک ’’ڈجیٹل ڈِیٹاکس‘‘ ایک غیرمعروف اور اجنبی اصطلاح تھی، لیکن آج یہ بڑے شہروں کے متمول طبقے کیلئےایک فیشن اور اسٹیٹس سمبل بنتا جا رہا ہے۔ دہلی، ممبئی اور بنگلور کے پروفیشنلز، جو دن رات لیپ ٹاپ اور موبائل کے ساتھ جڑے رہتے ہیں، ویک اینڈ پر گوا یا ہماچل کے ایسے ریزورٹس کا رخ کر رہے ہیں جہاں فون جمع کروا لئے جاتے ہیں اور نیٹ ورک بند کر دیا جاتا ہے۔ یہاں یوگا، میڈیٹیشن، اور سادہ کھانے اور فطرت کے ساتھ وقت گزارنا پیکیج کا حصہ ہوتا ہے۔ اور یہ پیکیج کم سے کم ۵۰؍ ہزار اور زیادہ سے زیادہ ۲؍ لاکھ روپے کے درمیان ہوتے ہیں۔ یعنی عام صارف کی پہنچ سے باہر، لیکن متمول طبقے کیلئے یہ ’’ڈس کنیکٹ‘‘ فخر کی علامت بن گیا ہے۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ رجحان صرف ریزورٹس تک محدود نہیں۔ کاروباری دنیا نے اس ضرورت کو مختلف ماڈلز میں ڈھالا ہے جیسے؛ 
(۱) ڈجیٹل فری ٹورزم: ٹریول ایجنسیاں کیمپنگ اور ایڈونچر ٹورز بیچ رہی ہیں جہاں انٹرنیٹ بالکل نہیں ہوتا۔ 
(۲) کارپوریٹ پیکیجز: کئی کمپنیاں ملازمین کیلئے ہفتہ وار ڈجیٹل ڈِیٹاکس ورکشاپس کرواتی ہیں تاکہ کارکردگی بہتر ہو۔ 
(۳) ایپس اور کوچنگ: دلچسپ پہلو یہ ہے کہ خود ٹیک کمپنیاں ایسے ایپس پیش کر رہی ہیں جو صارفین کو موبائل کم استعمال کرنے کی تربیت دیتی ہیں۔ 
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ویل نیس اکنامی میں ہندوستان کا حصہ بہت تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے اور اندازہ ہے کہ اس سال کے آخر تک اس کی مالیت ۷۰؍ ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ 
ان کمپنیوں کے صارف وہ پروفیشنلز ہیں جو ’’برن آؤٹ‘‘ کا شکار ہورہے ہیں۔ برن آؤٹ ایک جسمانی، جذباتی اور ذہنی تھکن کی حالت ہے جو طویل اور ضرورت سے زیادہ تناؤ کی وجہ سے ہوتی ہے۔ آئی ٹی سیکٹر اور کارپوریٹ ملازمین کی ایک بڑی تعداد مستقل اسکرین تھکن سے نجات کیلئےیہ راستہ اپنا رہی ہے۔ نوجوان نسل، خاص طور پر ملینیلز اور جنریشن زی، ڈجیٹل ڈِیٹاکس کو فیشن اور ذاتی نگہداشت کے طور پر دیکھتی ہے۔ غیر ملکی سیاح بھی ہندوستانی ’’روحانیت‘‘ اور ’’آیوروید‘‘ کو اسی ذریعے آزمانا چاہتے ہیں، جس نے اس بزنس کو بین الاقوامی پہچان دی ہے۔ ڈجیٹل ڈِیٹاکس انہی قدیم طریقوں کو نئے دور کی ضرورت کے ساتھ جوڑ رہا ہے۔ یورپی اور مشرقِ وسطیٰ کے ٹریول ایجنٹس ہندوستانی ریٹریٹس کو ’’ڈجیٹل ہالی ڈیز‘‘ کے طور پر پیکیج کر کے فروخت کر رہے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو ہندوستان اپنی ثقافت کو براہِ راست معاشی قوت میں بدلنے کی پوزیشن میں ہے۔ 
لیکن اس ابھرتے ہوئے بزنس کے ساتھ کئی چیلنجز بھی ہیں : بیشتر پیکیج عام ہندوستان صارف کی دسترس سے باہر ہیں۔ ڈجٹیل ڈیٹاکس کیلئے جانے والے اکثر شرکاء واپسی پر پرانی عادتوں میں پھر پھنس جاتے ہیں۔ ناقدین کہتے ہیں کہ یہ محض ’’عیش پرستی‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے باوجود، سرمایہ کار اور کاروباری طبقہ اسے مستقبل کیلئے ایک پرکشش موقع سمجھ رہا ہے۔ یہ فی الوقت متمول طبقے تک محدود ہے لیکن بڑھتی آگاہی اور بدلتی ترجیحات کے باعث وقت کے ساتھ یہ آبادی کے ایک بڑے حصے تک پہنچ سکتا ہے۔ ’’ڈجیٹل کنیکٹیویٹی‘‘ جہاں ایک طرف ترقی کی بنیاد ہے، وہیں اس سے ’’وقتی نجات‘‘ کا کاروبار بھی اپنی جگہ بنا چکا ہے۔ آنے والے برسوں میں سکون، خاموشی اور وقت، قیمتی ترین اثاثے بن جائیں گے اور یہی ڈیجیٹل ڈِیٹاکس انڈسٹری کی اصل بنیاد ہو گی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK