• Sun, 21 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

نیپال میں سیاسی انقلاب برپا ہوا ہے یا پھر نیپالیوں کے ساتھ ایک اورفریب ہوا ہے؟

Updated: September 21, 2025, 1:16 PM IST | Yogendra Yadav | Mumbai

گزشتہ دنوں پڑوسی ملک نیپال میں ہمیں ٹی وی اور سوشل میڈیا پر ’جنریشن زی‘ کے کچھ نوجوان چہرے نظر آئے، ان میں سیاسی نظام کے خلاف غصہ نظر آیا اور پھر ایک دم اقتدار کی تبدیلی کی خبر آئی جسے انقلاب سمجھ کر ہم مسحور ہو گئے۔

The manner in which the sudden `revolution` has taken place in Nepal raises many doubts. Photo: INN
نیپال میں جس انداز میں اچانک ’انقلاب‘ برپا ہوا ہے، وہ بہت سارے شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ تصویر: آئی این این

چاروں طرف اتنا اندھیرا ہے کہ ہم ہر روشنی کی کرن کی طرف دوڑنے لگتے ہیں۔ چاہے وہ ایک ٹمٹماتا دیا ہو، جگنو کی چمک کا دھوکہ ہو یا کوئی ایک چنگاری جو آگ لگا سکتی ہو، ہم دور سے نظر آنے والی ہر امید پر اپنی بے بسی کی امیدیں وابستہ کرنے لگتے ہیں۔ نیپال میں حالیہ اقتدار کی تبدیلی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ کبھی ایسا وقت بھی تھا جب ہم نیپال کو اندر سے جانتے تھے، لیکن آج کل ہم صرف اس کی بیرونی تصویروں سے واقف ہیں۔ ہمیں ٹی وی اور سوشل میڈیا پر ’جنریشن زی‘ کے کچھ نوجوان چہرے نظر آئے، سیاسی نظام کے خلاف غصہ نظر آیا، اور پھر ایک دم اقتدار کی تبدیلی کی خبر آئی۔ اور ہم اسے انقلاب سمجھ کر مسحور ہو گئے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہہندوستان میں بھی اسی قسم کی تبدیلیوں کے خواب دیکھنے لگے۔ ہماری تھکی ہوئی امیدوں کا بوجھ اتنا زیادہ رہا ہوگا کہ اس سے چھٹکارا پانے کی بےتابی میں ہم کچھ سادہ سوال پوچھنا بھول گئے:
یہ ’جین زی‘ آخر ہے کیا؟ نیپال کی دارالحکومت میں جمع یہ شہری نوجوان کس حد تک نیپال کی نئی نسل کی نمائندگی کرتے ہیں ؟ کسی ملک کی حکومت محض ۴۰؍ گھنٹوں میں کیسے گرسکتی ہے؟ ۸؍ستمبر کے فائرنگ واقعے کے بعد اگلے دن سڑکوں پر جو تشدد ہوا، اس کے پیچھے کون تھا؟ اس سارے واقعے میں نیپال کی فوج اور پسِ منظر میں موجود معزول بادشاہ کا کیا کردار تھا؟ یہ محض جزوی یا تفصیلی سوالات نہیں ہیں۔ ان کا جواب ملے بغیر ہم اس اقتدار کی تبدیلی کے اصل کردار کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ ابھی یہ کہنا ممکن نہیں کہ یہ ایک انقلاب ہے یا صرف ایک فریب۔ یقیناً، نیپال کی سیاست ایک عرصے سے زوال کا شکار رہی ہے۔ عوام نے ایک نہیں بلکہ دو بار انقلاب بر پا کیا اور دونوں بار دھوکہ کھایا۔ 
 پہلی بار ۱۹۹۰ء میں رانا راج کے خلاف بغاوت ہوئی تھی، لیکن آئینی طور بادشاہت کے بجائے پرانی طرز کی بادشاہت ملی۔ پھر ۲۰۰۸ء میں دوسری عوامی تحریک برپا ہوئی، بادشاہت کو ختم کر کے ایک جمہوری سیکولر نیپال کی بنیاد رکھی گئی، مگر اس بار بھی سیاسی جماعتوں اور لیڈروں نے اس عوامی تحریک کی روح کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ ۷؍ سال تک نیپال میں آئین ہی نہیں بنایا گیا، اور جب بنایا گیا تو وہ بھی تنازعات سے پاک نہ تھا۔ جمہوریت کو اپنے ابتدائی مرحلے میں ہی پروان چڑھانے کا موقع نہیں ملا۔ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں اور لیڈروں نے اقتدار کی دوڑ میں ہر قانون، اصول اور اخلاق کو نظرانداز کر دیا۔ وہی دوچار چہرے بار بار وزیر اعظم بنتے رہے۔ اور اس پر مستزاد کرپشن، جس سے کوئی جماعت پاک نہیں تھی۔ عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ بائیں بازو کے پس منظر سے آنے والی جماعتیں جلدی اخلاقی زوال کا شکار نہیں ہوتیں، لیکن یہاں پرانی نیپالی کانگریس کے ساتھ ساتھ کمیونسٹ جماعتیں، — یو ایم ایل اور ماؤوادی، کے لیڈروں پر بھی سنگین بدعنوانی کے الزامات لگے۔ 
اگرچہ نیپال کی معیشت میں بہتری آئی ہے اور قومی آمدنی بھی بڑھی ہے، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کا بحران بھی بڑھا ہے۔ اب نوجوان نسل کو لیڈروں اور ان کے بچوں کی عیاشی کھٹکنے لگی ہے۔ سیاست میں جاری بدعنوانی کا کوئی علاج نظر نہیں آتا۔ عدلیہ سمیت تمام نگراں ادارے ناکام ہو چکے ہیں یا خود بدعنوانی میں ملوث ہو گئے ہیں۔ جمہوریت کو قائم ہوئے ابھی بیس سال بھی مکمل نہیں ہوئے اور پورا سیاسی نظام اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔ ایسے حالات میں عوام کی ناراضگی اور نوجوانوں کا غصہ سمجھ میں آتا ہے، خاص طور پر جب حکومت ۲۰؍نوجوانوں کو پولیس کی گولیوں سے بھون ڈالے، لیکن اس کا موازنہ سری لنکا یا بنگلہ دیش میں ہونے والی اقتدار کی تبدیلی سے کرنا قبل از وقت ہوگا۔ 
سری لنکا کی عوامی تحریک مہینوں تک چلی تھی۔ اس کا مرکز تو صدارتی محل کے سامنے تھا، لیکن اس کی جڑیں جزیرے کے چپے چپے تک پھیلی ہوئی تھیں۔ پولیس کے سامنے شہری نوجوان تھے، لیکن اس تحریک کی بنیاد تھی ایک تباہ حال معیشت سے متاثر غریب طبقہ۔ اس کی پُشت پر ایک نظریاتی تحریک تھی۔ 
بنگلہ دیش میں اقتدار کی تبدیلی شاید نیپال کی طرح ڈرامائی نہ رہی ہو، لیکن اس کے پیچھے ایک طویل جدوجہد تھی، اس مزاحمت کی جڑیں بنگلہ دیش کے دیہاتوں تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اس کا نظریاتی جھکاؤ سری لنکا کے برعکس تھا۔ بنگلہ دیش کی تبدیلی میں فرقہ پرست قوتیں سرگرم تھیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میں عوام کی بڑی شرکت تھی۔ نیپال میں اس تبدیلی کا کردار ابھی تک واضح نہیں ہے۔ ’جین زی‘ کے پرچم تلے جمع ہونے والے ان نوجوانوں کی نہ تو کوئی تنظیم ہے، نہ ہی کوئی نظریہ۔ فی الحال اسے ایک عوامی تحریک کہنا مشکل ہے۔ ہمیں اتنا ہی معلوم ہے کہ غصے کا یہ دھماکہ کٹھمنڈو تک محدود رہا۔ ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ باقی ملک میں اس کو کتنا ساتھ ملا۔ جب اولی حکومت نے نوجوانوں پر گولیاں چلائیں اور اگلے دن جو پُرتشدد افراتفری ہوئی، اس میں جین زی کی تحریک کا قیادت بےبس نظر آیا۔ اس تشدد نے اچانک ملک کی سیاسی قیادت کو اقتدار سے باہر کر دیا، جس سے شبہ ہوتا ہے کہ اس اقتدار کی تبدیلی کے پیچھے کچھ خفیہ طاقتیں سرگرم تھیں۔ یقیناً، نئی وزیر اعظم سوشیلا کارکی بدعنوانی کے خلاف آواز بلند کرتی رہی ہیں لیکن باقی مزاحمتی لیڈروں کے بارے میں ایسا کہنا مشکل ہے۔ کچھ لیڈر بدعنوانی کے خلاف جدوجہد کرتے رہے ہیں، لیکن کچھ خود بدعنوانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ 
نیپال کے سیاسی نظام کے اچانک ٹوٹ جانے اور اس ڈرامائی واقعے کے پیچھے تین بیرونی طاقتوں کی سرگرمی پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ فوج، سابق بادشاہ اور بیرونی کھلاڑی۔ اب تک نیپالی فوج نے ملک کی سیاست میں کوئی بڑی یا منفی مداخلت نہیں کی، لیکن اس واقعے میں فوج کو دی گئی ذمہ داری کا استعمال جس طرح صدر پر دباؤ ڈالنے کیلئے کیا گیا، وہ مستقبل کیلئے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ 
نیپال میں یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ معزول سابق بادشاہ گیانیندر پس پردہ اپنی واپسی کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں اور اس چھوٹے سے پہاڑی ملک میں ہمسایہ اور عالمی طاقتوں کی دلچسپی بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ نئی حکومت کی طرف سے پارلیمنٹ تحلیل کئے جانے کے فیصلے کی تمام بڑی جماعتوں نے مخالفت کی ہے، لیکن ان جماعتوں اور لیڈروں کی ساکھ اتنی گر چکی ہے کہ ان کے جانے پر کوئی افسوس کرنے والا نہیں ہوگا۔ لیکن کیا یہ بدعنوان سیاسی نظام کا خاتمہ، نیپال میں جمہوریت کے خاتمے کا پیش خیمہ تو نہیں بنے گا؟ ان تمام سوالات کا جواب ملنے سے پہلے نیپال کے اس ’انقلاب‘ پر فریفتہ ہونے کا وقت نہیں آیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK