شکر کے اصطلاحی معنی ہیں رب العالمین کی نعمتوں کا اعتراف اور ان کی قدر کرنا اور اللہ تبارک و تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے ضابطے کے مطابق اِن کا استعمال کرنا۔
EPAPER
Updated: October 21, 2022, 11:59 AM IST | Dr. Muhammad Waqas | Mumbai
شکر کے اصطلاحی معنی ہیں رب العالمین کی نعمتوں کا اعتراف اور ان کی قدر کرنا اور اللہ تبارک و تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے ضابطے کے مطابق اِن کا استعمال کرنا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور یاد رکھو،تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔‘‘(ابراہیم :۷)اس ضمن میں یہ جان لینا ضروری ہے کہ شکر کیا ہے؟ اس کی کیفیات کیا ہیں؟ اور پروردگار کا شکر گزار بندہ بننے کیلئےکن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے؟ تو صاحبو، شکر کے اصطلاحی معنی ہیں رب العالمین کی نعمتوں کا اعتراف اور ان کی قدر کرنا اور اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے ضابطے کے مطابق اِن کا استعمال کرنا۔ اس لحاظ سے جذبۂ شکر کی تسکین کے دو مراحل ہیں۔ پہلا مرحلہ زبانی اقرار ہے،یعنی قولاً شکر گزار ہونا۔ دوسرا مرحلہ ہے عملاً شکرگزار بندہ بن جانا۔قولی شکرگزاری کے دو پہلو نہایت نمایاں ہیں۔ ایک یہ کہ بندہ اپنے رب کی نعمت کا اعتراف کرے۔ چنانچہ فرمایا: ’’اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرو۔‘‘(الضحٰی :۱۱) اس تذکرے اور اعتراف سے، بندۂ مومن کی نظر تمام اسباب اور وسائل سے ہٹ کر اللہ رب العالمین پر جم جاتی ہے۔ اسی سے اُس کے قلب و ذہن سے شرک کے تمام آثار نکل جاتے ہیں اور وہ حقیقی معنوں میں توحید اپنا لیتا ہے چنانچہ دیگر نعمتوں اور ضروریاتِ زندگی کے حصول اور مصائب و آلام سے بچنے کیلئے انسان کی نظر، لامحالہ بارگاہ ایزدی کی جانب ہی اُٹھتی ہے۔قولی شکرگزاری کا دوسرا پہلو منعم ِ حقیقی کی حمدوستائش ہے۔ جب بندے کا دل جذبۂ تشکر و احسان شناسی سے لبریز ہو تو زبان سے رب العالمین کی حمدوستائش کے کلمات بے اختیار ادا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کی باقاعدہ تربیت فرمائی اور اُنہیں ہرنعمت سے مستفید ہونے کے بعد الحمدللہ کہنا سکھایا۔ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: کسی بندے نے اللہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا: یَارَبِّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا یَنْبَغِیْ لِجَلَالِ وَجْھِکَ وَعَظِیْمِ سُلْطَانِکَ ( ترجمہ: اے اللہ تیرے لئے ایسی حمد ہے جو تیرے چہرے کی بزرگی اور تیری عظیم سلطنت کے شایانِ شان ہو) تو فرشتے اِس سے اتنے متحیر ہوئے اور فیصلہ نہ کرسکے کہ اس کا احاطہ کیسے کریں۔ چنانچہ وہ بارگاہِ ایزدی میں حاضر ہوئے اور عرض کی: بارِ الٰہ! تیرے فلاںبندے نے ایسی بات کہی جس کا احاطہ کرنا ہماری قدرت سے باہر ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بندے نے کیا کہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے سوال کیا: میرے بندے نے کیا کہا تھا؟ فرشتے عرض پرداز ہوئے، اُس نے کہا: ’’اے اللہ! تیرے لئے ایسی تعریف ہے جو تیرے چہرے کی بزرگی اور عظیم سلطنت کے شایانِ شان ہو۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ ایسا ہی لکھ دو جیسا اُس بندے نے کہا۔ کل قیامت کے دن جب وہ مجھ سے ملے گا میں خود اُسے اِس کا اجر دوں گا۔ (ابن ماجہ)روایات میں آتا ہے کہ اللہ کے برگزیدہ پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور کی طرف تشریف لے جا رہے تھے کہ اُن کے دل میں اہل و عیال کا خیال آیا، اور اُن کے بارے میں قدرے متردّد ہوئے۔ اثنائے راہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا: اے موسٰی ! فلاں پتھر کو اپنے عصا سے توڑ ڈالو۔ آپؑ نے ایسا ہی کیا۔ اُس سے ایک اور پتھر برآمد ہوا۔ اسے بھی توڑنے کا حکم دیا گیا۔ غرض یکے بعد دیگرے سات پتھر برآمد ہوئے جنہیں توڑنے کا حکم دیا گیا۔ساتویں پتھر میں ایک کیڑا موجود تھا جس کے منہ میں تازہ پتا تھا۔ ابھی حضرت موسٰی محوحیرت ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی کی قوتِ سماعت کو اس قابل بنایا کہ وہ کیڑے کی آواز سن سکیںجو اپنی زبان میں رب العالمین کی حمد بیان کر رہا تھا:’’پاک ہے وہ جو مجھے دیکھ رہا ہے، جسے میرے ٹھکانے کا علم ہے، جو میری بات سن رہا ہے، جو مجھے یاد رکھتا ہے اور کبھی نہیں بھولتا۔‘‘یہاں سوچنے اور غوروفکر کرنے کی بات یہ ہے کہ جب غیرعاقل مخلوق میں اِس قدر جذبۂ احسان شناسی موجود ہے تو انسان جو کہ اشرف الخلائق ہے اُسے تو سب سے بڑھ کر رب کا شکرگزار ہونا چاہئے۔
قولی شکرگزاری کی طرح عملی شکرگزاری کے بھی دو ہی پہلو ہیں۔ ایک: نعمت کی قدر و حفاظت، دوسرے: اُس کا جائز استعمال۔ ایک شخص جسے صحت جیسی نعمت ِ عظمیٰ سے نوازا گیا ہو، اُس پر لازم ہے کہ وہ اِس نعمت ِ رب کا شکر ادا کرے۔ اس کا عملی شکر یہ ہے کہ وہ اس کی قدر کرے اور صحت کو تباہ کرنے والے عوامل سے اجتناب کرے۔ اُن غذائوں، مشروبات اور معمولات سے اپنے آپ کو بچائے جو صحت کے لئےنقصان دہ ہوں۔ پھر اس صحت اور توانائی سے بھرپور استفادہ کرے۔ اپنی صلاحیتوں، اوقات کار اور وسائل کو اللہ کی بندگی، رسولؐ اللہ کی اطاعت اور رزقِ حلال کے حصول میں صرف کرے۔ معاملات میں اللہ کی قائم کردہ حدود کا احترام کرے۔
نعمت ہدایت
جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی جسمانی ضروریات کا اہتمام کیا، رزق، لباس اور راحت کے اسباب مہیا کئے، دن کو کام کاج اور رات کو آرام کے لئےبنایا، بالکل اسی طرح اس نے انسان کی ہدایت اور رہنمائی کا بھی انتظام فرمایا۔ اُس نے انسان کو عقل وفکر، نیز سماعت و بصارت سے آراستہ کیا۔ اور وحی و رسالت کے ذریعے اُس کے سامنے ایک صاف سیدھا اور کشادہ راستہ کھول دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ہم نے اسے راستہ دکھا دیا،خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔‘‘ (الدھر ۷۶:۳)گویا جو بندہ نعمت ِ ہدایت کو قبول کرتا ہے اور صراط مستقیم کو اپنا لیتا ہے، وہی دراصل اس کا شکرادا کرتا ہے اور جو کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی اس کو چھوڑ کر شیطان کی راہوں پر بھٹکتا ہے وہی دراصل ناشکرگزار ہے، یعنی کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس کے بعد نعمت ہدایت کا شکر یہ بھی ہے کہ بندہ اسے اپنے تک محدود نہ رکھے،بلکہ مسلسل اس کی اشاعت کا فریضہ سرانجام دیتا رہے۔ بندہ جب خود روشنی میں ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ اُن بندوں کو روشنی کی طرف لے کر آئے جو اندھیرے میں بھٹک رہے ہیں۔اب آیئے یہ دیکھیں کہ شکر کے اس جذبے کو پروان کیوں کر چڑھایا جائے۔
معرفت ِ نعمت: بندۂ مومن کو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر ہر پل نگاہ رکھنی چاہئے۔ بہت ساری نعمتیں ایسی ہیں کہ جن کو انسان سرے سے نعمت خیال ہی نہیں کرتا،یا اُن کی اتنی اہمیت اُس کی نظر میں نہیں ہوتی جتنی کہ ہونی چاہئے۔ یہی چیز بعدازاں ناشکری کو جنم دیتی ہے، مثلاً انسان کو اِس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اسے اللہ کی کتنی نعمتیں حاصل ہیں۔ انسان ہر پل سانس لیتا ہے، لیکن اکثر اوقات اُسے احساس ہی نہیں رہتا کہ وہ رب العالمین کی کتنی بڑی نعمت سے مفت میں فیض یاب ہو رہا ہے، وہ نعمت جس پر انسان کی زندگی کا دارومدار ہے! اس نعمت کی قدر اس تصور سے ہوسکتی ہے کہ آدمی ہر سانس لینے کے بعد یہ سوچے کہ شاید یہ زندگی کا آخری سانس ہو، اور اس کے بعد اگر سانس لینے کا موقع ملے گا بھی تو صرف اللہ کے حکم سے ملے گا۔ اسی طرح ایک بینا آدمی آنکھوں کی قدر نہیں کرتا لیکن نابینا کے پاس اِن کی قدر ضرور ہوتی ہے۔
یہ بھی نعمت کی معرفت میں شامل ہے کہ انسان نعمت کے فوائد اور استعمالات پر برابر غور کرتا رہے۔ ارشاد باری ہے: ’’اگر تم اللہ کی نعمت (کے فوائد) کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے۔‘‘(ابراھیم ۱۴:۳۴) مثال کے طور پر پانی ایک نعمت ہے لیکن اس کا صرف ایک فائدہ نہیں ہے۔ اس پانی کو انسان پیتا ہے، اسی سے کھاناپکتا ہے، اسی سے فصلوں میں ہریالی ہے، پھلوں میں ذائقہ ہے، موسم کی گرمی و سردی ہے، یہی پانی آج توانائی کا منبع ہے۔ اسی طرح سورج ایک نعمت ہے لیکن اس کا بھی صرف ایک فائدہ نہیں ہے۔ نہ صرف یہ کہ یہ نعمتیں ہمہ جہتی اور کثیرالفوائد ہیں، بلکہ ان میں سے ہر ایک انسانی زندگی کے لئےلازمی اور ضروری (Vital) ہے۔ ذرا سوچیں، اگر اس کرئہ ارض پر آکسیجن نہ رہے تو کیا روئے زمین پر زندگی کے کوئی آثار رہیں گے؟ اگر پانی خشک ہوجائے تو کیا انسان اور دیگر کسی جان دار کا اس زمین پر زندہ رہنا ممکن ہوگا؟ یا سورج مستقل غروب ہوجائے تو زندگی کا پہیہ کیسے چلے گا؟ غرض،ہرنعمت اتنی اہم ہے کہ گویا اُسی پر زندگی کا دارومدار ہے۔ مزید یہ کہ یہ تمام نعمتیں ہمیں بالکل مفت،بہت بڑے پیمانے پر اور بغیر طلب کے میسر ہیں۔
نعمت سے محروم لوگوں پر نظر: دل کو شکر کا گہوارہ بنانے کے لئےبندئہ مومن کو چاہئے کہ دنیاوی نعمتوں کے سلسلے میں ہمیشہ اُن لوگوں پر نظر مرکوز رکھے جو اِن نعمتوں سے محروم ہیں۔ لیکن آج المیہ یہ ہے کہ انسان کی نظر نیچے کے بجائے اُوپر کو جاتی ہے،اور وہاں جاکر ٹھہرتی ہے جہاں انسان حسرت و یاس کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں شیخ سعدی کا ایک واقعہ لائق مطالعہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:ایک مرتبہ میں سفر پر تھا۔ دورانِ سفر جوتے ٹوٹ گئے۔ چنانچہ برہنہ پا سفر جاری رکھا اوراتنی رقم پاس نہ تھی کہ نئے جوتے خرید سکوں۔ دل میں شکوہ پیدا ہوا کہ مجھ جیسا عالم جوتوں کے بغیر سفر کر رہا ہے۔ راستے میں ایک مسجد میں نماز کے لئےرکا تو دیکھا کہ ایک شخص بھیک مانگ رہا ہے،جس کے دونوں پائوں کٹے ہوئے ہیں۔ میںنے فوراً سجدئہ شکر ادا کیا اور کہا: اے اللہ! تیرا شکر کہ میرے پائوں توسلامت ہیں، کیا ہوا جو مجھے جوتا میسر نہیں۔ یہی وہ اندازِ فکر ہے جو بندۂ مومن کا دل شکر سے معمور کر دیتا ہے۔
نعمت ایک آزمائش: نعمت کے حوالے سے ایک تیسرا پہلو بھی قابلِ غور ہے اور وہ یہ کہ یہ ایک آزمائش ہے،چنانچہ ارشاد باری ہے:مگر انسان کا حال یہ ہے کہ اس کا رب جب اس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اسے عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنایا اور جب وہ اس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اس کا رزق اس پر تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا۔ (الفجر: ۱۵-۱۶)اس کے مقابلے میں بندئہ مومن کا حال یہ ہے کہ وہ ظاہری حالت کے بجائے پوشیدہ آزمائش کی طرف خیال کرتا ہے۔ یہی احساس فاقہ کشی میں اُسے صابر اور خوش حالی میں اُسے شاکر رکھتا ہے۔ اسی کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے جس کی طرف قرآن نے یوں اشارہ کیا ہے: ’’پھر ضرور اس روز تم سے ان نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی۔‘‘ (التکاثر :۸) یہ وہ طرزِ فکر اور طرزِ عمل ہے جو انسان کے دل کو شکر کا گہوارہ بناسکتا ہے۔ اسی طرزِعمل سے وہ اپنی زبان کو حمدالٰہی سے مزین کرسکتا ہے،اور اپنے عمل کو قانونِ الٰہی کا پابند بناسکتا ہے۔