• Wed, 17 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

نوجوانوں میں منشیات کا بڑھتا رُجحان ... والدین کہاں مصروف ہیں ؟

Updated: December 16, 2025, 4:02 PM IST | Mubark Kapdi | Mumbai

مغربی یا بیرونی ممالک میں نہیں یا اُس ملک کے پچھڑے علاقے میں نہیں بلکہ ہمارے شہروں، قصبوں، دیہاتوں اور محلّوں میں نوجوانوں میں نشہ کرنے کا رُحجان بڑھتا جا رہا ہے۔

It is the responsibility of all of us to protect students from bad habits. Picture: INN
طلبہ کو بری لت سے بچانے کی ذمہ داری ہم سب کی ہے۔ تصویر: آئی این این
مغربی یا بیرونی ممالک میں نہیں یا اُس ملک کے پچھڑے علاقے میں نہیں بلکہ ہمارے شہروں، قصبوں، دیہاتوں اور محلّوں میں نوجوانوں میں نشہ کرنے کا رُحجان بڑھتا جا رہا ہے۔ہماری بستیوں سے جو اَب خبریں آرہی ہیں اُن سے واضح ہو تا ہے کہ کبھی یہ نشہ کالج کے طلبہ میں ہوا کرتا تھا مگر اب یہ ہائی اسکول کے کمسن طلبہ میں پھیلتا جا رہا ہے۔ ممبئی کے مضافات کی دوبستیوں سے گزشتہ چند ماہ سے  افسوس ناک خبریں بھی آئی ہیں کہ ڈرگس مافیا ہماری لڑکیوں کو بھی  اپنے شکنجے میں کسنے کی کوشش کررہا ہے۔ یہ خطرے کی گھنٹی ہے،اسلئے اس محاذ پر ایک منصوبہ بند تسلسل اور شدّت سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
منشیات کو خمارِ زیست و سوئی ہوئی زندگی کہاجاتا ہے اور منشیات سے مُراد وہ تمام چیزیں ہیں جن سے عقل میں فتور پیدا ہوتا ہے اور فہم و شعور کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے خواہ وہ ٹھوس ہو یا مائع کی شکل میں ہو، قلیل ہو یا کثیر مقدار میں ہو، نیز وہ تمام ممنوع دوائیں بھی، جنہیں نشہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اب تو یہ فہرست حیرت انگیز طور پر بڑھتی جارہی ہے۔ وہ سگریٹ اور گٹکا ہو یا پھر کئی اور خطرناک چیز، والدین کو اس تعلق سے کافی بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔اگر ان کے بچوں میں ایسی کوئی بھی  بات سامنے آئے جن سے شبہ ہو کہ ان کا بچہ غلط صحبت میں جارہا ہے تو والدین کو فوری طور پر الرٹ ہوجانا چاہئے۔
اس ضمن میں سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ اللہ نے انسان کو جو قیمتی اعضاء دیئے ہیں اُن میں انسانی دماغ سب سے پیچیدہ مگر سب سے طاقتور عضو ہے۔ اس دھرتی کے سارے محققین و سائنس دان اس دماغ کی ساری پرتوں کے راز جاننے میں ناکام ہوئے ہیں کہ آخر یہ کسی طرح جسم کے باقی تمام افعال کو سنبھالتا اور اُن کے پورے سسٹم کا نظم کرتا ہے کیونکہ یہ اُس وقت بھی کام کرتا ہے جب ہم سوئے رہتے ہیں۔ ماہر نفسیات اور ماہر امراض دماغ کی تحقیق  اس طور پر کر چکے ہیں کہ منشیات، دماغ کے اعصابی کاموں کو متاثر کرتی  ہے۔ آسان زبان میں والدین کو ہم یہ بتانا چاہیں گے کہ نشہ آور اشیاء انسان کے سوچنے کے مراکز، فیصلہ سازی، جذباتی ردِّ عمل غرض کہ پانچوں حواس کو غیر متوازن کر دیتا ہے۔ منشیات ہی سے دماغ میں ڈوپامائن کی مقدار بے حد بڑھ جاتی ہے جو ہمیں اچھا محسوس کرنے کیلئے ذمہ دار ہے۔ ایسے معاملات میں دماغ کو ملنے والے اشارات مبالغہ آرائی پر مبنی ہوتے ہیں۔
آئیے اب یہ دیکھیں کہ منشیات کے استعمال کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟ ان میں ذہنی دبائو، مایوسی یا ڈریشن سرِفہرست ہے اور ان سب کی وجوہات کی فہرست بھی لمبی ہے جیسے امتحان کا دباؤ، امتحان یا محبت میں ناکامی، ملازمت/ کا روبار میں نقصان، رشتہ داروں کی ترقی یا اُن کی بے رُخی۔  دوسری وجہ شخصیت کا عدم توازن ہے جس میں مضبوط جینیاتی مزاج یعنی نشے کی خاندانی تاریخ بھی ہو سکتی ہے جب کہ تیسری وجہ غلط دوستوں کی صحبت سے یعنی غلط صحبت میں پہلے فیشن کے طور پر آغاز سگریٹ سے  کرتے ہیں اورپھر کہیں وہ دوست چھوٹ نہ جائیں، اسلئے کہ اُن کے ’ہم پیالہ‘، ’ہم نوالہ‘ بن جاتے ہیں۔
 حالات بے حد سنگین ہیں
اس کالم میں آج منشیات کے ضمن میں صرف احتجاج  درج کرنا مقصود نہیں ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے جو خبریں ہماری  بستیوں سے آرہی ہیں وہ دل دہلانے والی ہیں۔مَیں ممبئی کے ایک بڑے تعلیمی ادارے کا ایک دہائی تک چیئرمین رہا، اُس وقت بھی ہمارے طلبہ کا ایک طبقہ نشے کا عادی پایا گیا تھا ۔ اُن کی کائونسلنگ کیلئے میں نے لیکچرس، پی پی ٹی اور چارٹس وغیرہ کا سہارا لیا۔ اُسی دوران علاقے کے سینئر پولیس افسران کو بھی مدعو کرتا تھاکہ وہ نشے کے بُرے اثرات پر طلبہ سے خطاب کریں تا کہ طلبہ پولیس کی وردی سے متاثر ہو کر ان کی باتوں پر سنجیدہ ہو جائیں۔ محترم اساتذہ کرام اور والدین صاحبان ! اب حالات بے حد گمبھیر ہیں : (الف)اب ہم پولیس والوں کو بلا کر نشہ کرنے والے طلبہ کی نشاندہی نہیںکرسکتے جبکہ   پولیس والے اس پر بضد رہیں گے کہ اسکول کے ذمہ داران اُن کی شناخت کرائیں۔(ب) ہم نشاند ہی کرتے ہیں تو پولیس والے آگے چل کر ان نوجوانوں کو ہراساں کر سکتے ہیں ( ج ) جب بھی کہیں ڈر گس پکڑے جائیں، ان طلبہ کو بھی پولیس اسٹیشن بُلاتے رہیں گے اور (د) سب سے زیادہ دل دہلانے والی بات یہ ہے جو کہعام طور پر کہی جاتی ہے، فلموں میں بتائی جاتی ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعہ بھی سامنے آتی ہے کہ مختلف جگہوں پر پکڑے جانے والے سارے ڈرگ  ضائعنہیں کئے جاتے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اُن ڈرگس کا کیا ہوتا ہے؟ اس تعلق سے کہاجاتا ہے کہ چند بے حس اور رشوت خور پولیس والے ان ڈرگس کو اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور  یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ان ڈرگس کواُن نوجوانوں کو کم قیمت پر بیچتے ہیں  جن کی نشاندہی اسکول کے ذمہ داران نے کی تھی کہ وہ طلبہ ڈرگس کے عادی ہو گئے ہیں۔ اگر ایسا ہے تویہ واقعی افسوس کی بات ہے کہ  قانون کے  وہ بد بخت رکھوالے اس طرح ہمارے طلبہ کو ڈرگس کے بیوپاری بنانے پر آمادہ کرتے  ہیں۔
فرقہ پرستی کے زہر میں آلودہ موجودہ نظام میں یہ صورتِ حال انتہائی تشویش ناک اور دھما کہ خیر ہے۔ قانون کے رکھوالوں کا رویہ بھی اگر ہماری قوم کے تعلق سے اس قدر افسوس ناک بلکہ خوف ناک ہے تو ہمیں سر جوڑ کر دیگر لائحہ عمل پر کام شروع کرنا ہوگا۔ 
ہمارے اقدامات کیا ہوں ؟
(۱)اس کا ئنات کا یہ ثابت شدہ کلیہ ہے کہ جب معاشرہ اندھیرے میں ڈوبنے لگے تب بہر حال دیٖن ہی کا سہارا لینا ہے۔ ہمارے محلوں میں چوراہوں پر یہ بورڈ آویزاں کریں: (الف) لعنت ہے نشہ (یا شراب) پینے والے پر،بُلانے والے پر، بنانے والے پر،اُٹھانے والے پر جس کو اُٹھاکر دی اُس پر، بیچنے والے پر،اُس کا مال کھانے والے پر اور (ب) جو اپنے ہاتھ میں شراب (نشہ آور چیز) لیتا ہے۔ اُس کی کوئی دعا قبول نہیں ہوتی۔
(۲) محکمۂ تعلیم کی ہدایات پر سال میں صرف ایک بار نشہ مُکتی دن وغیرہ نہ منایا جائے بلکہ ہر صبح دعائیہ اجلاس میں دو تین جملوں پر مشتمل ایک حلف تمام طلبہ کو دلایا جائے، مثلاً ’’مَیں یہ قسم کھاتا ہوں کہ زندگی میںکبھی بھی کسی بھی قسم کا نشہ نہیں کروں گا، ہرقسم کے نشے سے مکمل طور پر دُور رہوں گا‘‘ وغیرہ۔
(۳) جب قرآن کا یہ وعدہ ہے کہ نماز فحاشی سے روکتی ہے تو اُس کا سہارا پیارے بچّوں کیلئے لینا ہوگا کیونکہ نمازکے پابند انسان کو ہمیشہ ہوش و حواس میں رہتا ہے ، پاک و صاف بھی رہتا ہے کیونکہ اُسے وضو بھی کرنی ہے۔ ڈرگس کا عادی انسان پانچوں وقت کی نماز کا پا بند ہو ہی نہیں سکتا۔
(۴) محلے کے دُکان والوں کو والدین گروپ میں جا کر سمجھائیں کہ وہ اپنی دکانوں میں نشے کی چیزیں نہ بیچیں اور اپنے بچّوں کو حرام کی کمائی نہ کھلائیں۔ اس کے باوجود وہ باز نہ آئیں تو ان دکانوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ 
(۵) اسکولوں میں پوسٹرس، سالا نہ گید رنگ میں ڈرامے وغیرہ کے ذریے نشے کے نقصانات سمجھائے جائیں۔
(۶)اساتذہ اور والدین مل کر طلبہ کو ایک سخت قسم کا ٹائم ٹیبل بنانے میں مدد کریں جس سے وہ پریشانی، اضطراب یا ڈپریشن کا شکار نہ ہوں، انھیں اس کا شکار ہونے کی مہلت ہی نہ ملے۔
(۷) ’لڑکا ہے تو باہر ہی رہے گا‘ اس مفروضے کو ہمارے ذہن سے نکالنا ہوگا کیونکہ وہ باہر جانے کی وجہ ہی سے غلط صحت کا شکار ہو جاتا ہے۔
(۸) منشیات کے ضمن میں آج ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی ضرورت ہے : ’بحالی کے مراکز‘ نشے کے عادی ہمارے نوجوانوں کے لئے اور زندگی کی دھارا سے دوبارہ جوڑنے کے لئے ایسے مراکز قائم کرنے ہوں گے جن میں ان نوجوانوںکی کاؤنسلنگ ہو،رہنمائی ہو۔ کاؤنسلنگ سینٹرس قائم کرنے کے لئے ہماری قوم کو جنگی پیمانے پر کام کرنا ہوگا۔ زکوٰۃ و عطیات کی رقوم کو اس زمرے میں خرچ کرنا ہوگا۔ 
(۹) ہمارا آخری سوال والدین سے ہے کہ وہ کہاں مصروف ہیں؟ کیا مائیں مصروف ہیں ہانڈیاں بگھارنے میں، پڑوس کی خبر لینے میں، ساس بہو کے سیرئیل دیکھنے میں؟ والد صاحبان کہاں مصروف ہیں ؟ دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرنے میں، موبائیل پر ریٖل دیکھنے میں، صرف بینک بیلنس بڑھانے میں؟ اب تو بیدار ہونے کا وقت آگیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK