Inquilab Logo

یہاں نعمتیں، وہاں مصیبتیں اور زحمتیں

Updated: March 20, 2024, 12:52 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

رمضان المبارک جاری ہے،سہ پہر ہی سے ہر محلے اور علاقے میں دکانیں سج جاتی ہیں، جن پرانواع و اقسام کی اشیاء جو افطار میں استعمال کی جاتی ہیں، موجود رہتی ہیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

رمضان المبارک جاری ہے،سہ پہر ہی سے ہر محلے اور علاقے میں دکانیں سج جاتی ہیں، جن پرانواع و اقسام کی اشیاء جو افطار میں استعمال کی جاتی ہیں، موجود رہتی ہیں۔ مہنگائی ہے تو ہے، اس سے افطار کی اشیاء کی خریداری پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔روزہ دار جو چاہتا ہے خرید لیتا ہے۔ اُس کے پاس پیسے بھی ہیں اور سامنے اشیاء بھی۔ دستر خوانوں کا جائزہ لے لیجئے۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ بندگان خدا روزہ بھی رکھ رہے ہیں، عبادات میں بھی مشغول ہیں اور سحر و افطار کا حسب خواہش و استطاعت لطف بھی لے رہے ہیں۔ ایسے میں وہ خطہ بہت یاد آتا ہے جہاں نہ تو پیسے ہیں نہ ہی اشیاء۔ریلیف ویب نامی ایک ویب سائٹ پر ایک رپورٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس میں غزہ کے ایک شخص کی روداد بیان کی گئی ہے جس کی ایک سال کی بیٹی ہے۔ جب اُس سے پوچھا گیا کہ ان حالات میں بیٹی کیسی ہے تو اُس کا جواب تھا کہ ناشتہ میں انڈا مانگتی ہے، اب اُسے انڈا کہاں سے لاکر دیا جائے؟ یہی نہیں، انڈے کے ساتھ وہ بریڈ کھانا پسند کرتی ہے، بریڈ کی قیمت اتنی ہے کہ خدا کی پناہ۔ اور اگر اُتنی قیمت ادا کرکے دکان سے بریڈ خرید بھی لوں تو گھر تک لاسکوں کا اس کی ضمانت نہیں دی جاسکتی کیونکہ غذائی اشیاء دیکھ کر اُن پر پِل پڑنے والے جگہ جگہ موجود ہیں۔ اس شخص کا کہنا تھا کہ عالم عرب اس صورت حال کا مشاہدہ کررہا ہے مگر مدد کرنے سے گریزاں ہے۔ مذکورہ سائٹ پر اس شخص کے بیان کا آخری جملہ نہایت تکلیف دہ ہے۔ اُس نے کہا: ’’میں انسانیت میں اپنا یقین کھو چکا ہوں۔ (I have lost all faith in this world)۔
 اسی رپورٹ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو تھوڑی بہت غذائی رسد غزہ میں پہنچتی ہے اُس سے بھی تمام اہل غزہ مستفید نہیں ہوپاتے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ جو غذائی رسد موصول ہوتی ہے اُس کی تقسیم میں بھی مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ اہل ِ غزہ کو جن اشیاء کی ضرورت ہے وہ اُنہیں مل پاتیں۔ اُنہیں جیکٹ کی ضرورت ہے، جوتوں کی ضرور ت ہے، دیگر سازوسامان ِ حیات کی ضرورت ہے، اسی لئے ایسے لوگ بھی مل جائینگے جو اپنے حصے میں آنے والی غذاکا کچھ حصہ فروخت کردیتے ہیں تاکہ جو دیگر اشیاء اُنہیں درکار ہیں وہ خرید سکیں۔
 رپورٹ کے مطابق مہنگائی اس قدر ہے کہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ مثال کے طور پر شکر ایک ہزار ۶۶۰؍ روپے کلو۔ وہ غزہ جو پہلے ہی سے افراط زر کا شکار تھا، جہاں بے روزگاری کی شرح پہلے سے کافی زیادہ تھی، اب جنگ کے پانچویں مہینے میں داخل ہونے اور حالات کے بد سے بدتر ہونے کی وجہ سے دور دور تک مایوسی ہی مایوسی ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ یا تو بمباری کے سبب اور اگر یہ نہیں تو بھوک کے سبب، یہ بھی نہیں تو غذائی سمّیت کے سبب اور اگر یہ بھی نہیں تو آبی امراض کے سبب موت کو گلے لگانے پر مجبور ہونگے۔ بچوں کا جو حال ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ یونیسیف کی رپورٹ منظر عام پرہے جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ کے بچے اس حد تک کمزور ہوچکے ہیں کہ اُن میں رونے تک کی سکت باقی نہیں ہے۔ 
 ہندوستانی مسلمانوں کیلئے اہل غزہ کو مدد بھیجنا آسان نہیں البتہ ہم اُنہیں دعاؤں میں یاد رکھ سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ کرنے کے کام یہ ہیں کہ وہاں کی مصیبتوں کا تصور کرکے یہاں کی نعمتوں پر خدا کا شکر ادا کیا جائے، غذا کے اتلاف سے بچا جائے اور جو لوگ ہمارے درمیان کسمپرسی سے دوچار ہیں، اُن کی مدد کی جائے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK