Inquilab Logo

ہنڈن برگ رپورٹ: جلد چھٹکارا ممکن نہیں ہے

Updated: February 19, 2023, 10:32 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

ایک امریکی فرم کی جاری کردہ اس رپورٹ پر ہندوستانی اداروں اور ایجنسیوں نے تو ردعمل ظاہر نہیں کیا مگر مارکیٹ کا فوری ردعمل سامنے آیا۔ اب بھی ایسا لگتا ہے کہ یہ بحران جلد ٹلنے والا نہیں ہے۔

Hindenburg Report
ہنڈن برگ

کوئی چاہے تو ہنڈن برگ کی رپورٹ کو گھپلہ کہہ سکتا ہے، غیر ضروری تنازع قرار دے سکتا ہے، ہندوستان کے خلاف سازش بھی باور کرا سکتا ہے۔ اس کا ذہن کس طرف جائیگا اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ جوموجودہ حکومت کی کارگزاریوں کو کس زاویئے سے دیکھتا ہے۔ جو بھی ہوگا وہ ناقابل فہم نہیں ہوگا۔ اس کے باوجود دو ایسی باتیں ہیں جن سے انکار ممکن نہیں ہے۔ یہ باتیں ٹھوس اور ناقابل تردید ہیں۔ پہلی ہے حصص بازار کا ردعمل۔ دوسری ہے کہ کس طرح حکومت ِ ہند نے اس پر اپنا ردعمل ظاہر کیا، یا، ردعمل ظاہر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ آئیے پہلی بات پر غور کریں:
 پہلی بات ہے حصص بازار کا ردعمل۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جن لوگوں نے پیسہ لگایا ہے اُنہوں نے اپنی رائے ظاہر کردی ہے۔ اُن کی رائے ہنڈن برگ کی رپورٹ کے حق میں ہے یعنی ان لوگوں نے ہنڈن برگ پر بھروسہ کیا جس کا نتیجہ تھا کہ شیئر مارکیٹ میں بھونچال آگیا۔ قارئین شاید نہ جانتے ہوں کہ ہندوستانی میوچوئل فنڈ نے اڈانی گروپ سے بہت کم تعلق رکھا۔ کسی نے اڈانی گروپ میں سرمایہ کاری نہیں کی۔ ہنڈن برگ کی رپورٹ میں درج ہے کہ ’’اڈانی کی لسٹیڈ کمپنیوں سے دیسی مارکیٹ بھی واقف ہے اور عالمی مارکیٹ بھی، اس کے باوجود دیسی مارکیٹ کے کسی فعال فنڈ (میوچوئل فنڈ) نے اڈانی گرین، اڈانی انٹرپرائز، اڈانی ٹوٹل گیس یا اڈانی ٹرانس مشن میں ایک فیصد سے زیادہ کے حصص نہیں خریدے۔‘‘ سوال یہ ہے کہ کیوں؟ جبکہ دُنیا کا دوسرا سب سے مالدار شخص (اب یہ منصب باقی نہیں رہ گیا ہے) ہندوستانی ہے، اس نے ’’کچھ نہیں‘‘ سے ’’بہت کچھ‘‘ کا طویل سفر طے کرنے میں کامیابی حاصل کی اور دھیرو بھائی امبانی جیسے قد آور صنعتکار کے مقابلے میں آکھڑا ہوا۔ یہ ایسی حقیقت تھی کہ جس پر شیئر بازار سے دلچسپی رکھنے والے ثروت مندوں کو فخر ہونا چاہئے تھا! مگر کیا وجہ ہے کہ ہندوستانیوں نے اس شخص کی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کو ترجیح نہیں دی؟ دوسری بات یہ کہ اڈانی کا بزنش انفراسٹرکچر، ہوائی اڈوں، بندرگاہوں، توانائی، کان کنی وغیرہ کا تھا جس کا براہ راست مفہوم یہ ہے کہ اس کا مقصد ترقیات تھا، وہی ترقیات جن پر موجودہ حکومت نے کافی اصرار کیا۔ اگر مَیں کہوں کہ یہ ترقیاتی سلسلے سونے یا ہیرے کے کاروبار کی طرح نہیں ہیں جو بہت کم لوگوں کی سمجھ میں آتے ہیں تو غلط نہ ہوگا یعنی اس تجارتوں میں تو سرمایہ کاری ممکن تھی مگر ہندوستانی ثروت مندوں نے اس میں دلچسپی نہیں لی۔ یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اڈانی، وزیر اعظم نریندر مودی کے کافی قریبی ہیں اور یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اُنہی کے دور اقتدار میں اڈانی کو وہ عالمی سطح منصب حاصل ہوا جو اس سے پہلے کسی کو حاصل نہیں تھا۔ ان تمام باتوں سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اڈانی کے کاروبار اور تجاری پیش رفتوں کے حوالے سے اُن کی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی جاسکتی تھی مگر ہندوستانیوں نے نہیں کی۔
 اب آئیے اُس دوسری بات پر جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا یعنی حکومت کا ردعمل۔ یہاں حکومت سے میری مراد اقتدار، اس کی ایجنسیاں، عدلیہ اور حصص بازار کا نگراں نظام (ریگولیٹری سسٹم) ہے۔ آپ نے دیکھا کہ ان میں سے کسی نے ہنڈن برگ رپورٹ پر اپنا ردعمل ظاہر نہیں کیا مگر مارکیٹ فوراً حرکت میں آیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مارکیٹ سے وابستہ جتنے بھی لوگ ہوتے ہیں اُن   سب نے ہنڈن برگ کی رپورٹ میں کچھ ایسا دیکھا جسے ای ڈی، سی بی آئی اور دیگر مرکزی ایجنسیاں اور ادارے نہیں دیکھ سکے۔ 
 اگر حکومت، اڈانی یا سربراہِ حکومت وزیر اعظم نریندر مودی کی ہمنوائی کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اسلئے ردعمل ظاہر نہیں کیا کہ یہاں (ہندوستان میں) کچھ نہیں ہوا ہے۔ کوئی ایسا سمجھتا ہے تو اسے روکا نہیں جاسکتا کیونکہ یہ اُس کا خیال ہے۔ ہر شخص کو اپنا خیال ظاہر کرنے کا اختیار ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اور اس کی ایجنسیوں کو اس سلسلے میں خاموشی اختیار کرنی چاہئے؟ اس کا جواب ہے نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ہنڈن برگ کے انکشافات اور اس کے بعد حصص بازار میں آنے والے بھونچال نے ’’نئے ہندوستان‘‘ کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ 
 ہنڈن برگ رپورٹ کا یہ مطمح نظر کہ جتنے بھی الزامات عائد کئے گئے ہیں وہ پرانے ہیں زیادہ پریشان کن ہے کیونکہ اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ جب یہ ساری باتیں پرانی ہیں یعنی کافی عرصہ سے عوامی حلقوں میں موجودہیں تو پہلے ہی اس گروپ کی بے ضابطگیوں پر گرفت کی جانی چاہئے تھی تاکہ نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ رپورٹ کے اور بھی کئی مندرجات چونکاتے ہیں جن کے نتیجے میں لامحالہ یہ سوال ذہن میں پیداہوتا ہے کہ آخر سیبی (سیکوریٹیز ایکس چینج کنٹرول بورڈ آف انڈیا) نے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی اور حکومت نے کیسے اس بات کو قبول کرلیا؟ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیبی سے دریافت کرنے کیلئے داخل کی گئی آر ٹی آئی درخواستیں ثابت کرتی ہیں کہ اڈانی کی آف شور کمپنیوں اور فنڈز پر گزشتہ ڈیڑھ سال سے میڈیا اور اراکین پارلیمان کے ذہنوں میں سوال پیدا ہورہا ہے۔ 
 قارئین نے شرلاک ہومس کی کہانیوں میں اُس کتے کے بارے میں پڑھا ہوگا جو بھونکتا نہیں تھا جبکہ معاملہ ایک مہنگے اور بہت قیمتی گھوڑے کی چوری اور اس کو سدھانے والے شخص (ٹرینر) کے قتل کا تھا۔ ہومس نے اپنی تفتیش سے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ اندر کا معاملہ ہوسکتا ہے کیونکہ کسی نے اُس کتے کو بھونکتے ہوئے نہیں دیکھا جو کہ داخلی دروازے پر موجود تھا۔ ہمارے یہاں معاملہ یہ ہے کہ جن ایجنسیوں کو فوراً حرکت میں آنا تھا وہ خاموش رہیں مگر مارکیٹ حرکت میں آگئی۔ اس کا بھونکنا (ردعمل ظاہر کرنا) ہنوز جاری ہے۔ جب تک مارکیٹ اس ردعمل کے اظہار میں فعال ہے تب تک اس بحران کے دریا کی طغیانی کم نہیں ہوگی۔ حکومت بہت سے الزامات سے چشم پوشی کرسکتی ہے یا ماحول کو اپنے حساب سے بدلنے کی کوشش کرسکتی ہے مگر جن معاملات سے توجہ ہٹائی جاسکتی ہے یہ وہ معاملہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اسے گھپلہ کہیں، غیر ضروری تنازع قرار دیں یا کوئی اور نام دیں، یہ پیچھا نہیں چھوڑے گا۔n

hindenburg Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK