Inquilab Logo

ہنڈن برگ کی رپورٹ نئی ہے، الزامات نہیں

Updated: February 05, 2023, 9:50 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جب بھی اور جو بھی الزام لگا یا گیا اس کی تحقیق کی جاتی اور ملک کے عوام کو بتایا جاتا کہ معاملہ کیا ہے مگر حکومت نے خاموشی اختیار کی جو شیئر مارکیٹ میں بھونچال آجانے کے باوجود جاری ہے۔

Hindenburg
ہنڈن برگ

قارئین جانتے ہیں کہ اڈانی گروپ کے حصص کو کس تباہی کا سامنا ہے۔ واضح رہے کہ ہنڈن برگ نامی امریکی فرم نے اپنا مقصد مخفی نہیں رکھا ہے۔ اس کا مقصد شارٹ پوزیشن لینا ہے یعنی اڈانی کے حصص کی قیمتیں گرنے سے جو صورت حال پیدا ہوگی وہ اس سے پیسہ کمانا چاہتی ہے۔ اس پس منظر میں اڈانی کا یہ کہنا درست ہے کہ جو کچھ بھی کیا گیا اس سے ہنڈن برگ کا ذاتی مفاد وابستہ ہے مگر اس نے تو اپنا مقصد علانیہ ظاہر کیا ہے کہ پیسہ لگایا ہی پیسہ کمانے کیلئے ہے۔ 
 ممکن ہے آپ واقف ہوں کہ ہندوستانی میوچوئل فنڈز نے اڈانی گروپ میں سرمایہ کاری نہیں کی، لیکن، ایل آئی سی نے، جو کہ حکومت کا ادارہ ہے، عوام کے پیسے سے ۷۵؍ ہزار کروڑ روپے اس  گروپ میں لگائے ہیں۔ اسی لئے، ہندوستانی عوام کا یہ جاننا ضروری ہے کہ اڈانی گروپ پر جو الزامات عائد کئے گئے ہیں وہ کیا ہیں۔ مَیں قارئین کی باخبری کیلئے اُنہیں یہاں درج کررہا ہوں:
 سب سے اہم انکشاف آف شور کمپنیوں کے تعلق سے ہے۔ یہ وہ کمپنیاں ہیں جو کہ گروپ میں شامل ہیں۔ ایسی کمپنیاں ٹیکس کے قوانین سے بچنے کیلئے اُن ملکوں میں اپنا دفتر کھولتی ہیں جہاں رہ کر وہ ٹیکس کے قوانین سے بچ سکیں۔ انہی کمپنیوں کے پاس اڈانی گروپ کی کمپنیوں کے بیشتر نان پروموٹر شیئر ہیں۔ اگر یہ ثابت ہوا کہ کمپنی کے بیشتر نان پروموٹر شیئر واقعی اُن کے پاس ہیں تو سیکوریٹیز اینڈ ایکس چینج کنٹرول بورڈ آف انڈیا (سیبی) کو لازماً کارروائی کرنی پڑے گی۔ پروموٹرس کو نان پروموٹر شیئرس رکھنے کا اختیار نہیں ہے کیونکہ اگر وہ حصص کی اکثریت کو اپنے پاس رکھیں گے تو حصص کو فروخت نہیں کرینگے جس سے اُنہیں قیمت کو بڑھانے گھٹانے کا موقع ملتا رہے گا۔ کیا ہم ایسی صورتحال کا مشاہدہ کررہے ہیں؟ 
 گزشتہ سال ’’بلومبرگ‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ اڈوانی گروپ کی مجموعی مالیت ۲۵۵؍ بلین ڈالر ہے جبکہ اس کی ۷؍ کمپنیوں کی مجموعی مالیت ۲؍ بلین ڈالر سے کم ہے۔ یہی نہیں، اڈانی گرین اینرجی لمیٹیڈ کے حصص میں گزشتہ تین سال میں غیر معمولی اُچھال آیا جو چار ہزار پانچ سو فیصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اڈانی کی دولت اور اُن کا دُنیا کے مالدار ترین لوگوں میں شامل ہونا اِن کمپنیوں کی مالیت کے سبب ہے نہ کہ ان کے منافع کے سبب۔ 
 اڈانی انٹرپرائزس کی یافت (رِوینیو) ۲۰۱۹ء میں ۱۵؍ ہزار ۵؍ سو کروڑ روپے، ۲۰۲۰ء میں ۱۶؍ ہزار ۲؍سو کروڑ، ۲۰۲۱ء میں ۱۳؍ ہزار ۳۵۸؍ کروڑ، ۲۰۲۱ء میں ۳۶۸؍ کروڑ اور ۲۰۲۲ء میں دوبارہ بڑھنے کے بعد ۲۶؍ ہزار ۸؍ سو کروڑ روپے مگر ۲۰۲۲ء میں ۷۲۰؍ کروڑ پر ہوئی۔ کسی کمپنی یا زائد کمپنیوں کی یافت یا آمدنی میں ۳؍ سو گنا یا ۶؍ سو گنا اضافہ اسٹارٹ اَپ جیسی کمپنیوں میں تو ممکن ہے جن کے سامنے نئے امکانات ہوتے ہیں مگر کثیر سرمائے کا مطالبہ کرنے والی انفراسٹرکچر کمپنیوں کیلئے نہیں۔
 بیرونی ملکوں کی جن کمپنیوں کا ہنڈن برگ کی رپورٹ میں حوالہ دیا گیا ہے وہ خالصتاً اڈانی گروپ کے حصص اپنے پاس رکھنے کیلئے ہیں، مثال کے طور پر، رپورٹ میں ’’ایلارا‘‘ نامی کمپنی کا ذکر ہے۔ اس کی مالیت ۳؍ بلین ڈالر ہے اور اس میں جو سرمایہ ہے اس کا ۹۹؍ فیصد اڈانی کے شیئرس کی شکل میں ہے۔ 
 ابتداء میں پارلیمنٹ کو اطلاع دی گئی تھی کہ انفورسمٹنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نہ تو اڈانی کی دولت کی چھان بین کررہا ہے نہ ہی منی لانڈرنگ کے معاملات کی۔ اس کے بعد ۲۰۲۱ء میں حکومت نے کہا کہ سیبی، ضابطوں کی پاسداری کے اڈانی کے چند معاملات کی جانچ کررہا ہے نیز ڈائریکٹوریٹ آف روینیو انٹیلی جنس اس گروپ کی چند اکائیوں کے معاملات کو دیکھ رہا ہے مگر اس کا کیا بنا، اب تک کسی کو نہیں معلوم۔ جب بلومبرگ کی رپورٹ منظر عام پر آئی تھی اور جس سے معلوم ہوا تھا کہ اُسے اُن لوگوں کے رابطہ نمبر نہیں مل سکے جن کے نام حکومت نے پارلیمنٹ میں ظاہر کئے تھے کہ یہ لوگ پیسوں کیلئے ذمہ دار ہیں (مثلاً مارکز بیٹ ڈینگل، انا لوزیا ون سینگر برگر اور السٹیئر گگن بوچی) مگر اس رپورٹ کے بعد بھی حکومت کی جانب سے کسی قسم کا ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔ اسکے برخلاف حکومت جن لوگوں کو اپنا مخالف سمجھتی ہے اُن کے خلاف ای ڈی کی کارروائی کتنی تیزی سے ہوتی ہے اس سے ہر خاص و عام واقف ہے۔
 ہنڈن برگ کے انکشافات میں کارپوریٹ گورننس یعنی کارپوریٹ کمپنیوں کے معاملات کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ کافی تشویشناک ہے۔ اڈانی انٹرپرائز ایک درج شدہ (لِسٹیڈ) کمپنی ہے۔ اس کے آزاد محتسب (آڈیٹر) شاہ دھندھاریہ کے چار پارٹنر ہیں اور صرف گیارہ ملازمین اُن کی فرم میں کام کرتے ہیں۔ یہ ہنڈن برگ ہی نے بتایا ہے۔ یہی فرم اڈانی ٹوٹل گیس کا حساب کتاب بھی جانچتی ہے۔ ایک اور بات جو نوٹ کرنے لائق ہے، یہ ہے کہ ایسے الزامات پہلے بھی لگے ہیں۔ جن اداروں نے لگائے ہیں اُنہیں معتبر کہا جاسکتا ہے اس کے باوجود حکومت نے اڈانی گروپ کے اُمور کی جانچ کی ضرورت محسوس نہیں کی۔نومبر ۲۰۲۰ء میں فنانشیل ٹائمس نے ’’مودی کے راک فیلر‘گوتم اڈانی اور ہندوستان میں ارتکاز ِ طاقت‘‘ ‘ کی سرخی کے ساتھ ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چھ ہوائی اڈے اڈانی کے حوالے کرنے کیلئے ضابطوں کو بالائے طاق رکھا گیا جبکہ اُنہیں ہوا بازی کے شعبے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ رپورٹ کے الفاظ میں: ’’راتوں رات اڈانی ملک کے سب سے بڑے پرائیویٹ ایئر پورٹ آپریٹر (منتظم یا مالک) بن گئے ۔ اڈانی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ ملک کی بندرگاہوں کے سب سے بڑے منتظم (مالک) اور تھرمل کول پاور کے سب سے بڑے پروڈیوسر بن گئے۔ یاد رہنا چاہئے کہ اڈانی کے پاس پاور ٹرانسٹمیشن بھی ہے اور گیس ڈسٹری بیوشن مارکیٹ بھی۔‘‘ 
 اس رپورٹ کے باوجود حکومت خاموش تھی مگر حیرت انگیز طور پر شیئر مارکیٹ میں بھونچال آنے کے باوجود اس کی خاموشی قائم ہے۔ ممکن ہے وہ سمجھ رہی ہے کہ چند دنوں میں معاملہ ٹھنڈا ہوجائے گا۔ ایسا ہوبھی سکتا ہے۔ اس خام خیالی میں رہنا ٹھیک نہیں کہ کچھ ہوگا۔ یہ بات اس بنیاد پر کہی جارہی ہے کہ ماضی کے الزامات کے پیش نظر بھی کچھ نہیں ہوا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ حکومت نے اپنے معاشی منصوبے، اڈانی جیسوں کو ایک سے بڑھ کر ایک موقع ملنے، ’’گودی تجارت‘‘ اور ملک کے قوانین سے چشم پوشی پر اُٹھنے والے بہت اہم سوالوں کے جواب دینا بھی گوارا نہیں کیا ہے۔ 
 بہرکیف، دیکھنا یہ ہے کہ اڈانی ہنڈن برگ کے خلاف مقدمہ کب دائر کرتے ہیں جس کا انہوں نے انتباہ دیا ہے۔ n

Hindenburg Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK