یہی وہ کتاب ہے جس میں ماضی اور مستقبل، زندگی اور موت، قبر اور قیامت، حشر اور نشر، ہر قسم کی خبریں موجود ہیں،اور یہی وہ کتاب ہے جس میں سیاسی اور تعبدی، معاشرتی و اقتصادی، شاہی اور گدائی، انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اصول پائے جاتے ہیں
EPAPER
Updated: July 14, 2023, 11:52 AM IST | Mumbai
یہی وہ کتاب ہے جس میں ماضی اور مستقبل، زندگی اور موت، قبر اور قیامت، حشر اور نشر، ہر قسم کی خبریں موجود ہیں،اور یہی وہ کتاب ہے جس میں سیاسی اور تعبدی، معاشرتی و اقتصادی، شاہی اور گدائی، انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اصول پائے جاتے ہیں
محمد صاحب
قرآن مجید اللہ کی کتاب ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ گوہرِ آب دار اور ایک ایک آیت درِّ نایاب ہے۔ زبان میں طاقت نہیں کہ اس کی تعریف بیان کر سکے اور قلم سکت نہیں رکھتا کہ اس کی صفات کو صفحہ قرطاس پر بکھیر سکے۔ ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ اس وقت آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر جتنی کتابیں یا کلام آسمانی یا انسانی موجود ہیں ان میں سب سےارفع و اعلیٰ، بہتر و برتر، معتمد اور صادق، غیر مبدل اور غیر متغیر قرآن مجید اور صرف قرآن مجید ہے۔ اکبر الہٰ آبادی سے کسی نے خدا کے بارے میں پوچھا تھا کہ ’’خدا کیا ہے؟‘‘ تو انہوں نے برجستہ جواب دیا تھا کہ ’’خدا ہے اور کیا ہے!‘‘
اور واقعہ یہ ہے کہ اس سے بڑھ کر خداوند کریم کی تعریف ممکن نہیں۔ بالکل اسی طرح قرآن مجید چونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے لہٰذا قرآن مجید خود ہی اگر اپنے متعلق کچھ بیان کر دے اور اپنے بارے میں خود ہی کوئی تعریفی الفاظ استعمال کر دے تو انہیں حرفِ آخر سمجھا جائے گا کیونکہ کلامِ خداوندی کی تعریف انسان کے بس سے باہر ہے، ہاں یہ ممکن نہیں تھا کہ خداوند کریم خود اپنے کلام کی تعریف نہ بیان فرما ئیں لہٰذا اس کیلئے ہمیں ارشادِ خداوندی ہی کا سہارا لینا پڑےگا۔ یا دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید کی تعریف صرف قرآن مجید ہی سے ممکن ہے اور یا پھر اللہ کے رسول ﷺ کا کلام روشن بیان اس سلسلے میں ہمارے لئے بہترین راہ نما ثابت ہو سکتا ہے۔
لہٰذا یہاں ہم پہلے قرآن مجید کی ان آیات کو ضبط تحریر میں لائیں گے جو خود قرآن مجید کے فضائل پر روشنی ڈالتی ہیں اور اس کے بعد احادیثِ مبارکہ کا بیان کریں گےے
فضائل قرآن،
قرآن مجید کی روشنی میں
ارشادِ ربانی ہے
’’ (قرآن مجید کی مثل کوئی کتاب بھی نہیں) اور اگر ہے اور تم اس دعوے میں سچے ہو تو اس کی مثل ایک آیت ہی لا کر دکھا دو۔‘‘(الطور: ۳۴)
’’ساری دنیا کے انسان اور جن باہم مل کر اگر یہ کوشش کریں کہ اس قرآن کی کوئی مثل کوئی کتاب لائیں تو وہ اس مقصد میں کبھی کامیاب نہ ہو سکیں گے۔‘‘(الاسراء: ۸۸)
’’اگر تمہیں قرآن مجید کے کلامِ الٰہی ہونے میں شک ہو تو تم اور تمہارے معبودانِ باطلہ اس جیسی ایک سورۃ ہی بنا کر لے آؤ، اگر تم سچے ہو (لیکن تم ایسا ہرگز نہیں کر سکو گے)۔‘‘
(البقرة: ۲۳)
مندرجہ بالا آیات سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دنیا میں کوئی کتاب قرآن مجید جیسی موجود نہیں یہ بے نظیر اور بے مثال ہے۔کسی نے خود کہا ہے کہ ’’کلام الملوک ملوک الکلام‘‘ یعنی بادشاہوں کا کلام، کلاموں کا بادشاہ ہے۔ اور اگر اس لحاظ سے بھی قرآن مجید کا جائزہ لیا جائے تو ظاہر ہے کہ جب خداوند کریم کا کوئی ثانی موجود نہیں ہے: ’’خدا کی برابری کرنے والا کوئی بھی نہیں۔‘‘ (اخلاص: ۴ ) تو خدا وند کریم کے کلام کا مقابلہ بھی کوئی نہیں کر سکتا۔
فضائل قرآن احادیث میں
٭ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، جو شخص تلاوتِ قرآن میں ایسا مشغول ہو جائے کہ اس کو میری یاد اور مجھ سے کچھ مانگنے کا بھی وقت نہ ملے تو میں ایسے شخص کو تمام سوال کرنے والوں سے بڑھ کر عطا کروں گا۔‘‘ `
٭حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تلاوت قرآن نماز میں بغیر نماز کی تلاوت سے بہتر ہے اور بغیر نماز کے تلاوت کرنا تسبیح و تکبیر سے بہتر ہے اور تسبیح صدقہ سے بہتر ہے اور صدقہ نفلی روزہ سے بہتر ہے اور روزہ دوزخ کی ڈھال ہے۔ ( بیہقی)
٭حضور ﷺ نے فرمایا کہ دل زنگ آلود ہو جاتے ہیں جیسے کہ لوہا پانی لگ جانے سے زنگ آلود ہو جاتا ہے، پوچھا گیا یا رسول اللہ، دلوں کا زنگ کس طرح دور ہو گا؟ فرمایا موت کے ذِکر اور تلاوتِ قرآن سے۔ (بیہقی )
٭جو شخص قرآن سیکھے اور اس کے بعد اوروں کو سکھائے وہ سب سے بہتر ہے۔ ( بخاری)
٭عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ حافظ قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن مجید ٹھہر ٹھہر کر پڑھ، جیسا تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا اور جنت کے درجات میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام تک چڑھتا چلا جا۔ پس جس مقام پر تو پڑھنا ختم کر گا وہ تیرا آخری مقام ہو گا۔
(ترمذی، ابو داؤد اور نسائی )
٭رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص قرآن پڑھے اور اس پر عمل کرے تو اس کے والدین کو قیامت کے دن ایک ایسا تاج پہنایا جائے گا کہ جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بھی زیادہ ہو گی۔ جب کہ سورج آسمان کے بجائے تمہارے گھروں میں موجود ہو اور پھر یہ بھی اندازہ کرو کہ جس شخص کے والدین کی یہ عزت ہے وہ خود کس قدر قابلِ عزت ہو گا! (احمد اور ابو داؤد )
٭عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: قرآن کا ماہر، لکھنے والے بزرگ نیکو کار کے ہمراہ ہو گا اور جو قرآن پڑھنے میں تکلیف اُٹھاتا ہے اور اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اس کے لئے دوگنا اجر ہے۔(بخاری اور مسلم )
٭حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے سنگترے کی سی ہے جس کی خوشبو بھی اچھی ہے اور ذائقہ و مزہ بھی اچھا ہے، اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا اس کھجور کی سی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہے اور مزہ میٹھا ہے۔ ( بخاری،مسلم )
مذکورہ بالا احادیث کے علاوہ بھی بہت سی ایسی احادیث موجود ہیں جو فضائل قرآن کے ضمن میں آتی ہیں ۔
چند اور خوبیاں
قرآن مجید کا ایک امتیازی وصف یہ ہے کہ یہ ہر زمانہ اور ہر دور کے لوگوں کے لئے قدیم ہونے کے باوجود نیا ہے یعنی ہر پڑھنے والا خواہ وہ کسی زمانہ سے تعلق رکھتا ہو یہی محسوس کرتا ہے کہ اس کی ہر بات گویا اسی کے لئے کہی گئی ہے۔قرآن مجید کا ایک خاص وصف یہ بھی ہے کہ ساڑھے چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود بھی اس میں اب تک کوئی ترمیم و تبدیلی نہیں ہو سکی۔ کیوں نہ ہو خداوند کریم نے خود اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے:’’بے شک ہم نے اس ذکر (کتاب) کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘
الغرض یہ وه کتاب ہے جس نے عرب کے گڈریوں کو شاہ جہاں، رہزنوں کو پاسباں، ظالموں کو عادل، سنگ دلوں کو رحمدل، دشمنوں کو دوست، بدخواہوں کو خیر خواہ، گمراہوں کو ہادی، مفسدوں کو مصلح، بت پرستوں کو موحد، حریصوں کو زاہد اور خود غرضوں کو خادمِ انسانیت بنا دیا۔
یہی وہ کتاب ہے جس کی تعلیم نے عرب کے بدوؤں کو فلاسفیٔ جہاں، استادِ زماں اور حکماء دوراں بنایا۔ یہی وہ کتاب ہے جس میں ماضی اور مستقبل، زندگی اور موت، قبر اور قیامت، حشر اور نشر، ہر قسم کی خبریں موجود ہیں۔ یہی وہ کتاب ہے جس میں سیاسی اور تعبدی (روحانی، عبادات سے متعلق) ، معاشرتی و اقتصادی، شاہی اور گدائی، انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اصول پائے جاتے ہیں۔ یہی وہ کتاب ہے جس کے قوانین کا نفاذ ستم کدۂ دنیا کو آماجگاہ امن اور نار کو گلزار بنا سکتی ہے اور ہمارا یہ بیان کسی ثبوت اور دلیل کا محتاج نہیں کیونکہ تاریخ شاہد ہے، صحابہؓ کا زمانہ اس بات کی واضح دلیل ہے۔
وائے افسوس! کہ صحابہ تو اس کتاب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر بامِ عروج کے آخری منازل تک جا پہنچے اور دین و دنیا کی نعمتوں سے مالا مال ہو کر خیر الامم اور خیرالبریہ کہلائے۔ اپنے اور بیگانے ان کے زیر سایہ رہنا خوش قسمتی اور غنیمت تصور کرتے تھے لیکن ہم قرآن سے دور ہٹ کر غیروں کے تابع ہو گئے اور ادبار و شقاوت کے اسفل ترین گڑھے میں جا گرے۔ اپنے اور بیگانے ہم سے متنفر ہو گئے اور ہماری ہمسائیگی سے بھاگنے لگے۔ بہرحال ابھی پانی سر سے نہیں گزرا۔ اگر اب بھی ہم خدا کے نیک بندے بن جائیں، اپنی زندگیاں قرآن کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ڈھال لیں تو اسلام کے دشمنوں کو ہماری طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھنے کی جرأت نہ ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بخشے۔
آمین