Inquilab Logo

محبت کی دکان کتنی دیر میں کھلی

Updated: December 29, 2022, 10:43 AM IST | Mumbai

جھوٹ کی چاہے جتنی تشہیر ہو وہ سچ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ نفرت کا بھی یہی حال ہے۔ نفرت چاہے جتنی طاقت سے پھیلائی جائے محبت کے آگے ٹھہر نہیں پاتی۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

جھوٹ کی چاہے جتنی تشہیر ہو وہ سچ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ نفرت کا بھی یہی حال ہے۔ نفرت چاہے جتنی طاقت سے پھیلائی جائے محبت کے آگے ٹھہر نہیں پاتی۔ دنیا کی شرارت پسند طاقتیں آفاقی صداقتوں کے برخلاف کام کرتی ہیں مگر ان کا انجام معلوم۔ تاریخ نے کبھی ان لوگوں کو معاف نہیں کیا ہے جو انسانیت کو اسکے منصب سے ہٹانے اور آفاقی صداقتوں کو جھٹلانے کی جرأت کرتے ہیں۔ اس لئے جب اندھیرا بڑھنے لگے تو اپنے حصے کی شمع جلانے کی کوشش بہترین مزاحمت ہے کیونکہ سورج کا طلوع ہونا برحق ضرور ہے مگر طلوع کا وقت متعین  ہے۔ روشنی کا کوئی طلبگار چاہے کہ اس کی مرضی سے سورج طلوع ہوجائے تو یہ ممکن نہیں۔ اسے اپنی شمعوں کے سہارے رات گزار کر طلوع آفتاب کے استقبال کیلئے تیار رہنا ہوگا۔ یہ فطرت کا اصول ہے۔ وہ لوگ جو حالات کی سنگینی سے شکستہ خاطر ہوتے ہیں، وہ فطرت کے اصول کو بدلنا چاہیں تو کتنی بھی طاقت لگالیں، اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔
 جب ہجومی تشدد کے لرزہ خیز واقعات آئے دن رونما ہورہے تھے، جھوٹ کا بازار گرم تھا، جعلی مسائل اٹھانے اور عوام کو گمراہ کرنے کی ہرممکن کوشش جاری تھی اور اسے کامیابی بھی مل رہی تھی، تب بہت سے لوگ مایوسی کے غار کے دہانے تک پہنچ گئے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ کچھ ہو، سورج نکل آئے مگر سورج کسی کے چاہنے سے قبل از وقت تھوڑے ہی نکل سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں لگتا نہیں کہ ابھی سورج نکلنے کا وقت ہے۔ ابھی جو وقت ہے وہ شمعیں روشن کرنے کا ہے اور ہم مایوس نہیں ہیں کیونکہ ہر قصبے اور شہر میں کم یا قابل قدر تعداد میں وہ لوگ موجود ہیں جو ظلمت شب کو برا بھلا کہنے یا ہاتھ پر ہاتھ دھرے سورج کا انتظار کرنے کی غلطی نہیں کر رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ انہوں نے اپنے حصے کی شمعیں جلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وہ شمعیں جلاتے رہے، آج بھی مصروف عمل ہیں۔ باد مخالف کے تیز جھونکوں کے باوجود ان کی حق گوئی میں فرق آیا نہ انصاف پسندی میں۔ وہ اپنے اصولوں سے ہٹے نہ اپنے نظریات کو دھندلا ہونے دیا۔ نام گنانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ایسی شخصیات سے ہر خاص و عام واقف ہے۔ انہیں مشکلات کا بھی سامنا ہوا اور آزمائشوں کا بھی مگر ان کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ ان کی وجہ سے مظلوموں کی ڈھارس بندھی، اضطراب میں مبتلا لوگ ناامیدی سے محفوظ رہے اور جو ناامیدی کے قریب پہنچ چکے تھے انہیں امید کا دامن میسر آیا۔ رفتہ رفتہ یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ مایوسی اسلئے بھی بے جا تھی کہ آپ ہی ظلمت شب کے اسیر نہیں تھے، آپ ہی پیچ و تاب نہیں کھا رہے تھے، لاکھوں کروڑوں لوگ آپ کے جیسے جذبات اور احساسات کے حامل تھے اور ہیں۔ انہی لوگوں کی وجہ سے بھارت جوڑو یاترا کو اتنی کامیابی ملی اور اب دوسرے مرحلے کیلئے بھی یہی امید ہے۔ یہ ایسی تاریخی کامیابی ہے کہ خود کانگریس کو اس کی توقع نہیں تھی۔ اگر یہ یاترا کانگریس نے نہ نکالی ہوتی، کوئی اور نکالتا تب بھی اسے اتنی ہی کامیابی ملتی۔ اس لئے ہم اسے کانگریس کی کامیابی نہیں سمجھتے، یہ ان کروڑوں عوام کی کامیابی ہے جو تبدیلی کے خواہشمند تھے اور انتظار کررہے تھے کہ کوئی پکارے تو وہ لبیک کہیں۔ انہوں لبیک کہنے میں بالکل بھی تاخیر نہیں اور جوق در جوق یاترا میں شامل ہوئے۔ اہم بات یہ کہ یہ کیفیت پہلے دن سے تھی۔ کیا کانگریس اب بھی یہ اعتراف نہیں کرے گی کہ اس نے ’’محبت کی دکان‘‘ کھولنے میں غیرمعمولی تاخیر کی؟ کیا کانگریس اب بھی محاسبہ نہیں کرے گی کہ جب نفرت کا بازار گرم کیا جارہا تھا تب مرکز اور بیشتر ریاستوں میں کسی اور کی نہیں، اسی کی حکومت تھی وہ بھی بلا شرکت غیرے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK