Inquilab Logo

عالمی جدوَلوں میں ہماری ناقص کارکردگی کب تک؟

Updated: March 26, 2023, 10:06 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

مضمون نگارکے بقول کوئی ایک عالمی جدول بھی ایسا نہیں جس میں وطن عزیز کو ۲۰۱۴ء کے مقابلے میں بہتر بتایا گیا ہو۔ ہر جدول میں ہماری ریٹنگ کم ہوئی ہے۔

Nine years ago, in 2014, Dr. Manmohan Singh had said that "I feel very seriously that the appointment of Narendra Modi as Prime Minister will prove disastrous for the country."
نو سال پہلے، ۲۰۱۴ءمیں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ ’’مَیں اس بات کو بہت سنجیدگی کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ نریندر مودی کا بہ حیثیت وزیر اعظم مسند نشین ہونا ملک کیلئے تباہ کن ثابت ہوگا۔

اب سے نو سال پہلے، ۲۰۱۴ءمیں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ ’’مَیں اس بات کو بہت سنجیدگی کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ نریندر مودی کا بہ حیثیت وزیر اعظم مسند نشین ہونا ملک کیلئے تباہ کن ثابت ہوگا۔‘‘ اس کے چار سال بعد اُن کا تبصرہ کچھ اس طرح تھا: ’’مَیں سمجھتا ہوں کہ ۲۰۱۴ء میں مَیں نے جو بات کہی تھی اُس کے الفاظ سخت تھے مگر وہ وقت دور نہیں جب ملک کے عوام اُن پالیسیوں پر اپنی رائے دینے پر مجبور ہوں گے جو مودی جی نے جاری کی ہیں۔‘‘
 مودی حکومت کے اقتدار کو عنقریب دس سال پورے ہونگے اور میرے خیال میں دس سال کاعرصہ کافی ہوتا ہے کسی حکومت کی پالیسیوں کا جائزہ لینے کیلئے چنانچہ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ جو بات ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کہی تھی وہ صد فیصد درست ثابت ہوئی یا جزوی طور پر درست ثابت ہوئی یا اُن کی بات قطعی غلط ثابت ہوئی۔ چند سال پہلے جب مَیں نے محسوس کیا کہ بحیثیت وزیر اعظم نریندر موید کی کارکردگی کا جائزہ لینے اور اپنی بات کہنے کیلئے ضروری شواہد موجود ہیں تب مَیں نے کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس کتاب کا نام ہے: ’’مودی کے اقتدار کی قیمت‘‘۔ (دی پرائز آف مودی ایئرس)۔ یہ کتاب پہلے پیپر بیک ایڈیشن میں شائع ہوئی پھر ہارڈ کوور میں اور اب تیسری مرتبہ اس کی اشاعت ہورہی ہے جو پیپر بیک ہوگی۔ اس تیسرے ایڈیشن کیلئے مجھے چند ابواب پر نظر ثانی کرنی ہوگی بالخصوص وہ باب جس میں مَیں نے عالمی اشاریوں اور جدولوں کا حوالہ دیا ہے۔ یہ اشارے اور جدول الگ الگ معیارات سے متعلق ہیں جن میں ۲۰۱۴ء سے پہلے کی صورت حال کا اور بعد کی صورت حال کا موازنہ کیا گیا ہے۔ نئی صورت حال کا مطالعہ کرتے وقت وزیر اعظم مودی کے ناقدین کو یہ جان کر حیرت نہیں ہوگی کہ کئی معیارات پر اس حکومت کی کارکردگی کم ہوئی ہے۔ ۵۳؍ میں سے ۴۹؍ جدول ایسے ہیں جن میں ہماری درجہ بندی پہلے سے خراب ہوئی ہے۔ یہ جدول یا ان کی بنیاد پر جو باتیں لکھی گئی ہیں وہ اُن کے حامیوں کو بھی حیرت زدہ نہیں کرے گی کیونکہ اُن کا خیال ہے کہ جدول یا الگ الگ معیارات میں کارکردگی اس لئے خراب دکھائی جارہی ہے کیونکہ بہت سے لوگ مودی جی کے خلاف بولتے اور لکھتے ہیں۔ اُن کی نظر میں ایسے جدول جو کارکردگی پر سوال قائم کرتے ہیں، ہند مخالف مہم کا حصہ ہیں۔ جو بھی ہو، میرا معاملہ یہ ہے کہ کتاب لکھ لینے اور اس کا ازسرنو جائزہ لینے کا مفہوم یہ ہے کہ مَیں نے تسلسل کے ساتھ اعدادو شمار کا مطالعہ کیا ہے اور ان پر اپنی رائے قائم کی ہے۔ میرے قارئین ، مبصرین اور تجزیہ کار میرے مطمح نظر سے یا جن نتائج پر مَیں پہنچا ہوں اس سے اختلاف بھی کرسکتے ہیں اور اس کی توثیق بھی کرسکتے ہیں مگر ہر صورت میں اُنہیں مطالعہ کرنا ہوگا کہ مَیں نے لکھا کیا ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ مَیں یا میرا تجزیہ جانبدارانہ ہے تو یہ راہ فرار اختیار کرنے جیسا ہے۔ 
 اس ہفتے کے واقعات کے پیش نظر مَیں چاہتا ہوں کہ جمہوری آزادی اور شہریوں کے حقوق کے سلسلے میں جو کچھ بھی میارے پاس ہے اُسے عوام کے سامنے رکھوں تاکہ یہ عوام بھی جان لیں کہ بیرونی دُنیا ہمارے ملک کو کس زاویئے سے دیکھتی ہے۔ یہ مواد اُن تھنک ٹینکس کا فراہم کردہ ہے جو قدامت پسند (دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے) بھی ہیں اور آزادانہ سوچ رکھنے والے بھی۔ان لوگوں نے پوری دُنیا کے متعدد ملکوں کے حالات کا جائزہ لیا ہے صرف ہندوستان کا نہیں، اس لئے یہ کہنا غلط ہوگا کہ انہوں نے جو کچھ بھی کہا یا جو تجزیہ کیا وہ ہندوستان مخالف مہم کا حصہ ہے۔
 اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ (جس کا صدر دفتر لندن میں ہے) نے جمہوریت کے جدول برائے ۲۰۲۰ء میں ہندوستان کو مستحکم جمہوریت کے زمرے میں نہیں رکھا بلکہ ’’فلاڈ ڈیموکریسی‘‘ (خام اور ناقص جمہوریت) قرار دیا ہے۔ ۲۰۲۲ء کے جدول میں بھی ہمارے بارے میں کچھ ایسا ہی تاثر قائم کیا گیا ہے۔اس جدول میں پیش کردہ تفصیل کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہمیں انتخابی عمل اور تکثیریت کے معاملے میں تو اچھے نمبرات ملے ہیں مگر شہری حقوق اور سیاسی ماحول کے ذیل میں بہت کم نمبر حاصل ہوئے ہیں۔ یہ جدول ۲۰۰۶ء سے تسلسل کے ساتھ بنایا جارہا ہے اور درجہ بندی میں ہمارا گھسٹنا یا پچھڑنا ۲۰۱۷ء سے شروع ہوا ہے۔
 کیٹو انسٹی ٹیوٹ (جس کا صدر دفتر واشنگٹن میں ہے)، انسانی آزادی جدول تیار کرتا ہے جس کے تحت دیکھا جاتا ہے کہ کسی ملک میں قانون کی بالادستی کتنی ہے،شہریوں کو مذہبی آزادی کس حد تک میسر ہے، شہری حقوق کتنے حاصل ہیں اور دُنیا میں تجارت کرنے کے کتنے مواقع اُن کے سامنے ہیں۔ اس میں ۲۰۱۵ء میں ہندوستان ۷۵؍ ویں مقام پر تھا، ۲۰۲۲ء میں ۲۰۲۰ء کی تفصیلات کی بنیاد پر ۱۱۲؍ ویں مقام پر آگیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ادارے نے انسانی آزادی اور ذاتی آزادی کے تحت ہمیں بہت کم نمبر دیئے ہیں۔
 فریڈم ہاؤس ایسا ادارہ ہے جسے امریکی حکومت سے سرمایہ ملتا ہے۔ اس ادارہ نے ۲۰۱۴ء میں ہمارے ملک کو ۷۷؍ واں مقام دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ’’آزاد‘‘ ملک ہے۔ اس ادارے کے نزدیک آزادی سے دو باتیں مراد لی جاتی ہیں۔ پہلا ہے سیاسی حقوق۔ اس میں ہندوستان کو اچھے نمبرات ملے ہیں۔ اس میں آزاد اور منصفانہ انتخابات کا ذکر ہے۔ دوسرا ہے شہری حقوق۔ اس باب میں ہمیں بہت کم نمبرات ملے۔ یہ نمبرات ۲۰۱۴ء کے بعد سے مسلسل کم ہوئے ہیں۔ ۲۰۲۰ء میں ہندوستان کو ’’جزوی آزاد‘‘ قرار دیا گیا۔ ۲۰۲۲ء میں بھی یہی کیفیت بتائی گئی اور درجہ بندی میںہماری پوزیشن نیچے چلی گئی۔
 ایسے اور بھی کئی جدول ہیں جن کا تذکرہ انگریزی میں میرے مکمل مضمون میں موجود ہے۔ یہاں اختصار کی غرض سے کہنا یہ ہے کہ کوئی ایک جدول بھی میری نظر سے ایسا نہیں گزرا جس میں کہا گیا ہو کہ ہندوستان ۲۰۱۴ء کے مقابلے میں اب زیادہ جمہوری اور زیادہ آزاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے آس پاس جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ کافی عرصہ سے ہوتا آرہا ہے مگر اب حالات تشویش کی حدوں میں داخل ہوگئے ہیں۔ اب ہمارے پاس ایک ہی متبادل ہے۔ وہ یہ کہ حالات کو بہتر اور جمہوریت نیز شہریوں کی آزادی کو یقینی بنائیں۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK