Inquilab Logo

کب تک بے بس رہے گا ’اقوام متحدہ‘؟

Updated: October 20, 2022, 12:51 PM IST | Ramzy Baroud | Mumbai

عالمی سطح پر جیسے جیسے حالات سنگین ہوتے جارہے ہیں، ویسے ویسے اس ادارہ کی بے اثری اور بے بسی بڑھتی جارہی ہے۔ اس کے اجلاسوں میں بڑی طاقتوں کی بالادستی رہتی ہے اور فوری حل کے طالب مسائل اُٹھائے بھی گئے تو یہ کوشش بے نتیجہ رہتی ہے۔

United Nations .Picture:INN
اقوام متحدہ ۔ تصویر:آئی این این

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ۷۷؍ واں اجلاس کئی زاویوں سے بالکل ویسا ہی تھا جیسا کہ ۷۶؍ واں اجلاس۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اب سے پہلے کے چند اجلاس جیسے تھے یہ اجلاس بھی ویسا ہی تھا۔ خوب لچھے دار گفتگو اس اجلاس کی خاص پہچان ہے۔ یہاں جو کچھ کہا جاتا ہے اُس پر شاذ ہی عمل ہوتا ہے۔ اور ہاں، اس میں ایک کام اور ہوتا ہے۔ کچھ سیاسی لیڈروں کو موقع مل جاتا ہے کہ اپنے حریفوں کو ہدف بنائیں۔ حقیقت حال یہی ہے۔ اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔کئی سال سے دیکھنے میں آرہا ہے کہ اقوام متحدہ دُنیا کی بڑی طاقتوں کا ’’چیئر لیڈر‘‘ بن گیا ہے۔ اگر یہ نہیں تو اس کی حیثیت سماجی، سیاسی، معاشی اور صنفی عدم مساوات کے خلاف احتجاج کے پلیٹ فارم کی سی ہوگئی ہے۔ افسوس کہ تیس سال پہلے عراق جنگ کے ذریعہ جو ثابت ہوا تھا وہی یوکرین روس کی جاری جنگ کے ذریعہ ثابت ہورہا ہے۔ یہی کہ عالمی امن، مساوات اور سلامتی کے باب میں اقوام متحدہ اپنی کوئی ذمہ داری محسوس نہیں کرتا۔ ایسے میں انتونیو غطریس جیسوں کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوتی ہے جو پائیدار امن کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ اس ضرورت پر غوروخوض کرنے کے بجائے اِس بار پورا سیشن بڑی توپوں کی اس کوشش کی نذر ہوگیا کہ یوکرین کی جنگ کس طرح زیادہ عرصے تک جاری رہے تاکہ یہ توپیں اپنے اسٹراٹیجک مقاصد کو پورا کرسکیں۔ غطریس کی طرح، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر صبا کوروسی (Csaba Korosi) کے خیالات سن کر بھی ایسا لگا جیسے اُنہیں عملی اقدام سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ مَیں تو یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ اُن کی تقریر موجودہ حالات سے عدم تعلق کی غمازی کررہی تھی۔ کوروسی نے منگل، ۲۰؍ ستمبر کو اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ ’’انسانیت کو لاحق سب سے بڑے چیلنجز کے مقابلے کیلئے ضروری ہے کہ ہم سب مل کر جدوجہد کریں۔ ہمارا اشتراک، ہمارا ایک دوسرے سے رابطہ اور ہماری تکثیریت ہی ہماری اصل طاقت ہے۔‘‘  مَیں اس خیال کی قدر کرتا ہوں مگر اس کی عملی ترجمانی کہاں دکھائی دیتی ہے؟ اشتراک کہاں ہے؟ رابطہ کہاں ہے؟ اور تکثیریت کہاں ہے؟  اگر اشتراک، رابطہ اور تکثیریت سے اثر پزیری پیدا ہوتی ہے  تو وہ اثر پزیری کہاں ہے؟ پہلے لیگ آف نیشنز تھی، اب اقوام متحدہ ہے مگر اس کے قیام کو طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ’’اثر‘‘ یا نتیجہ کیا ہے؟کیا اقوام متحدہ فلسطین کے مسئلہ کو حل کرسکا؟ کیا سوڈان، مالی، افغانستان اور دیگر ملکوں کے معاملات و مسائل میں اقوام عالم کی مدد سے کوئی فیصلہ کن نتیجے تک پہنچ سکا؟ کیا مختلف ملکوں کی شورش کو ختم کیا جاسکا؟ اور تازہ سوال یہ کہ کیا اس نے یوکرین کی جنگ ختم کرانے میں کوئی خاص دلچسپی لی؟ ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیوں کے سلسلے میں بھی، جو کہ دورِ حاضر کے سنگین تر مسائل میں سے ایک ہے، اقوام متحدہ کی اثر پزیری دکھائی نہیں دیتی۔ یوکرین بحران سے ایسی صورتحال بنی اور ذاتی مفاد کیلئے اختیار کی گئی سفارتی پالیسی نے وہ گل کھلایا کہ وہ ممالک بھی اب پیچھے ہٹ رہے ہیں جنہوں نے صاف ستھری توانائی کا وعدہ کیا تھا اور اس سلسلے میں پیش رفت کررہے تھے۔
 ماحولیاتی اور موسمی تبدیلی جیسے اہم اور سنگین موضوع سے لیڈروں کی عدم دلچسپی کا یہ منظر بھی دیکھنے کو ملا کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن اُس گول میز کانفرنس یا گفتگو سے مبینہ طور پر غیر حاضر رہے جو ماحولیاتی لائحہ عمل کیلئے منعقد کی گئی تھی۔ ایک سال پہلے اگر ایسا ہوتا (یعنی صدرِ امریکہ غیر حاضر رہتا) تو امریکی ماہرین ماحولیات برہم ہوجاتے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ سیاسی اعتبار سے یہ موضوع اپنی کشش کھوچکا ہے۔ اپنے بہت سے داخلی تضادات کے باوجود، امن اور سلامتی پر اقوام متحدہ کی ناکامی ہے کہ ہنوز جاری ہے۔ امریکہ اور اس کے مغربی حلیفوں کیلئے یہ اسٹیج اپنی سیاسی طاقت کے مظاہرہ کا اسٹیج بن چکا ہے جو کہ عرصۂ دراز سے اسی مفاد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ امریکہ اور مغربی طاقتوں کے نزدیک یہ اُن کی جاگیر ہے جو اُنہیں دوسری جنگ عظیم میں مال غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی تھی۔ ان بڑی طاقتوں کے برخلاف دیگر ممالک اور خطے مثلاً افریقہ، مشرق وسطیٰ اور بہت سے جنوبی ممالک کو اقوام متحدہ سے تھوڑی بہت حمایت مل جاتی ہے چنانچہ اُن کے مسائل و معاملات زیر بحث لائے جاتے ہیں مگر ایسی آواز میں کہ کچھ سنائی نہیں دیتا۔ اس آواز کی لہروں پر سوار ہوکر کوئی بات اراکین تک پہنچتی بھی ہے تو اس کا اثر عارضی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی ممالک مل جل کر بھی اتنے باا ثر نہیں ہوتے کہ اجلاس کے نتائج پر اثرانداز ہوسکیں یا نئی سرمایہ داری کو چیلنج کرسکیں یا معاشی استحصال کیخلاف کسی کارروائی کو یقینی بناسکیں یا نسل پرستی ختم کرواسکیں یا فوجی مداخلت اور سیاسی شعبدہ بازی کو موضوع بنا کر اس پر لگام دینے کی کامیاب کوشش کرسکیں۔ ۲۰؍ ستمبر کو ایک کھلے خط میں جو کہ عالمی لیڈروں کے نام لکھا گیا تھا، ۲۰۰؍ سے زائد انسانی حقوق کی تنظیموں نے مطالبہ کیا کہ غذائی قلت کا بحران ختم کیا جائے جس سے ہر چار سیکنڈ پر دُنیا میں کسی ایک انسان کی موت ہوسکتی ہے۔ اس خط کے دستخط کنندگان میں آکسفم  اور سیو دی چلڈرن جیسی تنظیمیں شامل تھیں۔ یہ بحران افریقی ملکوں کیلئے زیادہ پریشان کن ہے حالانکہ یہ وہ خطہ ہے جہاں غذائی قلت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مگر، اب یہ خطہ غذائی بحران کے جن اندیشوں سے گھرا ہوا ہے اُس کے پیش نظر یہ ضروری تھا کہ اس کا جو سبب ہے یعنی ماحولیاتی تبدیلی، وہ موضوع بحث بنتا مگر ایسا نہیں ہوا۔ کووڈ نے بھی اس خطہ کو ہلکان کیا اور اس کے بعد یوکرین کی جنگ سے مسائل تو اور بھی ناگفتہ بہ ہوگئے۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ اجلاس میں اقوام متحدہ نے افریقی ملکوں کو غذائی رسد بھیجنے پر زور دیا مگر یہ درخواست بھی ایسے سنی گئی جیسے کوئی غیر اہم بات کہی گئی ہو۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اقوام متحدہ فاقہ کشی کے دہانے پر پہنچنے والے بچوں کو غذا دلانے میں کوئی خاص کردار ادا کرسکتا ہے نہ ہی کوئی دوسرا عالمی مسئلہ جو شدید اور فوری نوعیت کا ہو، حل کرسکتا ہے۔ تو کیا وہ وقت نہیں آگیا ہے کہ اس کا ڈھانچہ بدلا جائے اور اس سوال سے بحث کی جائے کہ اس کا مشن کیا ہے اور کیا ہونا چاہئے؟ اس سے انکار نہیں کہ اِدھر کافی عرصہ سے اس میں اصلاحات کا مطالبہ کیاجارہا ہے اور یہ درست مطالبہ ہے تاکہ یہ ادارہ نئے جمہوری انداز سے لیس ہو، معاشی حقائق کو سمجھے اور عدم مساوات کے خاتمے کی پُراثر کوشش کرے۔ اس ادارہ میں خاص خاص ملکوں کی جو بالادستی ہے، وہ کئی رکاوٹیں پیدا کرتی ہے چنانچہ اس میں توازن پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK