Inquilab Logo

فلسطینی انتخابات کتنے بامعنی ہوں گے؟

Updated: April 11, 2021, 7:36 PM IST | Ramzy Baroud

محمود عباس کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا گیا ہے کہ عنقریب فلسطین میں الیکشن ہوگا۔ مگر یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ الیکشن کا ہونا شرط نہیں ہے، بامعنی ہونا شرط ہے، اور، الیکشن بامعنی تبھی ہوگا جب قابض طاقت (اسرائیل) اس کی مہلت اور موقع دے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔تصویر :آئی این این

کئی فلسطینی دانشور اور سیاسی مبصرین تذبذب میں ہیں کہ ۲۲؍ مئی اور ۳۰؍ جولائی کو ہونے والے فلسطینی انتخابات کی حمایت کریں یا مخالفت۔ یہ تذبذب اس لئے ہے کہ اس سوال کا کوئی آسان جواب نہیں ہے۔ گزشتہ جنوری میں فلسطینی اتھاریٹی کے صدر محمود عباس کے اعلان کا، کہ آئندہ چند مہینوں میں انتخابات ہوں گے، وسیع پیمانے پر خیرمقدم کیا گیا تھا۔ اس اعلان کا طویل عرصے سے انتظار تھا۔ اس لئے نہیں کہ انتخابات منعقد کرانا جمہوریت کی کوئی قابل ذکر فتح ہوگی بلکہ اس لئے کہ اس کی وجہ سے محمود عباس کی فتح پارٹی اور حماس کے درمیان مثبت مذاکرات کی سبیل پیدا ہوگی ۔ جہاں تک فلسطین کے داخلی مذاکرات کا تعلق ہے، ان کے امکان کے ساتھ ہی کئی ’’اگر‘‘ لگے ہوئے ہیں، مثال کے طور پر اگر فلسطینی مراکز اقتدار ۲۴؍ ستمبر کے استنبول معاہدہ پر رضامندی ظاہر کریں، اگر اسرائیل نے فلسطینیوں کو موقع دیا بشمول یروشلم کے لوگوں کے تاکہ وہ بے خوف ہوکر ووٹنگ کرسکیں، اگر امریکہ کی قیادت میں بین الاقوامی برادری نے جمہوری انتخابات کے جو بھی نتائج برآمد ہوں اُنہیں تسلیم کیا اور جیتنے والی پارٹی کو ’’سزا‘‘ نہیں دی اور اگر قانون ساز ادارہ کے نیز عہدۂ صدارت کے انتخابات کی تکمیل کے بعد فلسطینی قومی کونسل (پی این سی) کا الیکشن بھی کرایا جائے۔ واضح رہے کہ یہ کونسل جلاوطن فلسطینی پارلیمنٹ ہے۔ یہ محض چند ’’اگر‘‘ ہیں جو ہم نے بیان کئے ہیں۔ ایسے اور بھی ہیں چنانچہ ان میں سے کوئی بھی شرط پوری نہیں ہوئی تو غالب امکان اس بات کا ہے کہ مئی میں ہونے والے انتخابات سے کوئی عملی مقصد پورا نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ محمود عباس اور اُن کے مخالفین کو اپنی پوزیشن کیلئے قانونی جواز حاصل ہوجائے گا۔  ان باتوں کے ذریعہ مَیں جس اہم سوال کی طرف آنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کیا فوجی تسلط کے سائے میں جمہوریت پنپ سکتی ہے؟ قارئین کو یاد ہوگا کہ ۲۰۰۶ء میں جب فلسطینی قانون ساز ادارہ کے انتخابات عمل میں لائے گئے تھے، تب ان کے نتائج حکومت اسرائیل کو اس حد تک ناگوار گزرے تھے کہ اس نے ۶۲؍ فلسطینی وزیروں اور نوتشکیل شدہ پارلیمنٹ کے اراکین کو جیل میں ڈال دیا تھا۔ اُن میں سے کئی ایسے ہیں جو اَب بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ 
 تاریخ اپنے آپ کو دُہرا رہی ہے کیونکہ اسرائیل نے مغربی کنارہ کے حماس لیڈروں اور دیگر اراکین کی گرفتاری کی مہم شروع کردی ہے۔ ۲۲؍ فروری کو ۲۰؍ فلسطینی رضاکار، جن میں حماس کے افسران بھی تھے، حراست میں لے لیا گیا جس سے اشارہ ملتا ہے کہ حکومت اسرائیل فلسطینی گروپوں کے مذاکرات کو مانتی ہے نہ ہی اُن کے اتحاد اور جمہوریت کو تسلیم کرتی ہے۔ 
 اس کے دو روز بعد ہی مقبوضہ مغربی کنارہ میں اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس نے ۶۷؍ سالہ حماس لیڈر مروان برغوتی کو طلب کیا اور باقاعدہ متنبہ کیا کہ وہ آنے والے انتخابات میں حصہ نہ لیں۔ المونیٹر کو دیئے گئے اپنے بیان میں برغوتی نے کہا کہ ’’مجھے دھمکی دی گئی کہ اگر الیکشن میں حصہ لیا تو جیل میں ڈال دیا جائیگا۔‘‘فلسطین کا قانون محروسین کو الیکشن لڑنے کی اجازت دیتا ہے خواہ وہ قانون ساز ادارہ کے لئے منتخب ہونا چاہیں یا صدارتی انتخاب لڑنا چاہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ فلسطین کے تمام مقبول لیڈر عام طور پر جیلوں ہی میں ہوتے ہیں۔ مروان برغوتی ان میں سے ایک ہیں جو ۲۰۰۲ء سے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ان کی مقبولیت میں دو رائے نہیں ہوسکتی یہ الگ بات کہ نوجوان کارکنان اُنہیں زیادہ پسند کرتے ہیں بہ نسبت محمود عباس کے معمر حامیوں کے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سیاسی سرپرستی کے بدعنوان نظام سے مستفید ہوتے رہے ہیں اور انہی کے سپورٹ سے ۸۵؍ سالہ صدر محمود عباس نے اپنی اتھاریٹی کی تشکیل کی ہے۔ اسی نظام کو بچانے کیلئے محمود عباس اور اُن کے ہمنواؤں نے برغوتی کو حاشئے پر لانے کی ہر ممکن کوشش کی۔  اسی لئے بعض لوگ یہ تک کہتے ہیں کہ اسرائیلی حکومت کے ذریعہ کچھ گرفتاریاں اس لئے ہوتی ہیں کہ محمود عباس کے مفادات کی حفاظت ہوتی رہے۔اس الزام کو سرے سے خارج نہیں کیا جاسکتا کیونکہ فلسطینی اتھاریٹی کے صدر محمود عباس نے مروان برغوتی کی رہائی کیلئے آج تک کچھ نہیں کیا ہے۔یہی نہیں، فلسطین میں مقبولیت کو آنکنے کیلئے جو بھی سروے (اوپینین پول) ہوئے اُن میں برغوتی کی مقبولیت محمود عباس سے کہیں زیادہ ہے۔  ۱۱؍ فروری کو عباس نے شہری اُمور کے وزیر اور فتح کی سینٹرل کمیٹی کے رکن حسین الشیخ کو برغوتی سے ملاقات کیلئے روانہ کیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اُنہیں صدارتی انتخاب میں حصہ نہ لینے کیلئے ہموار کیا جائے۔ عباس کے خیال میں اُن کیلئے بہتر صورت یہ ہوگی کہ فلسطینی لیجسلیٹیو کونسل کے اُمیدواروں کی فہرست میں برغوتی کا نام سب سے پہلے لکھا جائے تاکہ اُن کی مقبولیت کا فائدہ ملے۔ اس کی وجہ سے فتح کے سپورٹرس بڑی تعداد میں انتخابی عمل میں حصہ لیں گے اور عباس کی صدارت پر آنچ نہیں آئے گی۔ مگر، برغوتی نے پوری شدت کے ساتھ محمود عباس کی تجویز کو ٹھکرا دیاجس کا ممکنہ نتیجہ یہ ہوسکتا ہے کہ فتح کے ووٹ منقسم ہوں گے، عباس فلسطینی لیجسلیٹیو کونسل کا الیکشن ہار جائیں گے اور صدارتی الیکشن برغوتی جیت جائینگے۔ فتح مومنٹ میں تقسیم اور اس کے ساتھ ہی اسرائیلی ملٹری کے شبینہ چھاپوں کے پیش نظر یہ کہنا مشکل ہے کہ انتخابات میں فلسطینی عوام، آزادی فلسطین کو مستحکم کرنے اور اسرائیلی جبر سے گلوخلاصی کی راہ ہموار کرنے کیلئے متحدہ ووٹ دے یں گے۔ مسئلہ اتنا ہی نہیں ہے۔ انتخابات ہوجائیں، اس کے بعد بھی یہ طے نہیں ہے کہ عالمی برادری نتائج کو شرف قبولیت بخشے گی۔ اطلاعات شاہد ہیں کہ حماس نے قطر اور مصر سے یہ ضمانت چاہی ہے کہ اسرائیل الیکشن میں اپنے تائید یافتہ اُمیدواروں کو کھڑا نہیں کرے گا۔ اگر یہ ضمانت مل جائے تب بھی کیا اس سے یہ گیارنٹی ملتی ہے کہ اسرائیل اقوام متحدہ کی قرارداروں کو مان لے گا یا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی سے باز رہے گا یا عالمی عدالت کے حکم پر سر تسلیم خم کردے گا؟ جب تک اسرائیل اپنی جارحیت کو ترک نہیں کرتا، فلسطینی زمینوں کو خالی نہیں کرتا، اہل فلسطین کے ساتھ ظلم و جبر کا رویہ ترک کرکے اُنہیں عزت نفس کے ساتھ جینے اور اپنے فیصلے خود کرنے کی آزادی نہیں دیتا، فلسطین میں بہتر طریقے پر الیکشن ہوجائے تب بھی اس سے کون سا بڑا فرق پڑ جائیگا یا فائدہ ہوجائیگا! 
(مضمون نگار  مشہور صحافی اور ’فلسطین کرانیکل‘ کے مدیر ہیں)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK