Inquilab Logo

چین کو کیسے جواب دیا جائے؟

Updated: July 04, 2020, 10:15 AM IST | Editorial | Mumbai

چین نے کووڈ۔۱۹؍ کے حالات کا فائدہ اُٹھا کر جس طرح لداخ میں ہندوستان کے خلاف جارحیت اور پیش قدمی کا مظاہرہ کیا اُس سے اہل وطن کے جذبات میں اشتعال پیدا ہونا فطری عمل ہے جس کے زیر اثر یہ مطالبہ زور پکڑ چکا ہے کہ چین کو دنداں شکن جواب دیا جائے۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

 چین نے کووڈ۔۱۹؍ کے حالات کا فائدہ اُٹھا کر جس طرح لداخ میں ہندوستان کے خلاف جارحیت اور پیش قدمی کا مظاہرہ کیا اُس سے اہل وطن کے جذبات میں اشتعال پیدا ہونا فطری عمل ہے جس کے زیر اثر یہ مطالبہ زور پکڑ چکا ہے کہ چین کو دنداں شکن جواب دیا جائے۔ یہ مطالبہ اپنی جگہ درست ہوسکتا ہے مگر کیا جارحیت کا جواب جارحیت ہی سے دیا جانا چاہئے؟ امریکہ نے جب ہیروشیما اور ناگاساکی پر بم برسائے تھے تب جاپان نے پلٹ کر امریکہ پر بمباری نہیں کی تھی۔ نہ تو اُس وقت کی نہ ہی بعد کے کسی دور میں کی بلکہ اس نے خود کو الیکٹرانکس میں منوایا اور پھر ایک وقت ایسا آیا جب واشنگٹن اس کے ساتھ تعاون پر مجبور ہوا۔ آج واشنگٹن اور ٹوکیو کے بڑے اچھے تعلقات ہیں ۔ ان ملکوں کے درمیان سیکڑوں ارب ڈالر کی سالانہ تجارت کسی سے مخفی نہیں ہے۔ 
 حقیقت یہ ہے کہ دورِ حاضر میں روایتی جنگ بے معنی ہوکر رہ گئی ہے۔ اِس دور کی جنگ ٹیکنالوجی میں دوسروں کو زیر کرکے لڑی جاتی ہے جس سے نہ تو جان و مال کا نقصان ہوتا ہے نہ ہی ترقیاتی اہداف متاثر ہوتے ہیں بلکہ جو خطیر رقم جنگ پر خرچ ہوسکتی ہے وہ بہتر مصرف میں لائی جاسکتی ہے۔ اس لئے ہم تو یہی چاہیں گے کہ ہندوستان چین کو ترقیاتی دوڑ، تکنالوجی، جی ڈی پی، عالمی اداروں میں اپنی مضبوط ساکھ اور پزیرائی کے ذریعہ جواب دے۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ چین نہ صرف یہ کہ طاقتور ملک ہے بلکہ اس نے صنعتی اور کاروباری تنوع کے ذریعہ پوری دُنیا کو ایک طرح سے زیر کر رکھا ہے۔ اس کی صنعتی ترقی کے آگے بہت سے ممالک پانی بھرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ کئی ملکوں کی مارکیٹس چینی مصنوعات سے بھری رہتی ہیں جن میں امریکہ جیسا ملک بھی شامل ہے جسے چین سے بیر ہے مگرچینی مصنوعات سے نہیں ۔ 
 وقت کے ساتھ چینی اشیاء کی امریکہ میں درآمد میں اضافہ ہی ہوتا گیا ہے۔ ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں چین سے امریکہ کی درآمد میں ۴۲۷؍ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ٹرمپ نے بیجنگ کے خلاف جو قدم اُٹھائے وہ ایسے ہی نہیں اُٹھائے ہیں ۔ ان کا مقصد امریکی مارکیٹ سے چین کی بالادستی کو کم کرنا ہے۔ مگر یہ کام جتنا مشکل امریکہ کیلئے ہے اُتنا ہی ہمارے لئے بھی ہے۔ خود ہماری مارکیٹس پر چین کا اثر کافی زیادہ ہے، اتنا زیادہ کہ چین سے درآمدات پر پابندی عائد کی گئی تو ہندوستان کی تجارتی و صنعتی فرمیں اور کمپنیاں پریشانی میں آجائینگی۔ 
 واضح رہنا چاہئے کہ ہم چین سے موٹر گاڑیوں کے کل پُرزے، اینٹی بائیوٹک دوائیں ، نائٹروجن کمپاؤنڈس،آئرن اور اسٹیل، الیکٹریکل آلات، ٹیوب، پائپ، ایل سی ڈی، ایل ای ڈی، اے سی، کھیتوں میں استعمال ہونے والی کیڑا مار دوائیں ، اور ایسی درجنوں اشیاء درآمد کرتے ہیں ۔ہمارے ملک میں جاری و ساری کئی اسٹارٹ اَپ کمپنیاں مثلاً اولا، سویگی، اسنیپ ڈیل، پے ٹی ایم، فلپ کارٹ، بگ باسکیٹ اور زومیٹو چینی سرمایہ کاری کی مرہون منت ہیں ۔ ہم چین کو اتنا ایکسپورٹ نہیں کرتے جتنا چین سے اِمپورٹ کرتے ہیں ۔ 
 کاؤنٹر پوائنٹ ریسرچ نامی ادارے کے ایک سروے کے شرکاء سے پوچھا گیا کہ کیا آپ چینی ساخت کا اسمارٹ فون خریدنا بند کریں گے تو ۱۰؍ میں سے صرف ۴؍ نے اثبات میں جواب دیا۔ ان چار میں سے بھی ممکن ہے ۲۔۳؍ لوگ اُس وقت اپنا ارادہ بدل دیں جب وہ اسمارٹ فون خریدنے کیلئے کسی شوروم کا رُخ کریں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چینی موبائل نسبتاً ارزاں اور اچھے فیچرز کا حامل ہوتا ہے۔ انہی بنیادوں پر ہندوستانی صارفین کی بڑی تعداد چینی ساخت کے فون استعمال کرتی ہے مثلاً اوپو، ویوو، شاؤمی، ون پلس اور لینوو (موٹرولا) وغیرہ۔
  چین کو جواب ضرور دیا جائے مگر اس کا طریقہ یہ ہو کہ جن اشیاء پر ا س کی معیشت اور برآمدات کا دارومدار ہے ہم اُن میں اُسے بھرپور ٹکر دیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK