Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’اِنڈیا‘‘ اتحادکیسے منوائے گا خود کو؟

Updated: December 08, 2023, 1:27 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

’’اِنڈیا‘‘ اتحاد کی میٹنگ مؤخر کردی گئی۔ وجہ جو بھی ہو اور کتنی ہی واجبی ہو، اس سے کوئی اچھا پیغام عام نہیں ہوا ہے۔ پانچ میں سے تین نہایت اہم ریاستوں یعنی راجستھان، ایم پی اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کی ناکامی کے فوراً بعد ’’اِنڈیا‘‘ اتحاد سے وابستہ چند پارٹیوں کے لیڈروں کو اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع مل گیا۔

"India" alliance meeting. Photo: INN
’’انڈیا‘‘ اتحاد میٹنگ۔تصویر:آئی این این

’’اِنڈیا‘‘ اتحاد کی میٹنگ مؤخر کردی گئی۔ وجہ جو بھی ہو اور کتنی ہی واجبی ہو، اس سے کوئی اچھا پیغام عام نہیں  ہوا ہے۔ پانچ میں  سے تین نہایت اہم ریاستوں  یعنی راجستھان، ایم پی اور چھتیس گڑھ میں  کانگریس کی ناکامی کے فوراً بعد ’’اِنڈیا‘‘ اتحاد سے وابستہ چند پارٹیوں  کے لیڈروں  کو اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع مل گیا۔ یہ درست نہیں  تھا مگر شاید اس کی ذمہ دار کانگریس ہی ہے۔ اگر ملک کی عظیم و قدیم پارٹی نے یا تو ’’اِنڈیا‘‘ کے لیڈروں  سے نشستوں  کے بارے میں  بات چیت کی ہوتی یا انتخابی مہم کی اہم ریلیوں  میں  اتحاد کے سینئر لیڈروں  کو مدعو کیا ہوتا تو کوئی شکایت ہی نہ رہ جاتی۔ بات سچ ہے کہ تمام پانچ ریاستوں  کی انتخابی مہم میں  کانگریس نے خود کو ہی پروجیکٹ کیا، ’’اِنڈیا‘‘ اتحاد کا نام تک نہیں  لیا۔ یہ کیسی حکمت عملی تھی ہم نہیں  جانتے۔ حکمت عملی تھی بھی یا نہیں  اس کا بھی ہمیں  علم نہیں  ہے۔ یہ ہائی کمان کے اشارے پر ہوا یا ریاستی وزرائے اعلیٰ نے خود ہی فیصلہ کرلیا اس کا بھی ہمیں  اندازہ نہیں  ہے۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں  کہ جب الیکشن سے پہلے ہی ’’اِنڈیا‘‘ کے تین بڑے اجلاس (پٹنہ، بنگلور اور ممبئی) منعقد کئے جاچکے تھے اور اتحاد کو حتمی شکل دی جاچکی تھی تب بھلے ہی مذکورہ ریاستوں  میں  ’’اِنڈیا‘‘ کی کسی پارٹی کا اثرورسوخ نہ رہا ہو، انہیں  اہمیت دی جانی چاہئے تھی، ریلیوں  میں  شریک کیا جانا چاہئے تھا۔ یہ بات ہم نے اُس وقت بھی کہی تھی جب انتخابی مہم جاری تھی۔ ان پارٹیوں  کو شریک کرنے کا فائدہ یہ ہوتا کہ ’’اِنڈیا‘‘ اتحاد کی تشہیر ہوتی اور عوام کے ذہنوں  میں  اس کا نام نقش ہوجاتا جسے این ڈی اے کے مقابلے میں  متبادل اتحاد کے طور پر بڑے انتخابی میدان میں  اُترنا ہے۔ اس میں  شک نہیں  کہ اتحاد کی کوئی بھی پارٹی تنہا الیکشن لڑنے سے زیادہ متحدہ طور پر لڑنے کی اپنی مجبوری سے واقف ہے لہٰذا اس کا خطرہ بہت کم ہے کہ انڈیا اتحاد ٹوٹے گا مگر مجبوری میں  ساتھ دینے سے کہیں  زیادہ بہتر ہے کہ خوش دلی سے ساتھ دیا جائے۔ اس کیلئے ایک ایسا ماحول تیار کیا جانا چاہئے جس میں  سب ایک دوسرے کو اپنی اور ملک کی ضرورت ہی نہ سمجھیں  عظیم قو می خدمت کا درجہ دیں  کہ وہ ملک و قوم کے بہترین مفاد میں  ایک ساتھ آئے ہیں ۔اس جذبے کو عوام تک پہنچانے کیلئے پانچ ریاستوں  کا الیکشن ایک اہم موقع تھا۔ کانگریس نے اسے گنوا کر اتحاد کو مستحکم کرنے کا موقع گنوایا ہے۔ 
 ممکن ہے اس کی وجہ کانگریس کا یہ احساس ہو کہ پانچ میں  سے چار ریاستوں  کا غالب عوامی رجحان کانگریس کے حق میں  ہے اسلئے پہلے ان ریاستوں  میں  کامیابی کے ذریعہ اپنی طاقت اور وزن بڑھا لیا جائے اس کے بعد انڈیا اتحاد کے لوگوں  سے ملاقات کی جائیگی تاکہ سیٹ شیئرنگ کے وقت زیادہ محنت نہ کرنا پڑے۔ مگر شومیٔ قسمت کہ پانسہ پلٹ گیا، بی جے پی کو توقع سے کہیں  زیادہ سیٹیں  مل گئیں  جس کے بارے میں  کوئی ہم سے کہے کہ اس واقعہ پر خود بی جے پی کے لوگ حیران ہیں  تو ہمیں  تعجب نہیں  ہوگا۔ جو بھی ہو، کانگریس نے تین ریاستیں  تو گنوائی ہی، انڈیا کے ساتھ اپنے کمزور تعلقات کو کمزور تر کرلیا۔ کون نہیں  جانتا کہ اتحاد کی کئی پارٹیاں  کانگریس سے مطمئن ہیں  نہ کانگریس ان سے، بالخصوص ترنمول کانگریس اور ’’آپ‘‘  مگر نہ تو کانگریس کے پاس ان کے بغیر آگے بڑھنے کی ہمت ہے نہ ہی ان میں  کانگریس کو چھوڑنے کا حوصلہ۔ جب یہ صورت ِ حال ہو تو بہتر یہی ہے کہ سب مل جل کر رہیں ، مل جل کر انتخابی حکمت عملی بنائیں  اور مل جل کر مقابلہ کریں  ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK