Inquilab Logo

مایوسی کو چھوڑ کرعملی اقدامات کئے جائیںتو اُردو ادارے زندہ رہ سکتے ہیں

Updated: March 07, 2023, 1:49 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

ہمارے اساتذہ میں بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں لیکن ان کا استعمال نہیں ہوپاتا، اسلئے ضروری ہے کہ پہلے ان صلاحیتوں کی شناخت ہو اور پھر اُن کا مناسب استعمال ہو

There is a need to restore the confidence of the teachers along with the students
طلبہ کے ساتھ ہی اساتذہ کے اعتماد کو بھی بحال کرنے کی ضرورت ہے

اسکالرشپ امتحانات کے ضمن میں ہمارے اسکولوں کی سرد مہری کی وجوہات پر جب ہم نے غور کیا تو بات  سامنے آئی کہ ہمارے اکثر اساتذہ اس امتحان میں ذہنی آزمائش سے متعلق سوالات میں الجھن محسوس کرتے تھے۔ اگر ہمارے اساتذہ مثبت رویے کے ساتھ میدان میں اتریں تو کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں اس کیلئے ہم مثال دینا چاہیں گے، اساتذہ کے ایک ضلعی سطح کے اسکالرشپ امتحان کے ورکشاپ کی۔ورکشاپ میں رتناگیری میں۴۰۰؍ اور دا پولی میں۳۵۰؍ اساتذہ شریک تھے۔ ہم نے اپنے اس ورکشاپ میں آدھا دن اسا تذہ کو ذہنی آزمائش کے سوالات حل کرنے کی مکمل تکنیک سمجھائی اور پھر بقیہ آدھا دن ان اساتذہ سے درجنوں سوالات حل کرالئے اور آخر میں اعلان کیا کہ اردو میڈیم کے ان پرائمری اسکول کے اساتذہ کرام نے تین گھنٹے جو سوالات حل کئے وہ سبھی آل انڈیا کیٹ امتحان کی سطح کے سوالات تھے۔ جی ہاں اردو پرائمری اسکولوں کے سیکڑوں اساتذہ نے اس قدر مشکل سوالات بڑی مہارت اور خود اعتمادی کے ساتھ حل کئے تھے۔
 تو پھر کمی کس بات کی  ہے؟ کمی اس قوت ارادی کی ہے کہ بچوں کو آگے بڑھنے کیلئے اسکالر شپ کے اس ٹانک کی اشد ضرورت ہے تو کیوں نہ میں خود اس امتحان کی تیاری کیلئے ہتھیاروں سے اپنے آپ کو لیس کر لوں اور  پھرطلبہ کو بھی تیار کراؤں۔  اس امتحان کی تیاری کیلئے چند پبلشرس نے اردو زبان میں کارآمد کتا بیں بھی شائع کی ہیں، جن میں سے بیشتر کتا بوں کے مؤلفین اساتذہ ہی ہیں۔
۱۵۔    اسکولوں میں کر یئر اور کورسیز کی رہنمائی کا فقدان 
  اُردو اسکولوں میں برسہا برس سے جس کمی کا اکثر تذکرہ ہوتا رہا ہے، وہ ہے اُردو کے طلبہ کیلئے کریئر اور ووکیشنل گائیڈنس کا فقدان۔ ووکیشنل گائیڈنس کی ابتدا ملک میں گرچہ ۱۹۰۷ء میں ہوئی اور۱۹۱۵ء میں کلکتہ یو نیورسٹی سے اسے قبولیت ملی البتہ آزاد ہند میں اس کو بطور سماجی خدمت اس ملک کی سب سے چھوٹی اقلیت پارسی نے پنچایت کے ذریعے شروع کی۔ مسلمانوں میں اس کا آغاز راقم الحروف نے ۱۹۷۸ء میں لیکچرس، نمائش اور مضامین کے ذریعے کیا جوالحمد للہ اب ایک ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ آج  اساتذہ بھی اس میں دل جمعی سے کام کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں چند باتوں میں پہل کی جائے تو ہماری اُردو اسکولیں انگریزی اسکولوں پر بھی بھاری پڑ جائیں گی:
 (الف) سارے اساتذہ کو یہ یاد رکھنا ہوگا کہ اگر آپ کے کلاس میں بیٹھا ہوا طالب علم اپنے کریئر کے ہدف سے واقف ہے تو کلاس روم میں آپ کی محنت ہر گز ضائع نہیں ہوگی۔ آپ کا درس بالکل کامیاب ہو گا کیونکہ اُن طلبہ کے اہداف طے ہیں، اُن کے ذہن فوکس ہیں۔ کلاس میں وہ آپ کے ساتھ ہیں اور جن کے سامنے کریئر کے کوئی اہداف نہیں ہیں وہ آپ کے کلاس میں خالی الذہن بیٹھے رہتے ہیں۔ کلاس میں ان کو توجہّ دلانے، سبق سمجھانے اور یاد کرانے میں آپ کو کافی محنت کرانی پڑتی ہے اور جن طلبہ کے ذہن ان کے اہداف کے ضمن میں واضح ہیں ان کلاس روم میں صرف بورڈ کے نہیں بلکہ زندگی کے امتحان کی تیاری ہو جاتی ہے لہٰذا اگر آپ اپنے کلاس روم میں بے حد محنت و مشقّت والی تدریس کے بجائے ’اسمارٹ ٹیچنگ‘ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو ایک ایسا کلاس روم پیدا کرنا ہوگا جہاں طلبہ اپنے کریئر اور اپنی زندگی کے اہداف و منازل کا ادراک رکھتے ہوں اور یہ آپ کے ذہنی سکون کیلئے بھی ضروری ہے۔
 (ب) محترم اساتذہ کرام ! طلبہ کی تعلیمی،نفسیاتی وکریئررہنمائی کیلئے جب آپ میدان میں اُترتے ہیں، تب اُس فریضے کو انجام دے کر ہی آپ کو اندازہ ہو  جاتا ہے کہ یہ کتنی بڑی نیکی ہے کیونکہ آپ مشاہدہ کرتے ہیں کہ طلبہ کی ایک بڑی اکثریت کس قدر بے سمتی کا شکارتھی، اُن طلبہ میں بلا کی ذہانت ہے مگر وہ کس قدر کنفیوژ اور پست ہمّتی کا شکار تھے۔ مکمل بے سمتی کے شکار ان طلبہ کی رہنمائی کر کے آپ کو جو مسرّت حاصل ہوگی وہ ہم الفاظ میں بیان ہی نہیں کر سکتے۔
 ( ج ) حکومت مہاراشٹر نے چند سال قبل ووکیشنل گائیڈنس نامی ایک اختیاری مضمون متعارف کیا تھا البتہ اُس کے ذریعے ذہن سازی کا کوئی کامیاب تجربہ نہیں ہوا اور جب حکومت نے وہ مضمون نصاب سے حذف کر دیا تو اساتذہ یا والدین کی جانب سے کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ ہمیں چاہئے کہ حکومت کے احکام کا انتظار کئے بغیر ہم اُردو اسکولوں میں اس کا ایک نظم یہ بنا ئیں کہ آٹھویں جماعت  ہی سے کریئر گائیڈنس کے تعلق سے بیداری کے لیکچرس ہمارے اسکولوں میں منعقد کرتے رہیں۔ اُس سے اُن کے آٹھویں، نویں اور دسویں کے نتائج ہی میں آپ کو نمایاں بہتری دکھائی دے گی۔
 (د) مہاراشٹر حکومت نے ہی ۵۔۶؍برسوں سے ایس ایس سی کے نتیجے کے ساتھ اپٹی ٹیوڈ ٹیسٹ یعنی کریئر کے ضمن میں بچّوں کے رجحان کا پتہ لگانے کا امتحان شروع کیا ہے اور رزلٹ کے دن اس کی رپورٹ بچّوں کے ہاتھوں میں تھمائی جاتی ہے۔ رُجحان پتا کرنے کے اس ٹیسٹ سے صرف ۲۵؍ فیصد حق ادا ہوتا ہے۔ ۷۵؍ فیصد باقی ہی رہ جاتا ہے۔والدین و طلبہ یہ سمجھ لیں کہ اپٹی ٹیوڈ ٹیسٹ کرانے کا مقصد کیا ہے؟ اس ٹیسٹ کا مقصد یہ نہیں کہ وہ ٹیسٹ کرانے والے کوئی نجومی یا جوتشی ہیں جو آپ کے بچّے پر کوئی حتمی فیصلہ سنادیں گے کہ وہ صرف اور صرف یہی بن سکتا ہے۔ یا اسے بس یہی بننا چاہئے ورنہ آپ کے بچّے کا مستقبل تباہ ہو جائے گا۔ اپٹی ٹیوڈ ٹیسٹ یا رجحان کے پتہ کرنے کے امتحان کا واحد مقصد یہ ہونا چاہئے کہ آپ اپنے بچّے کی کمیوں سے واقف ہو جائیں، اس کی وجوہات کو سمجھیں اور ان خامیوں کو دُو رکرنے کیلئے استاد یا کائونسلر سے رہنمائی حاصل کریں۔ 
 ہم اس کی مثالیں دیں گے۔ اگر کسی طالب علم کے اپٹی ٹیوڈ ٹیسٹ میں آخری جملہ یہ لکھا ہے کہ آپ کا بچہ انجینئر نہیں بن سکتا۔ اب آپ اس کو حتمی و آخری فیصلہ نہ سمجھیں۔ اس رپورٹ میں ڈھونڈیں یا کاؤنسلر سے معلوم کر یں کہ آخر وہ انجینئر کیوں نہیں بن سکتا؟ تب آپ کو اس کا سبب سمجھ میں آئے گا کہ وہ ریاضی میں کمزور ہے اسلئے وہ انجینئر نہیں بن سکتا۔ اب آپ کا مسئلہ حل ہو گیا۔ اب ریاضی کو بہتر بنانے کے راستے اس کاؤنسلر سے دریافت کیجئے کہ آپ کے بچّے کی ریاضی کمزور کیوں ہے؟ وہ جو جواب دے گا، اس میں سرفہرست یہ جواب ہوگا کہ بچّے کی ریاضی کی بنیاد یں کمزور ہیں یعنی وہ دسویں تک تو پہنچا مگر اس کو پانچویں جماعت کی بنیادی باتیں، ضابطے وغیرہ بھی نہیں معلوم ہیں۔ اب آپ کا مسئلہ پوری طرح حل ہوا کیونکہ کسی بھی بچّے کی ریاضی کی بنیادیں مضبوط کرنے کیلئے کل وقتی طور پر کسی ٹیچر یا ٹیوٹر کو مقرر کیا جائے تو صرف دو ماہ میں یہ کام پورا ہو سکتا ہے۔ 
  کسی طالبہ کے اپٹی ٹیوڈ ٹیسٹ میں آخری ریمارک اگر یہ ملا کہ وہ ڈاکٹر نہیں بن سکتی۔ آپ اس پر فوری یقین مت کریں۔ اس ریمارک کی وجوہات معلوم کریں تو وجہ یہ  سامنے آئے گی کہ وہ مُردہ جسم نہیں دیکھ سکتی۔ حادثے میں خون میں لت پت کوئی آجائے تو چکرا جائے گی۔ اب آپ کو کمزوری معلوم ہوگئی تو اس کو دُور کرنے کا عمل شروع کیجئے۔ حادثے کے ویڈیو بتائیے ،میّتوں میں لے کر جائیے اور اس کی نفسیاتی رہنمائی کیجئے۔ مسئلہ یقیناً حل ہو جائے گا۔ غرض کہ اپٹی ٹیوڈ ٹیسٹ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے ہمیں اپنے بچّوں کی کمزوریوں کا پتہ لگانا ہے اور ان کودُور کرنے کیلئے وسائل کو تلاش کرنا ہے نیز یہ بھی سمجھنا ہے کہ آپ کے بچّوں کی وہ کمزوریاں پتھر کی لکیر نہیں ہیں۔ در اصل برسہا برس سے والدین کی جانب سے اور تعلیمی اداروں میں بھی جو غفلتیں اور کو تا ہیاں برتی گئیں، بس اسی بناء پر ان کمزوریوں کی جڑیں مضبوط ہوتی گئیں۔ اب ان جڑوں پر وار کرنا ہے البتہ اس کی آڑ میں کسی بھی صورت میں والدین کو اپنی مرضی اور اپنے خواب بچّوں پر تھوپنے کیلئے جواز نہیں پیدا کرنے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK