انسان کی اصل شناخت اس کے شعور سے قائم ہوتی ہے اور یہی شعور اس کے افکار، اعمال اور ترجیحات کا تعین کرتا ہے۔
نئی نسل میں دینی شعور بیدار کرنے کے لئے عملی اقدامات نہایت ضروری ہیں والدین کو چاہئے کہ سب سے پہلے گھروں میں دینی ماحول پیدا کریں تاکہ بچے نماز، تلاوت اور نیکی کو عملی طور پر دیکھ اور سیکھ سکیں۔ تصویر:آئی این این
انسان کی اصل شناخت اس کے شعور سے قائم ہوتی ہے اور یہی شعور اس کے افکار، اعمال اور ترجیحات کا تعین کرتا ہے۔ اگر یہ شعور دینی بنیاد پر استوار ہو تو انسان کی زندگی میں توازن، سکون اور مقصدیت پیدا ہوتی ہے۔ دینی شعور دراصل وہ روشنی ہے جو انسان کو اندھی تقلید، اخلاقی گراوٹ اور فکری انتشار سے محفوظ رکھتی ہے۔ اگر نئی نسل اس روشنی سے محروم ہو جائے تو وہ مادی ترقی کے باوجود روحانی طور پر محرومی کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی نسل میں دینی شعور بیدار کرنا محض مذہبی فریضہ نہیں بلکہ انسانی تہذیب اور اخلاقی اقدار کو زندہ رکھنے کا ذریعہ بھی ہے۔
اسلام نے ہر دور میں نسلِ نو کی دینی تربیت کو اپنی تعلیمات کا بنیادی حصہ قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے قرآن و حدیث میں جو بنیادی تعلیمات ہیں وہ ہر زمان و مکان کے لئے قابل عمل اور رہنما ہیں۔ اس تعلق سے ذیل کی صرف ایک آیت اور حدیث کو پڑھنے سے ہمیں اسلامی تعلیمات کی جامعیت کا بخوبی علم ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔‘‘(التحريم:۶) اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔‘‘ (بخاری و مسلم) اس آیت اور حدیث سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ نئی نسل کی دینی تربیت والدین، اساتذہ اور سماج کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ در اصل دینِ اسلام چاہتا ہے کہ ہر نسل اپنے عقائد، عبادات اور اخلاق کے میدان میں مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہو تاکہ امت کی فکری شناخت قائم رہے۔
افسوس کہ آج کے بیشتر والدین اپنی اولاد کی دینی تربیت کے معاملے میں غیر معمولی غفلت برت رہے ہیں۔ وہ دینی تعلیم کے بجائے صرف دنیاوی تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر بچہ اسکول میں کمزور ہو تو فوراً ٹیوشن کا بندوبست کر دیا جاتا ہے، لیکن اگر نماز یا اخلاقی تربیت میں کوتاہی کرے تو کوئی فکر نہیں کی جاتی۔ بعض گھروں میں بچے نماز کے وقت کھیل رہے ہوتے ہیں اور والدین ان کی بے پروائی پر مسکرا دیتے ہیں اور کہتے ہیں ابھی ان کے کھیلنے کے دن ہیں۔ یہ روش دراصل روحانی زوال کی علامت ہے۔ اگر والدین خود دین کے معاملے میں سنجیدہ نہ ہوں تو اولاد کے اندر دینی شعور کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟
نئی نسل میں دینی بے شعوری کے کئی اسباب ہیں۔ مغربی تہذیب کی اندھی تقلید، سوشل میڈیا کا منفی کردار، والدین کی حد سے زیادہ مصروفیت، گھروں میں دینی ماحول کا فقدان اور دینی تعلیم کو ثانوی حیثیت دینا سب سے نمایاں وجوہ ہیں۔ اسی طرح آج کے بچے زیادہ وقت موبائل، ویڈیو گیمز اور انٹرنیٹ پر گزارتے ہیں؛ اس درمیان دین کا عملی تجربہ ان کی زندگی سے غائب ہوتا جاتا ہے۔ نتیجتاً دینی تعلیمات محض کتابوں تک محدود رہ گئی ہیں،عمل کا جذبہ سرد پڑ گیا ہےاور یہی بے شعوری کی جڑ ہے۔
یاد رکھیں! اسلام جدید طرز زندگی کے خلاف نہیں بلکہ اس کی اصلاح کا داعی ہے۔ دینی شعور رکھنے والا نوجوان جدید ٹیکنالوجی، تعلیم اور تمدن سے فائدہ اٹھاتا ہے مگر حدودِ شریعت کا لحاظ رکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ترقی کا اصل مفہوم اللہ کی رضا کے دائرے میں رہ کر آگے بڑھنا ہے۔ دینی شعور کا کمال یہ ہوتا ہے کہ انسان دنیا کی آسائشوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بھی اپنے دل و دماغ کو ایمان اور اخلاق کی بنیادوں سے جوڑے رکھتا ہے۔ جدید طرزِ زندگی میں اگر دینی حدود کا لحاظ نہ رکھا جائے تو یہی سہولتیں انسان کو تباہی کے راستے پر لے جا سکتی ہیں۔
نئی نسل میں دینی شعور بیدار کرنے کیلئے عملی اقدام نہایت ضروری ہیں۔ اس کیلئے سب سے پہلے گھروں میں دینی ماحول پیدا کیا جائے تاکہ بچے نماز، تلاوت اور نیکی کو عملی طور پر دیکھ اور سیکھ سکیں۔ سماج کے بڑے،اساتذہ اور علماء کو چاہئے کہ وہ دینی باتیں بچوں کے فہم کے مطابق پیش کرتے رہا کریں۔ مزید برآں جمعہ کے خطبات اور دینی اجتماعات کو نئی نسل کے فکری تقاضوں کے مطابق ترتیب دیں۔ والدین بھی اپنی روزمرہ زندگی میں دین کی عملی مثال بنیں، کیونکہ عمل کی تاثیر نصیحت سے کہیں زیادہ گہری ہوتی ہے۔
اس بحث کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ دینی شعور کی بنیاد فرمانبرداری پر ہے۔ اگر نئی نسل والدین، اساتذہ اور بڑوں کی فرمانبردار بن جائے تو ان کے دلوں میں ادب، اطاعت اور نظم پیدا ہوتا ہے۔ فرمانبرداری دراصل ایمان کا مظہر ہے اور نافرمانی روح کی بغاوت۔ جو بچے بڑوں کی نصیحت کو عزت سے قبول کرتے ہیں وہی آگے چل کر صالح، باکردار اور پرامن شہری بنتے ہیں۔ بچوں میں ادب اور اطاعت کی روح پیدا کر دی جائے تو وہ خود بخود دین کے تقاضوں کو سمجھنے اور اپنانے لگیں گے۔
خلاصہ یہ ہے کہ دینی شعور ایک چراغ ہے جو نئی نسل کو گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی میں لے آتا ہے۔ اگر ہم نے آج اس چراغ کو روشن رکھنے کی کوشش نہ کی تو آنے والی نسلیں مادی چمک میں کھو کر اپنی روحانی پہچان کھو بیٹھیں گی۔ اس لئے وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے گھروں، اداروں اور معاشرے میں دینی شعور کو فروغ دینے کیلئے مخلصانہ اور سنجیدہ کوشش کریں۔ یہی شعور اُمت کے تحفظ اورمعاشرتی استحکام کی بنیاد بنے گا، ان شاء اللہ؛ کیونکہ جو قوم اپنی نئی نسل کو دین سے جوڑ دیتی ہے، وہ دراصل اپنے مستقبل کو ایمان کی روشنی سے منور کر لیتی ہے۔ اس بات کو آج کے والدین جتنی جلد سمجھ لیں اُتنا بہتر ہوگا۔