Inquilab Logo

یہ اگر ایک کلمہ کہہ دیں تو سارا عرب و عجم ان کے آگے سر نگوں ہوجائے

Updated: August 07, 2020, 9:09 AM IST | Maolana Nadeemul Wajidi

سیرت نبی ٔ کریم ؐ کی اس خصوصی سیریز میں گزشتہ ہفتے اس واقعہ کا تذکرہ کیا گیا تھا جب ابوجہل نے ایک شخص کی رقم لوٹانے سے انکار کیا تو اُس شخص نے آپؐ کی خدمت میں اپنی فریاد پیش کی چنانچہ آپؐ ، ابوجہل کے دروازہ پر پہنچ گئے تھے اور ابوجہل نے آپؐ کے کہنے پر فوراً اس شخص کی رقم واپس کردی۔ آج عام الحزن اور حضرت ابوطالب کا تفصیلی ذکر ملاحظہ کیجئے کہ کس طرح حضرت ابوطالب ، آپؐ کی ہر لمحہ حفاظت کرتے رہے

Makkah Sharif - PIC : INN
مکہ شریف ۔ تصویر : آئی این این

نبوت کے دسویں سال یعنی   ۱۰ نبوی کو رمضان اور شوال کے مہینوں میں دو ایسے واقعات پیش آئے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہایت رنج وغم کا سبب بنے، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال فرمایا، پہلا واقعہ حضرت ابو طالب کی وفات کا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشفق و مربی چچا تھے، اور دوسرا واقعہ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی رحلت کا ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفیقۂ حیات بھی تھیں اور دین کے کاموں میں آپؐ کی معین ومدد گار بھی۔ ان دونوں واقعات کا آپؐ کی سیرت طیبہ سے گہرا تعلق ہے، اس لئے ان دونوں واقعات پر الگ الگ تفصیل سے لکھنے کی ضرورت ہے۔
lقریش مکہ حضرت ابو طالب کی خدمت میں :
حضرت ابو طالب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشفق چچا اور مربی تھے، دادا حضرت عبد المطلب نے اپنی وفات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اپنے بیٹے ابو طالب کے ہاتھ میں دے کر کہا تھا کہ اس کا خیال رکھنا، یہ میرا لاڈلا پوتا ہے، یتیم ہے اس کو اپنے بچوں سے بڑھ کر سمجھنا۔ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت ابو طالب نے اپنے والد کی وصیت کا پوری طرح پاس ولحاظ رکھا، حضورؐ  کو اپنی اولاد سے بڑھ کر پیار کیا، جب آپؐ  چھوٹے تھے تو اپنے قریب سلاتے، اپنے ساتھ کھانا کھلاتے، تجارتی اسفار میں اپنے ساتھ لے کر جاتے، حالاں کہ کثیر العیال شخص تھے، اس پر غربت بھی تھی، لیکن انہوں نے حضورؐ کی پرورش میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ جب آپؐ پچیس سال کے ہوگئے تو حضرت خدیجہؓ سے آپ کا نکاح کیا اور خود ہی نکاح بھی پڑھایا۔ نبوت کے بعد جب قریش کے اکثر لوگ آپؐ کے مخالف ہوگئے تب حضرت ابوطالب نے آپؐ کا ہر طریقے پر ساتھ دیا، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ زندگی بھر آپؐ کی ڈھال بن کر رہے تو غلط نہ ہوگا، قریش کے بڑے بڑے لوگ کئی مرتبہ وفد بنا کر حضرت ابو طالب کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ وہ اپنے بھتیجے کو سمجھائیں مگر انہوں نے کبھی آپؐ پر سختی نہیں کی، بلکہ ہمیشہ پیار محبت سے سمجھایا۔ قریش نے جب یہ مطالبہ کیا کہ محمد کو ہمارے سپرد کردیں تو آپؐ نے صاف انکار کردیا، انہوں نے سماجی مقاطعے کی دھمکی دی اور اس پر عمل بھی کیا لیکن حضرت ابو طالب نے اس کا دباؤ بھی قبول نہیں کیا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے خیال سے اپنے سب بھائیوں اور بھتیجوں اور ان کے بیوی بچوں کو لے کر ایک گھاٹی میں جاکر قیام پزیر ہوگئے، جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے تین سال گزارے، حالاں کہ اس وقت آپ کی عمر  اسّی سال کو پہنچ چکی تھی، بیمار رہتے تھے، مگر آپ نے نہ تو اپنی بیماری کی پروا کی اور نہ بڑھتی ہوئی عمر کا خیال کیا۔  آپ کی تقلید میں ابولہب کے علاوہ تمام بنو ہاشم آپؐ کے پشت پناہ رہے، چاہے وہ کافر ہوں یا مسلمان، سب دل وجان سے حضورؐ کے ساتھ رہے۔ حضرت علیؓ نے اپنے والد سے پوچھے بغیر کم سنی میں اسلام قبول کرلیا، حضرت ابو طالب نے کوئی باز پرس نہیں کی، بلکہ اپنے ایک اور بیٹے جعفرؓ کو ہدایت کی کہ وہ اپنے بھائی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دست وبازو بنیں۔ حضرت ابو طالب نے ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی، یہاں تک کہ آپؐ کے بستر پر اپنے مختلف بیٹوں کو سلاتے، تاکہ قریش حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمر کے بیالیس سال اپنے مشفق اور نہایت محبت کرنے والے چچا کی آغوشِ شفقت میں گزارے۔  اسلام کے نہایت مؤید تھے، قدم قدم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا کرتے تھے، آپؐ کی کسی بات پر نکیر یا داروگیر نہیں کرتے تھے۔ ایک روز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خانۂ کعبہ کے سامنے نماز پڑھ رہے تھے، ایک شخص عبداللہ ابن الزبعری جو ابو جہل کا بھیجا ہوا تھا وہاں آیا اور آپؐ کے چہرۂ مبارک پر جانور کا خون اور اس کی غلاظت مَل دی۔ آپؐ اسی حالت میں  اپنے چچا کے پاس گئے، انہوں نے پوچھا: بھتیجے! تمہارے ساتھ ایسا کس نے کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبد اللہ ابن الزبعری نے۔ چچا ابو طالب اسی وقت اپنے گھر سے تلوار لے کر نکلے اور خانۂ کعبہ کے صحن میں پہنچ کر لوگوں کو للکارا اور اس وقت تک سکون سے نہیں بیٹھے جب تک ابن الزبعری اور کچھ دوسروں قریشیوں کے چہرے اور داڑھیاں خون اور گوبر سے آلودہ نہ کردیں۔ (تفسیر قرطبی : ۶/۴۰۶)۔ محبت، شفقت، دفاع، سب کچھ تھا مگر اسلام قبول نہ کرسکے، بعض لوگوں نے تو یہ لکھا ہے کہ انہوں نے اس لئے اسلام قبول نہیں کیا تاکہ اپنے آبائی دین پر قائم رہ کر قریش کے درمیان اپنی شخصیت کا وزن برقرار رکھ سکیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ڈھال بن سکیں۔ ویسے یہ حقیقت تھی کہ تمام قریش خواہ وہ کسی بھی قبیلے کے رہے ہوں حضرت ابو طالب کی ازحد عزت کرتے تھے اور ان کی وجہ سے حضور کو جسمانی ایذائیں پہنچانے سے ڈرتے تھے۔ جب حضرت ابو طالب دنیا سے رخصت ہوگئے تب قریش کو یہ موقع ملا کہ وہ حضور کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکال سکیں۔ پھر انہوں نے آپ کو ستانے میں کوئی کمی نہ چھوڑی یہاں تک کہ آپ کو مکہ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ منورہ جانا پڑا۔
lمرض وفات میں قریش کے وفد کی آمد:
حضرت ابو طالب کی عمر اسّی سال سے تجاوز کر گئی تھی، بیمار بھی رہنے لگے تھے، ایک مرتبہ شدید بیمار ہوئے، لوگوں کو خیال ہوا کہ شاید اب صحت مند نہ ہو پائیں گے، قریش کے لوگوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ بڑے میاں کا آخری وقت ہے اور محمدؐ  کا حال اب بھی وہی ہے بلکہ اب تو حمزہؓ اور عمرؓ جیسے لوگ بھی اسلام لا چکے ہیں، قریش کے دوسرے قبیلوں میں بھی ان کی دعوت کا کام پھیلتا جارہا ہے، ہمیں ابو طالب کے پاس چلنا چاہئے اور ان سے کہنا چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کن بات کردیں تاکہ ان کے بعد یہ معاملہ ہمارے لئے درد سر نہ بنے، ہم سے جو عہد لینا چاہیں وہ ہم سے لے لیں اور جو وعدہ محمدؐ سے لینا ضروری ہے وہ محمدؐ سے لے لیں، ہمیں اس کا اندیشہ ہے کہ اگر ہم نے کوئی فیصلہ کن بات نہیں کی تو محمد کا معاملہ ہم پر غالب آجائے گا۔ 
اس مشورے کے بعد قریش کے کچھ سرکردہ لوگ؛ عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابوجہل بن ہشام، امیہ بن خلف، ابو سفیان بن حرب وغیرہ  حضرت ابو طالب کی خدمت میں پہنچے اور ان سے یہ کہا: ہماری قوم میں آپ کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہے اس سے آپ اچھی طرح واقف ہیں اب آپ موت کے قریب ہیں، اور اس مرحلے سے سب ہی کو گزرنا ہے، آپ اپنے بھتیجے محمدؐ کے احوال سے بھی اچھی طرح واقف ہیں، ہمارے اور ان کے درمیان جو جھگڑا ہے وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہے، آپ انہیں ہمارے سامنے بلالیں، اور ہمارے درمیان مصالحت کرادیں تاکہ آپ کے بعد نہ وہ ہمیں کچھ کہیں اور نہ ہم انہیں کچھ کہیں، وہ خود بھی اپنے دین پر عمل کریں اور ہمیں بھی اپنے دین پر چلنے دیں۔ ابو طالب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی وقت بلا بھیجا، آپ تشریف لائے، ابو طالب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: بھتیجے! یہ تمہاری قوم کے سرکردہ اور معزز لوگ ہیں، یہاں اس لئے آئے ہیں تاکہ تمہارے اور ان کے درمیان کوئی بات طے ہوجائے، وہ تم سے کچھ لینا اور تمہیں کچھ دینا چاہتے ہیں، مطلب یہ تھا کہ وہ تم سے کوئی عہد لینا چاہتے ہیں اور وہ خود بھی اس کے عوض میں تم سے کوئی وعدہ کریں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: میں تو ان سے صرف ایک ہی بات چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ آپ سب لوگ ایک کلمہ کہہ دیں، اس ایک کلمے کی بدولت یہ لوگ تمام عرب کے مالک بن جائیںگے، اور پورا عجم بھی ان کے زیر نگیں آجائے گا۔ ابوجہل بولا: صرف ایک کلمہ! میں اپنے باپ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہم اس جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے دس کلمے کہنے کے لئے بھی تیار ہیں، تم بتلاؤ وہ کیا کلمہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہیں صرف ایک کلمہ لا الہ الا اللہ کہناہے، اور اس کے سوا تمام معبودوں سے برأ ت  کا اعلان کرنا ہے۔ یہ سن کر ان لوگوں نے مذاق اڑانے والے انداز میں تالیاں بجائیں اور کہا: اے محمدؐ! کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ہم اپنے تمام معبودوں کو چھوڑ کر صرف ایک معبود کی پرستش کرنے لگیں، یہ تو عجیب بات ہوگی، پھر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ اس شخص سے تم جو کچھ حاصل کرنا چاہتے ہو وہ ملنے والا نہیں ہے، چلو اپنے آباءواجداد کے دین ہی کو اختیار کئے رہو، اللہ ہی ہمارے اور اس کے درمیان کوئی فیصلہ کرے گا، یہ کہہ کر وہ لوگ چلے گئے۔ (المستدرک للحاکم: ۲/۴۳۲، مسند احمد بن حنبل: ۵/۳۹۳، رقم الحدیث: ۳۴۱۹، سنن الترمذی کتاب التفسیر باب سورۃ ص: ۵/۳۶۵، رقم الحدیث: ۳۲۳۲، سنن الکبری للبیہقی: ۹/۱۸۸، تفسیر ابن جریر: ۲۳/۷۹)
lسورۂ ص کا نزول:
قرآن کریم کی سورۂ ص کا نزول خاص اسی واقعے کی یادگار کے طور پر ہوا، مفسرین نے لکھا ہے ’’اس سورہ کے نزول کا سبب ایک خاص واقعہ ہے جو معتبر روایتوں میں بیان کیا گیا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لائے تھے، لیکن اپنے رشتے اور تعلق کا حق نبھانے کے لئے آپ کی ہرممکن مدد کرتے تھے، ایک مرتبہ قریش کے دوسرے سردار ابو طالب کے پاس وفد کی شکل میں آئے، اور کہا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بتوں کو برا کہنا چھوڑ دیں تو ہم انہیں ان کے دین پر عمل کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں، حالاں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بتوں کو اس کے سوا کچھ نہیں کہتے تھے کہ ان میں کوئی نفع یا نقصان پہنچانے کی  طاقت نہیں ہے، اور ان کو خدا ماننا گمراہی ہے، چنانچہ جب آپؐ  کو مجلس میں بلا کر آپ کے سامنے یہ تجویز رکھی گئی تو آپؐ نے حضرت ابو طالب سے فرمایا کہ: چچا جان! کیا میں انہیں اس چیز کی دعوت نہ دوں جس میں ان کی بہتری ہے، ابو طالب نے پوچھا: وہ کیا چیز ہے، آپؐ نے فرمایا: میں ان سے ایک ایسا کلمہ کہلانا چاہتا ہوں جس کے ذریعے سارا عرب ان کے آگے سر نگوں ہوجائے اور یہ پورے عجم کے مالک ہوجائیں، اس کے بعد آپؐ نے کلمہ توحید پڑھا۔  یہ سن کر تمام لوگ کپڑے جھاڑ کر کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ: کیا ہم سارے معبودوں کو چھوڑ کر ایک کو اختیار کرلیں؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ اس موقع پر سورۂ ص کی آیات نازل ہوئیں۔‘‘ (تفسیر توضح القرآن، مفتی تقی عثمانی: ۴/۱۳۹۰)
سورۂ ص کی وہ آیات جن میں اس قصے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، حسب ذیل ہیں:
 ’’ص: قسم ہے نصیحت بھرے قرآن کی، کہ جن لوگوں نے کفر کو اپنا لیا ہے، وہ کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے اپنایا ہے کہ وہ بڑائی کے گھمنڈ اور ہٹ دھرمی میں مبتلا ہیں، اور ان سے پہلے ہم نے کتنی قوموں کو ہلاک کیا، تو انہوں نے اس وقت آوازیں دیں جب چھٹکارے کا وقت رہا ہی نہیں تھا، اور ان (قریش کے) لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوا ہے کہ ایک خبردار کرنے والا انہی میں سے آگیا، اور ان کافروں نے یہ کہہ دیا کہ وہ جھوٹا جادوگر ہے، کیا اس نے سارے معبودوں کو ایک ہی معبود میں تبدیل کردیا ہے؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے، اور ان میں کے سردار لوگ یہ کہہ کر چلتے بنے کہ چلو اور اپنے خداؤں (کی عبادت پر) ڈٹے رہو، یہ بات تو ایسی ہے کہ اس کے پیچھے کچھ اور ہی ارادے ہیں، ہم نے تو یہ بات پچھلے دین میں کبھی نہیں سنی، اور کچھ نہیں، یہ من گھڑت بات ہے۔‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK