Inquilab Logo

حالاتِ حاضرہ میں دینی تعلیمات کی اہمیت

Updated: March 06, 2020, 6:41 PM IST | Mufti Tanzeem Qasmi

علماء و خطباء کی ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ حالات پر بھی عوام کی رہنمائی کریں

Islamic Education. Picture INN
اسلامی تعلیم۔ تصویر : آئی این این

اسلام میں جان ومال اور عزت و آبرو کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ ایک مسلمان پر ضروری ہے کہ ایمان و عقیدہ اور دین و مذہب کا تحفظ کرے اور ہر حال میں اس دولت کو بچائے رکھے ،اس کے لئے خواہ جان کو جوکھم میں ڈالنا پڑے اور خطرات اور اندیشوں کی راہ سے گزرنا پڑے، سب کچھ برداشت کرکے اور تمام پریشانیوں کو جھیل کر اپنے دین و ایمان کی حفاظت ایک مسلمان کا سب سے بڑا مقصد ہونا چاہئے کیوں کہ اسی پر آخرت کی کامیابی کا مدار ہے۔ دائمی اور ابدی زندگی کی راحت اور نہ ختم ہونے والی نعمتوں اور لذتوں کا ملنا اسی پر موقوف ہے، اگر اس کے لئے عارضی زندگی ختم بھی ہوگئی تو فکر کی بات نہیں ہے کیوں کہ معمولی چیز کے عوض بڑی نعمت حاصل ہورہی ہے اور عارضی چیز کے بدلے دائمی اور ہمیشہ رہنے والی راحت دی جارہی ہے۔ دین و ایمان کا یہ درجہ معقول اور قرین قیاس ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہی درجہ اور یہی مقام انسانی جان و مال اور عزت و آبرو کو شریعت نے دیا ہے اور اس کے تحفظ پر بھی وہی اجرو ثواب رکھا ہے جو ایمان اور دین کی حفاظت پر رکھا ہے۔  چنانچہ حضرت سعید بن زیدؓکا بیان ہے کہ میں نے رسول اکرم  ﷺ سے ارشاد  فرماتے ہوئے سنا : ’’جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں مارا گیا وہ شہید ہے ،جو اپنے دین کی حفاظت میں مارا گیا وہ شہید ہے ،جو اپنی جان کی حفاظت میں مارا گیا وہ شہید ہے اور جو اپنے اہل و عیال کی حفاظت میں مارا گیا وہ بھی شہید ہے‘‘(سنن ترمذی،۱۴۲۱) دین،جان و مال اور عزت و آبرو پر اگر کوئی حملہ آور ہو اس وقت بہتر ہے کہ شروع میں اخلاق پیش کیا جائے،   بات چیت کے ذریعے مسئلہ کو حل کیا جائے اور سامنے والے کے اعتراضات اور شکوک و شبہات کا بہتر سے بہتر جواب دیا جائے اور کوشش کی جائے کہ مسئلہ رفع دفع ہوجائے لیکن باہمی گفتگو اور نرم پہلو اختیار کرنے سے اگر دشمن نہ سمجھے  اور مزید حملہ آور ہونے کی ضد اختیار کرے تو ایسے وقت میں ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اس کا جمہوری اور پُرامن جواب دینے میں کوئی کسر باقی نہ رکھے۔ پھر اس وقت حکمت عملی کی آڑ میں اپنے آپ کو جھکانا، تواضع اختیار کرنا اور صلح کا پیغام دینا دین و اخلاق نہیں بلکہ بزدلی ہے ۔
ملک کے موجودہ صورت حال میں اس حدیث سے بڑی روشنی ملتی ہے۔ این آرسی ،این پی آر اور سی اے اے جیسے سیاہ قوانین  سے حکومت کی مسلم دشمنی اور غریب دشمنی صاف نظر آتی ہے ۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اگر ملک میں این آر سی کا نفاذ ہوتا ہے تو ملک میں مسلمانوں اور غریب تر عوام کی ایک بڑی تعداد اپنی جائداد اوراہل و عیال سے بے دخل ہو جائے گی بلکہ عین ممکن ہے کہ لاکھوں مسلمان (العیاذ باللہ)ارتداد کی راہ پر چل پڑیں گے اور اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔ایسے وقت میں جب کہ مسلمانوں کے ایمان، جان و مال اور عزت و آبرو خطرے میں ہے تمام مسلمانوںکا اجتماعی فریضہ ہے کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ایسی طاقتوں کا بھر پور مقابلہ کریں اور ان سے پوری ملت اسلامیہ کو نجات دلانے کی فکر کریں۔ جس طرح نماز پڑھنا عبادت ہے، روزہ رکھنا اور قرآن کی تلاوت کرنا عبادت ہے،  اسی طرح ایسے قوانین سے نجات کے لئے کوشش کرنا بھی عبادت اور رضائے الٰہی کا ذریعہ ہے، ان قوانین کے دوررس مہلک نتائج مرتب ہونے والے ہیں، ظاہر ہے کہ اگر لوگوں کے پاس شہریت ہی نہیں رہے گی اور اپنی جائداد اور اہل و عیال سے دور کر دیئے جائیں گے تو اس افراتفری کے ماحول میں کیا کوئی شخص عبادت میں مصروف رہ سکے گا اور کیا دل میں طمانیت پیدا ہو سکے گی؟
آج بھی بہت سے لوگوں کو ان قوانین کی سنگینی اور نتائج کا علم نہیں ہے، اس لئے آپ نے دیکھا ہوگا کہ یہ لوگ اپنے کاروبار اور سرگرمیوں میں مست ہیں انہیں کوئی فکر ہے اور نہ کوئی غم، پچھلے ایام کی طرح وہ ان اوقات کو بھی گزار رہے ہیں ، ضرورت ہے کہ ان مسلمانوں کو ان قوانین کی سنگینی اور اس کے مہلک نتائج سے خبردار کریں، انہیں چوکنا اور بیدار کریں۔ مسجدوں میں، ہوٹلوں اور چوراہوں پر، چلتے پھرتے جہاں کہیں بھی موقع ملے  اس تعلق سے بیداری عام کرنا  ضروری ہے کہ یہ بھی خدمت دین کا ایک اہم شعبہ ہے ۔
موجودہ حالات میں بھی  علماء، خطباء اور واعظین اپنے اپنے پلیٹ فارم سے ان خطرات کو بیان کرنے اور مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کے بجائے  پرانے موضوعات کو بیان کرتے رہیں اور مصلحت اور حکمت کی   آڑ میں حالات پر لب کشائی بھی نہ کریں تو یہ اپنے علم کے ساتھ بھی خیانت ہے اور قوم کے ساتھ بھی۔ یقیناً یہ مسلمانوں کی حق تلفی ہے ۔جن افراد کو قوم نے دینی و سیاسی رہبری اور رہنمائی کے لئے منتخب کیا ہے اور جن پر انہوں نے اعتماد کیا ہے ان کی ذمہ داری ہے کہ ان کو درپیش چیلنجوں سے آگاہ کریں اور ان کا سامنا کرنے کے لئے تدبیریں بتائیں۔رسول اکرم  ﷺ  نے ہمیشہ صحابۂ کرام کو باطل کے منصوبوں سے خبردار کیا اور اس سے نمٹنے کے لئے ان کے ساتھ پیش قدمی بھی کی ۔یہاں تک کہ آپؐ نے اپنے مبارک زمانہ کے بعد اس امت پر منڈلاتے خطرات سے بھی آگاہ کیا اور صحابۂ کرام کو چوکنا رہنے کی ہدایت دی، یہ اس لئے ضروری ہے کہ کہ جو (لوگ) حالات سے واقف نہ ہوں وہ اپنے ایمان کی بھی حفاظت نہیں کر سکتے۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ عوام اپنی تجارت و معیشت اپنی ملازمت اور اپنی مصروفیت میں مست ہیں یا بہت سے پڑھے لکھے اور رہنما کہلانے والے لوگ بھی ان حالات سے بے اثر ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ ملک میں ہو ہی نہیں رہا ہے اور ساری ذمہ داری شاہین باغ کی خواتین کی ہے کہ وہ حکومت کو مجبور کریں اور ملت اسلامیہ پر آئی ہوئی مصیبت کا دفاع کریں، اس بے حسی کے ماحول میں ہم کیا کریںیاہم سے کیا ہو سکتا ہے؟ یہ بہت بڑی غلطی ہے ۔ آپ اپنی ذمہ داری نبھانے کے پابند ہیں ،محض اس وجہ سے کہ لوگ اپنے کام میں مصروف ہیں ہمیں کیا ضرورت ہے،یہ اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی ہے جس کا روز محشر بھی  سوال ہوگا۔ رسول اکرم ﷺ نے صاف لفظوں میں ارشاد فرمایا: تم سب نگراں ہو اور تم سب سے اپنے ماتحتوں کے بارے میں سوال ہوگا۔ صحیح بخاری۱۲۸۳ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK