Inquilab Logo

اُس دور میں لڑکیوں کیلئےعید کا ایک ایک لمحہ عید ہوا کرتا تھا

Updated: April 11, 2024, 4:18 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

جس دن کپڑے کا ناپ لیا جاتا تھا ، اسی دن سے عید شروع ہو جاتی تھی اور یہ عید اس وقت تک رہتی تھی، جب تک نیا جوڑا اتارا نہیں جاتا تھا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

پرانے دور کی خواتین کہتی ہیں  کہ اب عید تو ہے مگر وہ خوشیاں نہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ہمارے اور آپ کے دور کی عید میں بہت فرق ہے، اُس عید کا ایک ایک لمحہ عید ہوتا تھا، تینوں دن عجیب طرح کی خوشی کا احساس ہوتا تھا۔ الگ طرح کا ماحول رہتا تھا۔ اب عید پر چند لمحے ہی عید کے ہوتے ہیں، باقی یوں ہی گزارے جاتے ہیں، عام دنوں کی طرح ہوتے ہیں۔ اس دور میں ایک بڑی تعداد شہر سے گاؤں عید منانے آتی تھی، کیونکہ یہاں کی عید بہت الگ ہوتی تھی لیکن ا ب تو شہر اور گاؤں کی عید میں زیادہ فرق نہیں رہ گیا ہے۔ 
 عید کے جوڑوں کی تیاری 
  پہلا مرحلہ کپڑوں کی خریداری اور اس کی تیاری کا ہوتا تھا۔ جس دن کپڑے کا ناپ لیا جاتا تھا، اسی دن سے عید شروع ہوجاتی تھی اور یہ عید اس وقت تک رہتی تھی، جب تک نیا جوڑا اتارا نہیں  جاتا تھا۔ اس زمانے میں سادہ ساٹن، چائنا سلک، لیزی بیزی( کاٹن ) اور جارجٹ کا سادہ کپڑا خریدا جاتا تھا۔ پھر اس پر کڑھائی بنائی جاتی تھی۔ کروشیاسے پھول پتی اور نقش ونگار لڑکیاں اپنے ہاتھوں سے چھپ چھپ کر بناتی تھیں۔ یہاں  تک کہ اپنی چچی، بڑی امی اور چچا زاد بہنوں تک کو اپنے جوڑے کی جھلک نہیں  دکھاتی تھیں۔ عید کے دن ہی پتہ چلتا تھا کہ کون کیا پہنے ہوئے ہے؟
  یہ لڑکیاں  اپنے جو ڑے کو سب سے الگ بنانے کیلئے دن رات ایک کردیتی تھیں۔ لالٹین کی روشنی میں   بھی یہ باریک کام کرتی تھیں۔ ظاہرہےکہ اتنی محنت کے بعد جو جوڑا تیار ہوگا، وہ کتنا خاص ہوگا ؟ اس کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔ پھر اس کے ڈیزائن پر تبصرے ہوتے تھے، داد ملتی تھی۔ 
گاؤں گھومنے کی روایت
  عید کے دن لڑکیاں اپنے خاص جوڑے میں  گاؤں کے ہر گھر جاتی تھیں مگر ایک ایک گھر جانے کی روایت مردوں نے باقی رکھی ہے، خواتین گاؤں گھومنے کی اس روایت کو بچا نہیں سکیں۔ اب وہ چند گھر ہی جاپاتی ہیں، پورا محلہ بھی نہیں گھومتی ہیں۔ لڑکیوں کے اس طرح روایت کو بچا نہ پانے پر ایک خاتون خانہ کا کہنا تھا، ’’بابو ایک ہمرا جمانہ رہا، عید کے تینوں دن گھر گھر جات رہیں، گاؤں میں اکو گھر نہ چھٹت رہا، سیوی پیت رہیں، تو لوگ کی تر سے بات بہانے کپڑا نہ بنت رہا ہے، عیدے کے بنت رہا، چھٹے چھٹے لڑکن تو نیا کپڑا پہن کے اپنے میں نہ رہت رہن، لڑکینوں کم نہ اترات رہن، خود کا ہور پری سمجھت رہن، اپنے میں نہ رہت رہن۔ ‘‘ (بابو ایک ہمارا زمانہ تھا، عید کے تینوں دن گھر گھر گھومتے تھے، گاؤں کا کوئی گھر نہیں چھوٹتا تھا، سویاں پیتے تھے، آپ کی طرح بات بہانے کپڑا نہیں بنتا تھا، عید کے دن ہی بنتا تھا، چھوٹے چھوٹے بچے نیا جوڑا پہن کر اپنے میں نہیں رہتے تھے، لڑکیاں بھی کم نہیں اتراتی تھیں، خود کو حور پری سمجھتی تھیں، اپنے میں نہیں رہتی تھیں۔ )
مہندی لگانے کا قصہ
  اس زمانے میں گاؤں میں مہندی لگانے والی چند ایک ہی ہوتی تھیں، پورے محلے کو مہندی وہی لگاتی تھیں، آج بھی گاؤں میں مہندی لگانے والیاں ہیں اوروہ اس کی پھوٹی کوڑی نہیں لیتی ہیں بلکہ اسے اپنا فرض سمجھتی ہیں، انہیں بس داد ملتی ہے، اسی میں وہ خوش رہتی ہیں۔ اس دور میں یوٹیوب آگیا ہے، اب ہر گھر میں مہندی سے ہتھیلیاں سجانے والی ہیں۔ 
  گاؤں کی ایک لڑکی بتاتی ہے، ’’ میرے آنگن میں آج بھی چاند رات کو مہندی لگوانے والی بچیاں آتی ہیں۔ پہلے میری اپی چاند رات کو مہندیاں لگاتی تھیں، پھر میں لگاتی تھی، میری شادی ہوگئی، اب میری بھابھی بہت سی ننھی ہتھیلیوں  پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتی ہیں، میری بھابھی اتنی ماہر ہیں کہ وہ اپنے دونوں  ہاتھوں  میں   مہندی خود سے لگاتی ہیں۔ اپنی شادی کی مہندی بھی انہوں نے خود سے لگائی تھی۔ ‘‘
  وہ مزیدبتاتی ہے، ’’ اس زمانے میں گا ؤں میں ممبئی کی مہندی کون کی دھوم تھی۔ جن لڑکیوں  کے گھر والے ممبئی رہتے تھے، وہ آسانی سے کون منگوا لیتی تھیں جن کے گھر کا کوئی ممبئی نہیں  رہتا تھا، وہ اپنے رشتہ داروں سے ممبئی کی کون منگوانے کی فرمائش کرتی تھیں۔ جن لڑکیوں  کیلئے ممبئی سے کون ملنے کے راستے بند ہوتے تھے، وہ ’ بامبے کون ...بامبے کون ...‘کی آواز سننے کیلئے کان لگائے رہتی تھیں۔ بامبے کون والا قریب کے بازار کا تھا، عام دنوں  میں سنگھاڑے بیجتا تھا، رمضان کے آخری عشرے میں گاؤں  کی گلی گلی میں ’ بامبے کون ...بامبے کون‘ کی صدائیں لگاتا تھا۔ اس زمانے میں اسےبھی کچھ لڑکیاں اور بچیاں عید کی چاند کی طرح تلاش کرتی تھیں۔ ‘‘ 
چوڑی کی خریداری
 اس دور میں پوروانچل کے گاؤں دیہاتوں میں ’چڑیاہن‘ اور ’بساتن ‘کی اصطلاح عام تھی۔ چڑیاہن گھر گھر جاکر چوڑیاں پہناتی تھیں، عید کے آخری عشرے میں ان کا بے صبری سے انتظار کیا جاتا تھا۔ یہ اپنا ٹوکرا لے کر آتی تھیں، دالان میں بیٹھ جاتی تھیں، گھر کی بچیاں ان کی راہ دیکھتی تھیں، سال میں ایک بار آتی تھیں، پھر بھی بچیاں چڑیاہن کو ان کی آہٹ سے پہچان لیتی تھیں، حالانکہ وہ آواز نہیں لگاتی تھیں، سیدھے گھر میں چلی جاتی تھیں، ان کیلئے اجازت لینا ضروری نہیں تھا۔ وہ نئی بہو کیلئے خاص چوڑیاں لاتی تھیں، جیسے ہی وہ اپنا ٹوکرا لےکر بیٹھتی تھیں، بچیاں اپنی اپنی نازک ہتھیلیاں ان کی طرف بڑھا دیتی تھیں۔ اس پر پہلے چڑیاہن ڈانٹ دیتی تھیں۔ پھر ساڑھی کے پلو سے پسینہ پونچھ کر نرمی سے کہتی تھیں، ’’رکجا لڑکو..سب کا پہربے.. سب کی کھاتر لائے ہیں (رک جاؤ بچو! سب کو پہناؤں گی، سب کیلئے لائی ہوں ) اس ڈانٹ یا کسی بھی بات کا بچیوں کی کلائیوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا، وہ ویسے ہی تنی رہتیں۔ گھر کی لڑکیاں تو چڑیاہن کے ٹوکرے سے کپڑا ہٹنے کا بالکل اسی بے صبری سے انتظار کرتیں جیسے نئی نویلی دلہن کا گھونگھٹ ہٹانے کی بے چینی ہوتی ہے۔ ٹوکرے سے کپڑا ہٹتے ہی لڑکیاں چوڑیاں اپنے ہاتھوں میں لے کر دیکھتیں اور چڑیاہن ایک ایک لڑکی کی آنکھوں کو پڑھتیں، ’اشتیاق‘ کی چمک وہ پہچانتی تھیں۔  
 آج کے دور میں گاؤں کی عورتیں بھی بازار جاتی ہیں۔ چوڑیاں ہی نہیں زرق برق کنگن اور مصنوعی زیور وغیرہ بھی خرید کر لاتی ہیں اور اسے اٹھا کر رکھ دیتی ہیں۔ پھر عید کے دن ہی اسے نکالتی ہیں اور پہن لیتی ہیں۔ اس طرح وہ چڑیاہن، بساتن اور ’بامبے کون ‘والے کے انتظار کے لطف سے محروم ہوجاتی ہیں۔ بار بار الٹ پلٹ کر اپنی چوڑیاں دیکھنے کی خوشی بھی محسو س نہیں   کرپاتی ہیں۔ اُس دور میں  عید کی ایک ایک روایت سے خوشیاں  کشید کی جاتی تھیں  ، تب جا کر عید مکمل ہوتی تھی، اب تو اس کا صرف تصور کیا جاسکتا ہے اوران روایتوں کے دم توڑنے پر ماتم کیاجاسکتا ہے۔ 

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK