Inquilab Logo

پانی کی بڑھتی قلت اور ہم

Updated: April 20, 2024, 12:59 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

اِن دنوں ہر طرف شدید گرمی ہے، لو‘ کے تھپیڑے ہیں ، پسینے میں ڈوبی ہوئی بھیڑ ہے، مکانوں کی چھتوں سے آگ برس رہی ہے، ہوا چلتی بھی ہے تو گرمی سے راحت نہیں ملتی۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 اِن دنوں  ہر طرف شدید گرمی ہے، لو‘ کے تھپیڑے ہیں ، پسینے میں  ڈوبی ہوئی بھیڑ ہے، مکانوں  کی چھتوں  سے آگ برس رہی ہے، ہوا چلتی بھی ہے تو گرمی سے راحت نہیں ملتی۔ ایئر کنڈیشنروں  کو سخت آزمائش سے گزرنا پڑرہا ہے اور جن کے پاس ایئر کنڈیشنر نہیں  ہیں  اُن کےہاں  چھتوں  پر لٹکے ہوئے پنکھے اپنی بے بضاعتی کا اعلان کررہے ہیں ۔ شدید گرمی پانی کی قلت سے دوچار کرتی ہے، پانی کی قلت بجلی کی آنکھ مچولی کا سامان پیدا کرتی ہے۔جس طرح ایک بھوکا جانتا ہے کہ غذا کے ایک ایک دانے کی کیا قدروقیمت ہے، پیاسا جانتا ہے کہ پانی کتنی بڑی نعمت ہے، اسی طرح گرمی میں  پسینے سے شرابور ہوجانے کے بعد جب انسان کسی سائے میں  ٹھہرتا ہے تو اُسے پانی کی تلاش ہوتی ہے اور جب پانی میسر آجاتا ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ پانی ٹھنڈا ہو او رجب ٹھنڈا پانی بھی میسر آجاتا ہے تو اُس کی خواہش ہوتی ہے کہ گھونٹ دو گھونٹ پر اکتفا نہ کرنا پڑے بلکہ تشنگی بجھنے سے پہلے وہ پانی سے محروم نہ ہو۔معلوم ہوا کہ جب کوئی شے کمیاب یا نایاب ہوتی ہے تب اُس کی قدر ہونے لگتی ہے، جب وہی شے فراواں  ہوتی ہے تب اُسے ضائع کرنے والوں  کو ایک لمحے کیلئے بھی خیال نہیں  آتا کہ وہ جس شے کو ضائع کررہا ہے وہ کتنی قیمتی ہے۔پانی کے ساتھ ہمارا یہی طرز عمل ہے۔ جب افراط ہوتا ہے تو ہم قدر نہیں  کرتے، جب میسر نہیں  آتا یا ناپ تول کر ملتا ہے تب اس کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ ہم اس کالم میں  لکھ چکے ہیں  کہ ہندوستان کے پاس پانی کے جتنے وسائل ہیں  اُس سے کئی گنا زیادہ اس کی آبادی ہے اس کے باوجود عام دنوں  میں  نہ تو حکومت پانی کی اہمیت کا احساس دلانے کی کوشش کرتی ہے نہ ہی عوام اسے ازخود محسوس کرتے ہیں ۔ ممبئی کے قریب گورائی گاؤں  کے تین ہزار خاندان اِن دنوں  پانی کی شدید قلت کا سامنا کررہے ہیں ۔ اِن خاندانوں  کی ماہانہ آمدنی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں  ہے۔ مشکل ہے تو یہ کہ جب ہر خاندان کسی طرح پانی حاصل کرنے کی کوشش میں  ۷؍ ہزار روپے ادا کرنے پر مجبور ہو تو اُس پر کیا گزرتی ہوگی۔ 
 مہاراشٹر کے ڈیمس کا یہ حال ہے کہ ان کی سطح کم سے کم تر ہوتی چلی گئی اور اب حال یہ ہے کہ میونسپل حکام کی تشویش بڑھتی جارہی ہے۔ جتنی گرمی پڑے گی، پانی کی طلب اُتنی بڑھے گی اور اس کی فراہمی دشوار سے دشوار تر ہوتی جائیگی۔ اعدادوشمار کے مطابق مہاراشٹر کے ڈیمس میں  اِس وقت مجموعی ذخیرہ کا صرف ۳۲ء۷۲؍ فیصد باقی ہے۔ ریاست کے تقریباً ہر ضلع میں  یہی کیفیت ہے مگر سب سے زیادہ بُرا حال مراٹھواڑہ کا ہے جہاں  پانی کی صرف ۱۹ء۳۶؍ فیصد ذخیرہ باقی رہ گیا ہے۔ ٹائمس آف انڈیا کی ایک خبر (مورخہ ۱۹؍ اپریل) میں  مہاراشٹر آرینج گرووَرس اسوسی ایشن کا بیان نقل کیا گیا ہے جس کے مطابق پونے کے بہت سے علاقوں  کے علاوہ امراؤتی اور اکولہ میں  بھی کسان نارنگی کے درختوں  کو اپنے ہی ہاتھوں  سے تباہ کررہے ہیں  کیونکہ اُن کے پاس نہ تو سینچائی کیلئے پانی ہے نہ ہی بجلی جس کے ذریعہ کھیتوں  تک پانی کی فراہمی ہوتی ہے۔ 
 اِدھر ممبئی میں  بھی کٹوتی شروع ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود اگر شہری اپنا محاسبہ کرتے ہوئے یہ نہیں  دیکھیں گے کہ وہ کتنا پانی استعمال کرتے ہیں ، استعمال سنبھلا ہوا ہے یا بے تحاشا ہے تو ہم سمجھتے ہیں  کہ یہ اپنے آپ پر ظلم کے مترادف ہوگا۔ صرف گرمیوں  میں  نہیں  ہر شہری کو سال بھر پانی بچاؤ مہم کا حصہ بنا رہنا چاہئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK