مرکزی حکومت کو فلسطین اسرائیل تنازع پر اپنے موقف کا ازسرنو جائزہ لینا چاہئے، اس پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ اب سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ ہم نے فلسطین پر اسرائیل کو ترجیح دی ہو۔
EPAPER
Updated: October 11, 2023, 1:14 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
مرکزی حکومت کو فلسطین اسرائیل تنازع پر اپنے موقف کا ازسرنو جائزہ لینا چاہئے، اس پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ اب سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ ہم نے فلسطین پر اسرائیل کو ترجیح دی ہو۔
مرکزی حکومت کو فلسطین اسرائیل تنازع پر اپنے موقف کا ازسرنو جائزہ لینا چاہئے، اس پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ اب سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ ہم نے فلسطین پر اسرائیل کو ترجیح دی ہو۔ آزادی کے بعد سے اب تک ہر حکومت فلسطین کے مصائب و مسائل میں اہل فلسطین کی ہمدرد اور بہی خواہ رہتی آئی ہے، حتیٰ کہ جنتا پارٹی کی حکومت اور خود این ڈی اے سرکاروں نے بھی فلسطین کو مقدم رکھا اور اسرائیلی جارحیت کی کھل کر مذمت کی۔ اِن حکومتوں نے فلسطینیوں کے راکٹ کا سہارا لینے کو تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق مانا اور راکٹ کے جواب میں تباہ کن میزائلوں سے لیس اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی۔ گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گشت کررہا تھا جس میں سابق وزیر اعلیٰ واجپئی کو سنا جاسکتا ہے جنہوں نے کہا تھا کہ ’’آکرمن کاری، آکرمن کے پھلوں کا اُپبھوگ کریں یہ اپنے سمبندھ میں ہمیں سویکار نہیں ہے، تو جو نِیَم ہم پر لاگو ہے وہ اوروں پر بھی لاگو ہوگا۔‘‘ اس کے ساتھ ہی انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا تھا: ’’ عربوں کی زمین خالی ہونی چاہئے۔‘‘
یہ تب کی بات ہے جب ۱۹۷۷ء میں واجپئی، مرارجی دیسائی حکومت میں وزیر خارجہ تھے۔ ہمیں یاد ہے اُس دور کے وہ لوگ بھی جو واجپئی او راُن کی پارٹی سے اختلاف رکھتے تھے بحیثیت وزیر خارجہ واجپئی کے اقدامات کی تعریف کیا کرتے تھے۔ یہ بیان بھی اُن کے منصفانہ طرز فکر کا غماز ہے، اُنہیں یہ پسند نہیں تھا کہ ہندوستان اپنی خارجہ پالیسی کو یکسر بدل کر اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہوجائے۔
مگر آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت نے ہندوستان کی بہت پرانی روایت کو بالائے طاق رکھ دیا۔قارئین جانتے ہوں گے کہ بابائے قوم مہاتما گاندھی بھی فلسطینیوں کے دکھ درد کو سمجھتے تھے اور اُنہیں وطن میں بے وطن بنائے جانے کے خلاف تھے۔ ۲۶؍ نومبر ۱۹۳۸ء کو ’’ہریجن‘‘ میں شائع ہونے والے مضمون میں گاندھی جی نےنہایت واضح لفظوں میں لکھا تھا کہ ’’فلسطین عربوں کا ہے بالکل اُسی طرح جیسے انگلینڈ انگریزوں کا اور فرانس فرانسیسیوں کا ہے۔ عربوں پر یہودیوں کا مسلط کیا جانا غلط ہی نہیں ، غیر انسانی بھی ہے۔‘‘
اس جملے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گاندھی جی فلسطین اسرائیل مسئلہ کو کس نقطۂ نظر سے دیکھتے تھے۔ گاندھی جی نے ۱۹۳۸ء میں اپنے اس موقف کا اظہار کیا تھا، تب سے لے کر اب تک پچاسی سال گزر چکے ہیں ، ہندوستان کا موقف کبھی نہیں بدلا۔ یہ پہلا موقع ہے جب موجودہ حکومت نے پالیسی کو اس طرح بدل دیا کہ دُنیا کا ہر وہ شخص جو عدل و انصاف پر، حقوق انسانی پر اور مختلف قوموں کے درمیان امن و سکون کے فلسفہ پر یقین رکھتا ہے، محو حیرت ہے کہ ہندوستان جو عرصۂ دراز تک ناوابستہ تحریک کی سربراہی کرتا رہا اور جسے ہر دور میں حق کا ہمنوا تسلیم کیا گیا، وہ متضاد موقف کیسے اختیار کرسکتا ہے؟
معاشی مفاد اپنی جگہ، اُصول اپنی جگہ۔ ہر وہ ملک جو جیو اور جینے دو کا حامی ہے اور اس اصول کا پاسدار ہونے پر فخر کرتا ہے، معاشی مفاد کیلئے اُصول قربان نہیں کر سکتا۔ حماس کے طریق کار سے بحث کی جاسکتی ہے مگر مسئلۂ فلسطین سے نہیں ۔ اسرائیل غاصب اور جارح ہے۔ اسے چیختا چلاتا اور واویلہ مچاتا دیکھ کر اس حقیقت سے منہ نہیں موڑا جاسکتا کہ اس نے فلسطینیوں کا جینا حرام کررکھا ہے۔