Inquilab Logo

’’انڈیا‘‘ خاموش ہے یا بظاہر خاموش؟

Updated: November 21, 2023, 1:02 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

انڈیا اتحاد نے بڑے زوروشور سے پر تولے اور بلند پروازی کا عزم کیا تھا مگر پٹنہ، بنگلور اور ممبئی کے تین اجلاس کے بعد سے ’’سناٹا‘‘ ہے۔

Parties associated with "India" coalition. Photo: INN
’’انڈیا‘‘ اتحاد سے وابستہ پارٹیاں ۔تصویر:آئی این این

 انڈیا اتحاد نے بڑے زوروشور سے پر تولے اور بلند پروازی کا عزم کیا تھا مگر پٹنہ، بنگلور اور ممبئی کے تین اجلاس کے بعد سے ’’سناٹا‘‘ ہے۔ اختلاف اور من مٹاؤ کی خبر تو آجاتی ہے، اتحاد کو مربوط اور مضبوط کرنے کی خبر نہیں  آتی۔ جن پانچ ریاستوں  میں  انتخابی عمل جاری ہے، مانا کہ وہاں  اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں  کا اثر و رسوخ معمولی بھی نہیں  ہے (سوائے مدھیہ پردیش کے جہاں  سماجوادی پارٹی کی تھوڑی بہت ساکھ ہے) اور بی جے پی کا مقابلہ براہ راست کانگریس سے ہے مگر ’’انڈیا‘‘ بالائے طاق نہ چلا جائے اس مقصد کے تحت علامتی طور پر ہی سہی، کانگریس دیگر جماعتوں  کو وہ سیٹیں  دے سکتی تھی جن پر اس کی کامیابی مشکوک ہے۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ کانگریس کی ہر انتخابی ریلی میں  صرف کانگریسی لیڈران یا صرف کانگریسی پرچم نہ ہوتا بلکہ اپوزیشن کے لیڈران ہوتے اور مشترکہ پرچم ہوتا۔ اس کا یہ فائدہ ممکن ہوسکتا تھا کہ ’’انڈیا‘‘ کی بازگشت بار بار سنائی دیتی اور عوام کے ذہنوں  میں  یہ نام محفوظ رہتا اور ان کے دلوں  میں  جگہ بناتا۔ چونکہ یہ نہیں  ہوا بلکہ کانگریس کے علاوہ اپوزیشن کی بعض جماعتوں  نے جہاں  بھی مناسب سمجھا اپنا امیدوار  میدان میں  اتارا ہے اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ’’انڈیا‘‘ وجود میں  تو آگیا، زمین پر نہیں اترا۔ ممکن ہے یہ سوچا سمجھا اور طے شدہ منصوبہ ہو اور اس میں  کوئی بڑی سیاسی حکمت عملی پوشیدہ ہو مگر ہم اس ممکنہ منطق کو سمجھنے سے قاصر ہیں  حالانکہ کبھی ایسا بھی لگتا ہے کہ گھمنڈیا کہلائے جانے کے باوجود ’’انڈیا‘‘ خاموش نہیں  ہے بلکہ اندر ہی اندر سیٹ شیئرنگ پر مذاکرات کے ذریعہ اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے مسلسل کوششیں  جاری ہیں  اور پانچ ریاستوں  کا انتخابی نتیجہ برآمد ہونے کے بعد ہی یہ اتحاد کھل کر میدان میں  آئیگا اور لوک سبھا الیکشن میں  بی جے پی کو ناکوں  چنے چبانے پر مجبور کریگا۔ مگر یہ ہماری خوش فہمی بھی ہوسکتی ہے۔
 اب آئیے اس سوال کی طرف کہ ’’انڈیا‘‘ اتحاد سے وابستہ پارٹیاں  کچھ کر بھی رہی ہیں  یا فی الحال ہر جگہ سکوت طاری ہے؟ اس سلسلے میں  جب ہم نے چھان بین کی تو یہ علم ہوا کہ اپوزیشن کی جماعتوں  نے اپنی اپنی اسٹوڈنٹس تنظیموں  کو متحرک کیا ہے کہ وہ مشترکہ لائحہ عمل بناکر عوام کے درمیان جائیں  اور تعلیم نیز روزگار کو بنیاد بناکر عوام بالخصوص نوجوانوں  کو ملتفت کریں ۔ جن پارٹیوں  کے بارے میں  ہمیں  پکی خبر ملی ہے ان میں  کانگریس کے علاوہ آر جے ڈی، ایس پی، آر ایل ڈی، ڈی ایم کے، عام آدمی پارٹی، سی پی ایم اور سی پی آئی شامل ہیں ۔ بتایا گیا ہے کہ لیفٹ پارٹیوں  کی وجہ سے مشترکہ مہم میں  ترنمول شریک نہیں  ہوئی ہے مگر اس نے ترنمول چھاتر پریشد کو یہی ذمہ داری سونپی ہے۔ یہ بھی اطلاع ہے کہ الگ الگ سیاسی جماعتوں  سے وابستہ یا ان کی طرف جھکاؤ رکھنے والی کسان تنظیمیں  اور ٹریڈ یونینیں  بھی مشترکہ لائحۂ عمل کے تحت حرکت میں  آئینگی۔ اگر یہ اطلاعات درست ہیں  تو اس کا مطلب صاف ہے کہ ’’انڈیا‘‘ خاموش نہیں  ہے بلکہ پراسرار نظر آنے والی خاموشی کے پیچھے پرجوش سیاسی و انتخابی صف بندی ہے اور اس اتحاد کی سرگرمیاں  دسمبر کے دوسرے ہفتے سے منظر عام پرآنی شروع ہوں  گی۔ تب تک یہ دیکھنے کیلئے انتظار کرنا ہوگا کہ اس بار اپوزیشن بکھرنے کیلئے نہیں  جوڑنے، جڑنے اور جڑے رہنے کیلئے متحد ہوا ہے۔

patna Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK